Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Seclusion is better for a believer than to have evil companions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6495.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں مسلمان آدمی کا بہترین مال بکریاں ہوں گی۔ وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر لے جائے گا۔ وہ اس زمانے میں برپا فتنوں سے اپنے دین کو بچا کر بھاگ نکلے گا۔“
تشریح:
(1) دور حاضر میں ایسی آزادانہ پہاڑوں کی چوٹیاں ناپید ہیں۔ اب تو ہر جگہ خطرہ ہی خطرہ ہے، تاہم اپنے دین اسلام کو بچانے کے لیے علیحدہ گھر ہی اس انسان کے لیے بہتر ہے جو شہرت اور نمودونمائش کا طالب نہ ہو، بلکہ صرف گناہوں سے محفوظ رہنا مقصود ہو، نیز جمعہ، جماعت اور دیگر فرائض اسلام بھی ترک نہ کرے۔ (2) واضح رہے کہ فتنوں سے مراد ایسے حالات ہیں کہ لوگوں سے ملنے کی صورت میں انسان کے دین کو خطرہ ہو، بصورت دیگر اپنے ماحول اور معاشرے میں رہنا ہی بہتر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جو مومن لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے جو لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور نہ ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر ہی کرتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث: 4032) (3) لوگوں سے میل جول میں اچھے برے ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ معاشرے میں برائی زیادہ ہو جائے تب بھی الگ تھلگ ہو جانا اچھا نہیں بلکہ معاشرے میں رہ کر اصلاح کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ تیمارداری کا ثواب، سلام کرنے اور صلہ رحمی کا اجر اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان معاشرے میں رہے گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6266
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6495
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6495
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6495
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس سلسلے میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''برے ہم نشین سے تنہائی بہتر ہے۔'' (المستدرک للحاکم: 3/343) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ حضرت ابوذر یا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ (فتح الباری: 11/402)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں مسلمان آدمی کا بہترین مال بکریاں ہوں گی۔ وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر لے جائے گا۔ وہ اس زمانے میں برپا فتنوں سے اپنے دین کو بچا کر بھاگ نکلے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) دور حاضر میں ایسی آزادانہ پہاڑوں کی چوٹیاں ناپید ہیں۔ اب تو ہر جگہ خطرہ ہی خطرہ ہے، تاہم اپنے دین اسلام کو بچانے کے لیے علیحدہ گھر ہی اس انسان کے لیے بہتر ہے جو شہرت اور نمودونمائش کا طالب نہ ہو، بلکہ صرف گناہوں سے محفوظ رہنا مقصود ہو، نیز جمعہ، جماعت اور دیگر فرائض اسلام بھی ترک نہ کرے۔ (2) واضح رہے کہ فتنوں سے مراد ایسے حالات ہیں کہ لوگوں سے ملنے کی صورت میں انسان کے دین کو خطرہ ہو، بصورت دیگر اپنے ماحول اور معاشرے میں رہنا ہی بہتر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جو مومن لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے جو لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور نہ ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر ہی کرتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث: 4032) (3) لوگوں سے میل جول میں اچھے برے ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ معاشرے میں برائی زیادہ ہو جائے تب بھی الگ تھلگ ہو جانا اچھا نہیں بلکہ معاشرے میں رہ کر اصلاح کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ تیمارداری کا ثواب، سلام کرنے اور صلہ رحمی کا اجر اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان معاشرے میں رہے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ماجشون نے بیان کیا، ان سے عبد الرحمن بن ابی صعصعہ نے، ان سے ان کے والد نے اور انہوں نے ابوسعید ؓ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا جب ایک مسلمان کا سب سے بہتر مال بھیڑیں ہوں گی وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کی جگہوں پر چلا جائے گا۔ اس دن وہ اپنے دین کو لے کر فسادوں سے ڈر کر وہاں سے بھاگ جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
آج کی دور میں ایسی آزادانہ چوٹیاں بھی نابود ہو گئی ہیں اب ہر جگہ خطرہ ہے۔ اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو کہتے ہیں عزلت بہتر ہے کبھی لوگوں سے مل کر رہنا بہتر ہوتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ عزلت کرنے والا شخص شہرت اور ریاونمود کی نیت سے عزلت نہ کرے بلکہ گناہوں سے بچنے کی نیت اور جمعہ جماعت فرائض اسلام ترک نہ کرے زیادہ تفصیل احیاء العلوم میں ہے (مذکورہ احادیث اور ان جیسی دوسرے احادیث میں جو عزلت کی ترغیب اور فضیلت بیان ہوئی ہے اس سے فتنوں کا زمانہ مراد ہے اور ماحول میں لوگوں سے ملنے کی صورت میں گناہوں سے بچنا مشکل ہو۔ ورنہ اسلام عام حالت میں تعلق جوڑنے اور آبادی بڑھانے کا حکم دیتا ہے۔ کیونکہ آپ سوچیں کہ تیمار داری کا ثواب، سلام کرنے، صلہ رحمی کا ثواب وغیرہ یہ جملہ نیکیاں تب ممکن ہیں جب آبادی میں رہائش ہوگی۔ عبد الرشید تونسی) عزلت کے معنیٰ لوگوں سے الگ تھلگ تنہا دور رہنے کے ہیں۔