باب: جو اللہ کی اطاعت کرنے کے لئے اپنے نفس کو دبائے اس کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Whoever compelled himself to obey Allah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6500.
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میرے اور آپ کے درمیان صرف کچاوے کی پچھلی لکڑی تھی، آپ نے فرمایا: ”اے معاذ!“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں۔ پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے، دوبارہ فرمایا: ”اے معاذ!“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر خدمت ہوں، آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ کا اپنے بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اسکی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں“ پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تمہیں معلوم ہے، جب بندے یہ کام کرلیں تو ان کا اللہ کے ذمے کیا حق ہے؟“ میں نے کہا: ”اللہ اور اس کے رسول کو ہی زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بار بار آواز دی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اہم بات بیان کرنے والے ہیں اور اسے سننے کے لیے مکمل طور پر متوجہ ہو جائیں، غفلت نہ کریں۔ (2) اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ اپنے نفس کو ہر قسم کے شغل سے روکے رکھنا نفس کا مجاہدہ ہے۔ چونکہ حدیث میں عبادت کا استحقاق بیان ہوا ہے، اس بنا پر عنوان اور حدیث میں مطابقت واضح ہے۔ نفس کی عام طور پر دو حالتیں ہیں: ایک تو شہوات میں منہمک ہونا اور دوسری اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریز کرنا۔ نفس سے مجاہدہ ان دونوں حالات کے پیش نظر ہوتا ہے۔ (3) نفس کے تین دشمن ہیں، ان کا سردار ابلیس لعین ہے، دوسرا انسان کا نفس اور تیسرا غلط قسم کے لوگ۔ نفس کا مددگار شیطان ہوتا ہے، اس لیے نفس سے جہاد بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا ثواب بھی بہت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو انسان اپنے رب کے حضور پیش ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے لگام دی تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘(النازعات: 40) (4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نفس سے جہاد کے چار مراتب ہیں: ٭ اسے امور دین سیکھنے کے لیے آمادہ کرنا اور اس پر لگانا۔ ٭ دینی معاملات کے مطابق عمل کرنے اور اس پر ہمیشگی کرنے پر آمادہ کرنا۔ ٭ اسے اس بات پر آمادہ کرنا کہ جن لوگوں کو علم نہیں ہے انہیں تعلیم دے۔ ٭ توحید کی طرف بلانے اور دین کی مخالفت کرنے والوں سے قتال کرنے پر آمادہ کرنا۔ (فتح الباري: 410/11) واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے کوئی چیز واجب نہیں۔ حدیث میں ’’بندوں کا اللہ پر حق‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے جزا و سزا کا جو وعدہ کیا ہے وہ اس کو پورا کرے گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6271
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6500
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6500
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6500
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میرے اور آپ کے درمیان صرف کچاوے کی پچھلی لکڑی تھی، آپ نے فرمایا: ”اے معاذ!“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں۔ پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے، دوبارہ فرمایا: ”اے معاذ!“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر خدمت ہوں، آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ کا اپنے بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اسکی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں“ پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تمہیں معلوم ہے، جب بندے یہ کام کرلیں تو ان کا اللہ کے ذمے کیا حق ہے؟“ میں نے کہا: ”اللہ اور اس کے رسول کو ہی زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بار بار آواز دی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اہم بات بیان کرنے والے ہیں اور اسے سننے کے لیے مکمل طور پر متوجہ ہو جائیں، غفلت نہ کریں۔ (2) اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ اپنے نفس کو ہر قسم کے شغل سے روکے رکھنا نفس کا مجاہدہ ہے۔ چونکہ حدیث میں عبادت کا استحقاق بیان ہوا ہے، اس بنا پر عنوان اور حدیث میں مطابقت واضح ہے۔ نفس کی عام طور پر دو حالتیں ہیں: ایک تو شہوات میں منہمک ہونا اور دوسری اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریز کرنا۔ نفس سے مجاہدہ ان دونوں حالات کے پیش نظر ہوتا ہے۔ (3) نفس کے تین دشمن ہیں، ان کا سردار ابلیس لعین ہے، دوسرا انسان کا نفس اور تیسرا غلط قسم کے لوگ۔ نفس کا مددگار شیطان ہوتا ہے، اس لیے نفس سے جہاد بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا ثواب بھی بہت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو انسان اپنے رب کے حضور پیش ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے لگام دی تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘(النازعات: 40) (4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نفس سے جہاد کے چار مراتب ہیں: ٭ اسے امور دین سیکھنے کے لیے آمادہ کرنا اور اس پر لگانا۔ ٭ دینی معاملات کے مطابق عمل کرنے اور اس پر ہمیشگی کرنے پر آمادہ کرنا۔ ٭ اسے اس بات پر آمادہ کرنا کہ جن لوگوں کو علم نہیں ہے انہیں تعلیم دے۔ ٭ توحید کی طرف بلانے اور دین کی مخالفت کرنے والوں سے قتال کرنے پر آمادہ کرنا۔ (فتح الباري: 410/11) واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے کوئی چیز واجب نہیں۔ حدیث میں ’’بندوں کا اللہ پر حق‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے جزا و سزا کا جو وعدہ کیا ہے وہ اس کو پورا کرے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ہد بہ بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمام بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا اور ان سے حضرت معاذ بن جبل ؓ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ سوا کجاوہ کے آخری حصہ کے میرے اور آنحضرت ﷺ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تھی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک، یا رسول اللہ! پھر تھوڑی دیر آنحضرت ﷺ چلتے رہے پھر فرمایا اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ! پھر تھوڑی دیر مزید آنحضرت ﷺ چلتے رہے۔ پھر فرمایا اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسو ل اللہ! فرمایا، تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے عر ض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا، اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر آنحضرت ﷺ تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا اے معاذبن جبل! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول للہ! فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ جب بندے یہ کرلیں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا کہ بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں توحید اورشرک کا بیان ہے توحید یعنی عبادت میں اللہ کو ایک ہی جاننا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا خالص اسی کی عبادت کرنا ہرقسم کے شرک سے بچنا یہ دخول جنت کا موجب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mu'adh bin Jabal (RA) : While I was riding behind the Prophet (ﷺ) as a companion rider and there was nothing between me and him except the back of the saddle, he said, "O Mu'adh!" I replied, "Labbaik O Allah's Apostle (ﷺ) ! And Sa'diak!" He proceeded for a while and then said, "O Mu'adh!" I said, "Labbaik and Sa'daik, O Allah's Apostle! (ﷺ) " He then proceeded for another while and said, "O Mu'adh bin Jabal!" I replied, "Labbaik, O Allah's Apostle, and Sa'daik!" He said, "Do you know what is Allah's right on His slaves?" I replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." He said, "Allah's right on his slaves is that they should worship Him and not worship anything besides Him." He then proceeded for a while, and again said, "O Mu'adh bin Jabal!" I replied. "Labbaik, O Allah's Apostle, and Sa'daik." He said, "Do you know what is (Allah's) slaves' (people's) right on Allah if they did that?" I replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." He said, "The right of (Allah's) slaves on Allah is that He should not punish them (if they did that)."