باب: فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Superiority of the Fajr (early morning) prayer in congregation)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
651.
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’نماز کے متعلق سب لوگوں سے زیادہ ثواب ان حضرات کو ملتا ہے جن کی مسافت مسجد سے دور ہے، پھر (ان سے زیادہ انہیں) جن کی ان سے دور ہے۔ اور جو شخص امام کے ہمراہ نماز پڑھنے کا انتظار کرتا ہے باعتبار ثواب کے اس شخص سے بڑھ کر ہے جو نماز پڑھ کر سو جاتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں اگرچہ نماز فجر کا ذکر نہیں ہے، تاہم عنوان سے مطابقت بایں طور ہے کہ نماز کےلیے جانے میں زیادہ مشقت اٹھانا اجر کے زیادہ ہونے کا سبب ہے اور نماز فجر میں جانے کے لیے مشقت زیادہ اٹھانی پڑتی ہے، کیونکہ سوکر بیدار ہونے میں سستی زیادہ اور مشقت کا احساس نمایاں ہوتا ہے، اس لیے کہ نیند جیسی محبوب چیز کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ عشاء کی نماز میں اگرچہ ایسا نہیں ہوتا، تا ہم رات کے اندھیرے میں چل کرجانا اس کے لیے بھی وجہ فضیلت بن جاتا ہے۔ (فتح الباري:180/2) (2) امام بخاری ؓ فطانت و ذہانت اور ذکاوت و فقاہت کے جس مقام پر فائز ہیں، معترضین حضرات ان کی گرد پا کو بھی نہیں پہنچ سکتے، چنانچہ اس مقام پر بعض بزعم خویش ’’فقیہ الامت‘‘ حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ حدیث ابو درداء ؓ اور حدیث ابو موسیٰ اشعری ؓ کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، حالانکہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں مسائل و احکام کو ثابت کرنے کے لیے جو طریق ِ کار وضع کیا ہے۔ اس کے پیش نظر آپ بعض اوقات بطریق خصوص، یعنی صریح نص سے خاص مسئلہ ثابت کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث ابو ہریرہ ؓ سے عنوان مذکور ثابت کیا ہے۔ اور کبھی کبھی بطریق عموم، یعنی عام دلیل سے خاص مسائل اخذ کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث ابو درداء ؓ سے عنوان بالا کا اثبات کیا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے الزین بن المنیر کے حوالے سے لکھا ہے۔ بسا اوقات استنباط و استخراج کا طریقہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث ابو موسیٰ اشعری ؓ سے واضح ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی تفصیل ذکر کی ہے۔ (فتح الباري:180/2) اس لیے امام بخاری ؒ پر اعتراض کرنے کے بجائے اپنی فہم کے قصور کا علاج کرنا چاہیے۔ (3) بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے تحت ذکر کردہ ایک حدیث میں کسی نئی بات کا ذکر ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ فائدۂ جدیدہ کے طور پر اس حدیث پر ایک نیا عنوان قائم کردیتے ہیں جسے ہم اپنی اصطلاح میں (باب في الباب) سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حدیث مذکور کا ہر دو عنوان سے تعلق ہو، چنانچہ اس مقام پر اصل عنوان ’’نماز باجماعت کی فضیلت‘‘ بیان کرنا ہے جو حدیث ابو ہریرہ ؓ سے واضح طور پر ثابت ہوتی ہے اور اجتماع ملائکہ سے باجماعت نماز فجر کی فضیلت ثابت ہوتی تھی، اس لیے یہاں ایک نیا عنوان ’’باجماعت نماز فجر کی فضیلت‘‘ قائم کردیا۔ اس کے بعد آنے والی روایات، یعنی حدیث ابو درداء اور حدیث ابو موسیٰ اشعری باب سابق، یعنی نماز باجماعت کی فضیلت سے متعلق ہیں۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
645
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
651
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
651
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
651
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
پہلے عنوان میں نماز باجماعت کی فضیلت بیان کی گئی تھی،اس عنوان میں نماز فجر کی فضیلت کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔چونکہ دن رات کے فرشتے اس نماز میں جمع ہوتے ہیں اس وجہ سے اس کی فضیلت دیگر نمازوں کے مقابلے میں زیادہ ہے،اس لیے اس کے متعلق مستقل عنوان قائم کیا گیا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’نماز کے متعلق سب لوگوں سے زیادہ ثواب ان حضرات کو ملتا ہے جن کی مسافت مسجد سے دور ہے، پھر (ان سے زیادہ انہیں) جن کی ان سے دور ہے۔ اور جو شخص امام کے ہمراہ نماز پڑھنے کا انتظار کرتا ہے باعتبار ثواب کے اس شخص سے بڑھ کر ہے جو نماز پڑھ کر سو جاتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں اگرچہ نماز فجر کا ذکر نہیں ہے، تاہم عنوان سے مطابقت بایں طور ہے کہ نماز کےلیے جانے میں زیادہ مشقت اٹھانا اجر کے زیادہ ہونے کا سبب ہے اور نماز فجر میں جانے کے لیے مشقت زیادہ اٹھانی پڑتی ہے، کیونکہ سوکر بیدار ہونے میں سستی زیادہ اور مشقت کا احساس نمایاں ہوتا ہے، اس لیے کہ نیند جیسی محبوب چیز کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ عشاء کی نماز میں اگرچہ ایسا نہیں ہوتا، تا ہم رات کے اندھیرے میں چل کرجانا اس کے لیے بھی وجہ فضیلت بن جاتا ہے۔ (فتح الباري:180/2) (2) امام بخاری ؓ فطانت و ذہانت اور ذکاوت و فقاہت کے جس مقام پر فائز ہیں، معترضین حضرات ان کی گرد پا کو بھی نہیں پہنچ سکتے، چنانچہ اس مقام پر بعض بزعم خویش ’’فقیہ الامت‘‘ حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ حدیث ابو درداء ؓ اور حدیث ابو موسیٰ اشعری ؓ کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، حالانکہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں مسائل و احکام کو ثابت کرنے کے لیے جو طریق ِ کار وضع کیا ہے۔ اس کے پیش نظر آپ بعض اوقات بطریق خصوص، یعنی صریح نص سے خاص مسئلہ ثابت کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث ابو ہریرہ ؓ سے عنوان مذکور ثابت کیا ہے۔ اور کبھی کبھی بطریق عموم، یعنی عام دلیل سے خاص مسائل اخذ کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث ابو درداء ؓ سے عنوان بالا کا اثبات کیا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے الزین بن المنیر کے حوالے سے لکھا ہے۔ بسا اوقات استنباط و استخراج کا طریقہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث ابو موسیٰ اشعری ؓ سے واضح ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی تفصیل ذکر کی ہے۔ (فتح الباري:180/2) اس لیے امام بخاری ؒ پر اعتراض کرنے کے بجائے اپنی فہم کے قصور کا علاج کرنا چاہیے۔ (3) بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے تحت ذکر کردہ ایک حدیث میں کسی نئی بات کا ذکر ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ فائدۂ جدیدہ کے طور پر اس حدیث پر ایک نیا عنوان قائم کردیتے ہیں جسے ہم اپنی اصطلاح میں (باب في الباب) سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حدیث مذکور کا ہر دو عنوان سے تعلق ہو، چنانچہ اس مقام پر اصل عنوان ’’نماز باجماعت کی فضیلت‘‘ بیان کرنا ہے جو حدیث ابو ہریرہ ؓ سے واضح طور پر ثابت ہوتی ہے اور اجتماع ملائکہ سے باجماعت نماز فجر کی فضیلت ثابت ہوتی تھی، اس لیے یہاں ایک نیا عنوان ’’باجماعت نماز فجر کی فضیلت‘‘ قائم کردیا۔ اس کے بعد آنے والی روایات، یعنی حدیث ابو درداء اور حدیث ابو موسیٰ اشعری باب سابق، یعنی نماز باجماعت کی فضیلت سے متعلق ہیں۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے برید بن عبداللہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوبردہ سے، انھوں نے ابوموسیٰ ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نماز میں ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر وہ شخص ہوتا ہے، جو (مسجد میں نماز کے لیے) زیادہ سے زیادہ دور سے آئے اور جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور پھر امام کے ساتھ پڑھتا ہے اس شخص سے اجر میں بڑھ کر ہے جو (پہلے ہی) پڑھ کر سو جائے۔
حدیث حاشیہ:
پہلی حدیث میں نماز فجر کی خاص فضیلت کا ذکر ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اورقراءت قرآن مجید سنتے ہیں۔ دوسری دو حدیثوں میں مطلق جماعت کی فضیلت کا ذکر ہے۔ جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ فجر کی نماز باجماعت ادا کی جائے تاکہ ستائیس حصہ زیادہ ثواب حاصل کرنے کے علاوہ فرشتوں کی بھی معیت نصیب ہو جو فجر میں تلاوت قرآن سننے کے لیے جماعت میں حاضر ہوتے ہیں، پھرعرش پر جاکر اللہ پاک کے سامنے ان نیک بندوں کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل فرمادے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The people who get tremendous reward for the prayer are those who are farthest away (from the mosque) and then those who are next farthest and so on. Similarly one who waits to pray with the Imam has greater reward than one who prays and goes to bed. "