باب:مناولہ کا بیان اور اہل علم کا علمی باتیں لکھ کر(دوسرے) شہروں کی طرف بھیجنا
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: What is said regarding the hand to hand exchange (of books of knowledge), and the writing of knowledge by religious scholars to different countries)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ حضرت عثمان ؓ نے مصاحف ( یعنی قرآن ) لکھوائے اور انھیں چاروں طرف بھیج دیا۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ، یحییٰ بن سعید، اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ( کتابت ) جائز ہے۔ اور بعض اہل حجاز نے مناولہ پر رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں آپ نے امیر لشکر کے لیے خط لکھا تھا۔ پھر ( قاصد سے ) فرمایا تھا کہ جب تک تم فلاں فلاں جگہ نہ پہنچ جاو اس خط کو مت پڑھنا۔ پھر جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو اس نے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور جو آپ ﷺ کا حکم تھا وہ انھیں بتلایا۔
65.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک خط لکھا، یا لکھنے کا ارادہ فرمایا۔ تو آپ سے کہا گیا: وہ لوگ بغیر مہر لگا خط نہیں پڑھتے۔ تب آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ (اس کی خوب صورتی میری نظر میں کھب گئی) گویا میں اب بھی آپ کے ہاتھ میں اس کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں۔ (شعبہ کہتے ہیں) میں نے قتادہ سے پوچھا: اس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے، یہ الفاظ کس کے بیان کردہ ہیں؟ انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ کے۔
تشریح:
1۔ صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اہل عجم کو مکتوب لکھنے کا ارادہ فرمایا (حدیث:5872)، دوسری روایت کے مطابق اہل روم کو خط لکھنے کا پروگرام بنایا(حدیث: 5875)۔ بہرحال جب آپ نے سلاطین عالم کے نام دعوتی خطوط بھیجنے کاارادہ فرمایا تو آپ کو بتایا گیا کہ جس خط پر مہر نہ ہو، یہ لوگ اسے ہاتھ نہیں لگاتے۔ چونکہ مقصد ان لوگوں تک دعوت اسلام پہنچانا تھا، اس لیے آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بنیاد بنا کر یہ تنبیہ کی ہے کہ مکاتبہ وہ معتبر ہوگا جس پر مہرہو۔ یہ بھی اعتماد کے لیے ہے۔ اگرمکتوب الیہ تحریر پہچانتا ہو اور اسے اعتماد ہوتو غیر مختوم تحریر پر عمل بھی درست ہے۔ اگر مکتوب الیہ تحریر نہیں پہچانتا اور اسے اعتماد بھی نہیں تو صرف مہر کا اعتبار نہیں کیا جائےگا کیونکہ مہر بھی جعلی ہوسکتی ہے۔ اس حدیث سے اتنا تو معلوم ہوا کہ علم کے سلسلے میں مکاتبت کا اعتبار ہے لیکن شرط یہی ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک انتقال میں کوئی کمزوری نہ آئے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مکاتبت کی صورت بھی مشافہت(رُو دررُو) کی طرح لائق استناد ہے۔ 2۔ آپ نے چاندی کی انگوٹھی اس لیے بنوائی تھی تاکہ آپ کے خطوط کا اعتبار کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے پاس رکھا، بالآخر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی حتیٰ کہ بئراریس میں گرگئی اور تلاش بسیار کے باوجود نہ مل سکی۔ انگوٹھی کے متعلق مفصل گفتگو کتاب اللباس میں کی جائےگی۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اقسام تحمل حدیث سے صرف چار کا ذکر کیا ہے۔ (1)۔ سماع من الشیخ۔ (2)۔ قراءۃ علی الشیخ۔ (3)۔ مناولہ۔ (4)۔ مکاتبہ۔ باقی اقسام: وجادہ، اعلام ، وصیہ، جن میں اجازت نہیں ہوتی، کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (فتح الباري: 205/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
65
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
65
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
65
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
65
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
علم حدیث کئی ایک طریقوں سے حاصل کیا جاتا ہے جن میں سماع من الشیخ(استاد سے سننا) اور قراءت علی الشیخ (استاد کو سنانا) کاذکر ہوچکا ہے۔اب مناولہ اور مکاتبہ کا اثبات فرماتے ہیں۔مناولہ یہ ہے کہ شیخ اپنی مرویات پر مشتمل کوئی کتاب اپنے شاگرد کو دے دے اور اسے کتاب میں درج شدہ روایات بیان کرنے کی اجازت بھی دےدے۔اگراجازت نہ دے تو (حَدَّثَنِي) یا (اَخَبَرنِي) کے صیغے سے بیان کرناجائز نہیں۔(مُكَاتَبَه) یہ ہے کہ شیخ اپنے شاگرد کے پاس چند احادیث پر مشتمل ایک تحریر بھیجتا ہے او راجازت دیتا ہے کہ تم ان مرویات کو میری سند سے بیان کرسکتے ہو۔ان میں سے بعض محدثین نے مناولہ کو راجح قراردیا ہے کہ یہ آمنے سامنے کا معاملہ ہے جبکہ مکاتبہ میں مکتوب الیہ غائب ہوتا ہے،اور بعض محدثین کے نزدیک مکاتبہ ترجیح یافتہ ہے۔كيونکہ اس میں ایک استاد اپنے شاگرد ہی کے لیے مرویات لکھتا ہے،اس لیے وہ راجح ہے ۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں مناولہ اصطلاحی کے اثبات کے لیے کوئی صریح دلیل نہیں ہے اس لیے استدلال کے دائرے کووسیع کرنے کے لیے مکاتبہ کا ذکر کیا ہے۔جومسند احادیث ذکر فرمائی ہیں۔وہ مکاتبہ کے لیے صریح دلیل ہیں۔اصل مقصود ان سے مناولہ کااثبات ہے۔واللہ اعلم۔اس کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مناولہ اور مکاتبہ کے جواز پر دلائل ذکر کیے ہیں۔1۔ایک یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصاحف کی چند ایک نقلیں تیار کرکے مختلف بلادمیں ارسال فرمائیں اور ہدایات دیں کہ انھی کے مطابق تلاوت کی جائے ،جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ارسال کتب بھی ایک معتبر طریقہ ہے۔جب قرآن مجید کے متعلق مکاتبت کا طریقہ حجت ہوسکتا ہے تو حدیث کے بارے میں توبدرجہ اولیٰ معتبر ہونا چاہیے۔2۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اسلاف میں بعض نامور حضرات اس کے قائل ہیں،ان میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،یحییٰ بن سعید اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سرفہرست ہیں۔3۔تیسری دلیل یہ ہے کہ بعض اہل حجاز(امام حمیدی) نے مناولہ کےمتعلق ایک روایت پیش کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طریقہ مناولت جائزہے۔روایت یہاں مختصر ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسے آئندہ مفصل بیان کریں گے۔اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر لشکر کو ایک خط دیاتھا اورہدایت فرمائی تھی کہ فلاں مقام پر پہنچ کر اسے کھولنا ہے اور ساتھیوں کوپڑھ کرسنانا ہے،چنانچہ وہاں پہنچ کر جب خظ کھولا گیا تو اس میں لکھا تھا:سرزمین نخلہ جو مکہ اورطائف کے درمیان ہے،اترکرقریش کا حال معلوم کرکے ہمیں اس سے مطلع کیا جائے۔اس سے مناولہ کااثبات ہوگیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر لشکر کو صرف تحریر کردی،اسے نہ پڑھ کرسنایا اور نہ اس کامضمون ہی بتایا،البتہ ہدایات دیں،لہذا یہ مناولہ مقرون بالاجازہ ہے نیز اس میں مکاتبہ بھی اثبات ہے۔
اور حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ حضرت عثمان ؓ نے مصاحف ( یعنی قرآن ) لکھوائے اور انھیں چاروں طرف بھیج دیا۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ، یحییٰ بن سعید، اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ( کتابت ) جائز ہے۔ اور بعض اہل حجاز نے مناولہ پر رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں آپ نے امیر لشکر کے لیے خط لکھا تھا۔ پھر ( قاصد سے ) فرمایا تھا کہ جب تک تم فلاں فلاں جگہ نہ پہنچ جاو اس خط کو مت پڑھنا۔ پھر جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو اس نے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور جو آپ ﷺ کا حکم تھا وہ انھیں بتلایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک خط لکھا، یا لکھنے کا ارادہ فرمایا۔ تو آپ سے کہا گیا: وہ لوگ بغیر مہر لگا خط نہیں پڑھتے۔ تب آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ (اس کی خوب صورتی میری نظر میں کھب گئی) گویا میں اب بھی آپ کے ہاتھ میں اس کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں۔ (شعبہ کہتے ہیں) میں نے قتادہ سے پوچھا: اس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے، یہ الفاظ کس کے بیان کردہ ہیں؟ انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ کے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اہل عجم کو مکتوب لکھنے کا ارادہ فرمایا (حدیث:5872)، دوسری روایت کے مطابق اہل روم کو خط لکھنے کا پروگرام بنایا(حدیث: 5875)۔ بہرحال جب آپ نے سلاطین عالم کے نام دعوتی خطوط بھیجنے کاارادہ فرمایا تو آپ کو بتایا گیا کہ جس خط پر مہر نہ ہو، یہ لوگ اسے ہاتھ نہیں لگاتے۔ چونکہ مقصد ان لوگوں تک دعوت اسلام پہنچانا تھا، اس لیے آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بنیاد بنا کر یہ تنبیہ کی ہے کہ مکاتبہ وہ معتبر ہوگا جس پر مہرہو۔ یہ بھی اعتماد کے لیے ہے۔ اگرمکتوب الیہ تحریر پہچانتا ہو اور اسے اعتماد ہوتو غیر مختوم تحریر پر عمل بھی درست ہے۔ اگر مکتوب الیہ تحریر نہیں پہچانتا اور اسے اعتماد بھی نہیں تو صرف مہر کا اعتبار نہیں کیا جائےگا کیونکہ مہر بھی جعلی ہوسکتی ہے۔ اس حدیث سے اتنا تو معلوم ہوا کہ علم کے سلسلے میں مکاتبت کا اعتبار ہے لیکن شرط یہی ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک انتقال میں کوئی کمزوری نہ آئے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مکاتبت کی صورت بھی مشافہت(رُو دررُو) کی طرح لائق استناد ہے۔ 2۔ آپ نے چاندی کی انگوٹھی اس لیے بنوائی تھی تاکہ آپ کے خطوط کا اعتبار کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے پاس رکھا، بالآخر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی حتیٰ کہ بئراریس میں گرگئی اور تلاش بسیار کے باوجود نہ مل سکی۔ انگوٹھی کے متعلق مفصل گفتگو کتاب اللباس میں کی جائےگی۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اقسام تحمل حدیث سے صرف چار کا ذکر کیا ہے۔ (1)۔ سماع من الشیخ۔ (2)۔ قراءۃ علی الشیخ۔ (3)۔ مناولہ۔ (4)۔ مکاتبہ۔ باقی اقسام: وجادہ، اعلام ، وصیہ، جن میں اجازت نہیں ہوتی، کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (فتح الباري: 205/1)
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے مصاحف کی کتابت کرائی اور انہیں چاروں طرف بھیج دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر، یحییٰ بن سعید اور امام مالک کے نزدیک یہ مکاتبہ جائز ہے۔ بعض اہل حجاز نے مناولہ کے جواز پر نبی ﷺ کی ایک حدیث سے استدلال کیا ہے جبکہ آپ نے امیر لشکر کو ایک مکتوب دیا اور تاکید فرمائی کہ فلاں مقام تک پہنچنے سے قبل تم نے اسے پڑھنا نہیں، جب وہ اس مقام پر پہنچ گئے تو انہوں نے وہ مکتوب لوگوں کو پڑھ کر سنایا اور انہیں آپ کے حکم کی اطلاع دی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، ان سے عبداللہ نے، انھیں شعبہ نے قتادہ سے خبر دی، وہ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے (کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے) ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے (یعنی بے مہر کے خط کو مستند نہیں سمجھتے) تب آپ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ جس میں ’’محمد رسول اللہ‘‘ کندہ تھا۔ گویا میں (آج بھی) آپ ﷺ کے ہاتھ میں اس کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ (شعبہ راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے قتادہ سے پوچھا کہ یہ کس نے کہا (کہ) اس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ کندہ تھا؟ انھوں نے جواب دیا، انس ؓ نے۔
حدیث حاشیہ:
مناولہ اصطلاح محدثین میں اسے کہتے ہیں اپنی اصل مرویات اور مسموعات کی کتاب جس میں اپنے استادوں سے سن کر حدیثیں لکھ رکھی ہوں اپنے کسی شاگرد کے حوالہ کردی جائے اور اس کتاب میں درج شدہ احادیث کو روایت کرنے کی اس کو اجازت بھی دے دی جائے، تو یہ جائز ہے اور حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہی ہے۔ اگراپنی کتاب حوالہ کرتے ہوئے روایت کرنے کی اجازت نہ دے تو اس صورت میں حدثنی یا أخبرنی فلان کہنا جائز نہیں ہے۔ حدیث نمبر64 میں کسریٰ کے لیے بددعا کا ذکر ہے کیوں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تھا، چنانچہ خود اس کے بیٹے نے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالا۔ سوجب وہ مرنے لگا تواس نے دواؤں کا خزانہ کھولا اور زہر کے ڈبے پر لکھ دیا کہ یہ دوا قوت باہ کے لیے اکسیر ہے۔ وہ بیٹا جماع کا بہت شوق رکھتا تھا جب وہ مرگیا اور اس کے بیٹے نے دواخانے میں اس ڈبے پر یہ لکھا ہوا دیکھا تو اس کو وہ کھا گیا اور وہ بھی مرگیا۔ اسی دن سے اس سلطنت میں تنزل شروع ہوا، آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہا۔ ایران کے ہر بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے کے کسریٰ کا نام پرویز بن ہرمزبن نوشیروان تھا، اسی کو خسرو پرویز بھی کہتے ہیں۔ اس کے قاتل بیٹے کا نام شیرویہ تھا، خلافت فاروقی میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ایران فتح ہوا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خداداد قوت اجتہاد کی بنا پر ہردو مذکورہ احادیث سے ان اصطلاحات کو ثابت فرمایا ہے پھر تعجب ہے ان کم فہموں پر جو حضرت امام کو غیرفقیہ اور زودرنج اور محض ناقل حدیث سمجھ کر آپ کی تخفیف کے درپے ہیں۔ نعوذ باللہ من شرور أنفسنا
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Once the Prophet (ﷺ) wrote a letter or had an idea of writing a letter. The Prophet (ﷺ) was told that they (rulers) would not read letters unless they were sealed. So the Prophet (ﷺ) got a silver ring made with "Muhammad Allah's Apostle" engraved on it. As if I were just observing its white glitter in the hand of the Prophet (ﷺ).