باب: جو اللہ سے ملاقات کو پسند رکھتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند رکھتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Whoever loves to meet Allah, Allah loves to meet him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6508.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ سے ملنا پسند کرتا ہے اللہ تعالٰی بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جوشخص اللہ تعالٰی سے ملنا ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔“
تشریح:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک حدیث مروی ہے، ان کے ایک شاگرد شریح بن ہانی نے جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہا: میں نے ایک حدیث سنی ہے اگر وہ درست ہے تو پھر ہم ہلاک ہو گئے کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی موت کو پسند نہیں کرتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تیرا خیال درست نہیں کیونکہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ لیکن جب آنکھیں پتھرا جائیں، سینے سے سانس اکھڑنے کی آواز آنے لگے، جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور جب ہاتھ پاؤں پھول جائیں تو اس وقت جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اس وقت اللہ تعالیٰ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6826 (2675)) (2) دراصل جب انسان پر نزع کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو نیک انسان اپنے انجام کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے اور فرشتے بھی اسے خوشخبری دیتے ہیں، اس وقت اس کا دل مچلتا ہے کہ جلد از جلد نعمتیں حاصل کر سکے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندوں کے لیے تیار کی ہیں اور جب برے آدمی کو فرشتوں کی خوفناک کیفیت سے اپنے برے انجام کا پتا چل جاتا ہے کہ وہ سزا کا مستحق ہے اور فرشتے بھی اسے خبر دیتے ہیں تو اسے مرنے سے وحشت ہوتی ہے، ایسے حالات میں وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جانا نہیں چاہتا کیونکہ اسے اپنا برا انجام نظر آ رہا ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے عبد بن حمید کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں یہ تفصیل موجود ہے۔ (فتح الباري: 437/11) ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور وہ دنیا ہی کی زندگی پر راضی اور مطمئن ہو گئے اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔''(یونس: 10/7-8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6279
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6508
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6508
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6508
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
بندے کا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرنا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا پر آخرت کو پسند کرتا ہے، اب اسے دنیا میں رہنا پسند نہیں بلکہ یہاں سے کوچ کی تیاری کرنا ہے۔ یہ انسان کے لیے خوش بختی کی علامت ہے کہ نزع کے وقت اس پر اللہ تعالیٰ سے ملنے کا شوق غالب ہو اور اسے ترک دنیا کی کوئی فکر لاحق نہ ہو۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ سے ملنا پسند کرتا ہے اللہ تعالٰی بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جوشخص اللہ تعالٰی سے ملنا ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک حدیث مروی ہے، ان کے ایک شاگرد شریح بن ہانی نے جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہا: میں نے ایک حدیث سنی ہے اگر وہ درست ہے تو پھر ہم ہلاک ہو گئے کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی موت کو پسند نہیں کرتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تیرا خیال درست نہیں کیونکہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ لیکن جب آنکھیں پتھرا جائیں، سینے سے سانس اکھڑنے کی آواز آنے لگے، جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور جب ہاتھ پاؤں پھول جائیں تو اس وقت جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اس وقت اللہ تعالیٰ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6826 (2675)) (2) دراصل جب انسان پر نزع کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو نیک انسان اپنے انجام کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے اور فرشتے بھی اسے خوشخبری دیتے ہیں، اس وقت اس کا دل مچلتا ہے کہ جلد از جلد نعمتیں حاصل کر سکے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندوں کے لیے تیار کی ہیں اور جب برے آدمی کو فرشتوں کی خوفناک کیفیت سے اپنے برے انجام کا پتا چل جاتا ہے کہ وہ سزا کا مستحق ہے اور فرشتے بھی اسے خبر دیتے ہیں تو اسے مرنے سے وحشت ہوتی ہے، ایسے حالات میں وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جانا نہیں چاہتا کیونکہ اسے اپنا برا انجام نظر آ رہا ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے عبد بن حمید کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں یہ تفصیل موجود ہے۔ (فتح الباري: 437/11) ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور وہ دنیا ہی کی زندگی پر راضی اور مطمئن ہو گئے اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔''(یونس: 10/7-8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے، ان سے یزید بن عبد اللہ نے، ان سے ابو بردہ نے، ان سے ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ سے ملنے کو پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ موت بہر حال آتی ہے اسے برا نہ جاننا چاہئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Whoever loves the meeting with Allah, Allah too, loves the meeting with him; and whoever hates the meeting with Allah, Allah too, hates the meeting with him."