Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The blowing of the Trumpet, on the Day of Resurrection)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مجاہد نے کہا کہ صور ایک سینگ کی طرح ہے۔ اور (سورۃ یٰسین میں جو ہے فانما هی زجرة واحدة ) تو «زجرة» کے معنی چیخ کے ہیں (دوسری بار) پھونکنا اور صيحة پہلی بار پھونکنا۔ وقال ابن عباس الناقور الصور. {الراجفة} النفخة الأولى. و{الرادفة} النفخة الثانية.مجاہد نے کہا کہ صور ایک سینگ کی طرح ہے۔ اور ( سورۃ ےٰسین میں جو ہے فانما ہی زجرۃ واحدۃ ) تو زجرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ( دوسری بار ) پھونکنا اور صیحۃ پہلی بار پھونکنا۔ اور ابن عباس نے کہا ناقور ( جو سورۃ مائدہ میں ہے ) صور کو کہتے ہیں ( وصلہ الطبری و ابن ابی حاتم ) الراجفۃ ( جو سورۃ والنازعات میں ہے ) پہلی بار صور کا پھونکنا، الرادفۃ ( جو اسی سورت میں ہے ) دوسری بار کا پھونکنا۔تشریح:صور ایک جسم ہے جس کو اللہ نے پیدا کر کے حضرت اسرفیل نامی فرشتے کے حوالہ کیا ہوا ہے اس میں اتنے سوراخ ہیں جتنی دنیا میں روحیں ہیں اس صور کو پھونکتے ہی وہ روحیں نکل نکل کر کرمانی شارح بخاری فرماتے ہیں اختلف فی عدد ھا فاصح انھا نفختان قال اللہ وفقخ فی الصور فصعق من فی السموات والارض الا من شاءاللہ ثم نفخ فیہ اخریٰ فاذاھم قیام ینظرون والقول الثانی انھا ثلث نفخات نفخۃ الفزع اھل السموات والارض بخیث یذھل کل مرضعہ عماارضعت ثم نفخۃ الصعق ثم نفخۃ البعث فاجیب بان الاولین عائد تان الی واحدۃ فزعوا الی ان صعقوا واللہ اعلم(کرمانی)یعنی نفخ صور کے عدد میں اختلاف کیا گیا ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ دو نفخے ہوں گے جیسا کہ ارشاد باری ہے ’’اور صور پھونکا جائے گا جس کے بعد زمین و آسمان والے سب بہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ بچانا چاہے گا وہ بہوش نہ ہو گا ‘‘پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا ‘جس کے بعد اچانک تمام ذی روح کھڑے ہو کر دیکھتے ہوں گے دوسرا قول یہ ہے نفخے تین ہوں گے پہلا نفخہ قزع کا ہوگا جس کے بعد تمام زمین و آسمان والے گھبرا جائیں گے اس طور کے بعد دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے سے غافل ہو جائیں گی پھر دوسرا نفخہ بہوشی کا ہوگا پھر تیسرا نفخہ ہوگا جس کے بعدزمین و آسمان والے اٹھ کھڑے ہوں گے اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ نفخہ قزع اور نفخہ صعق یہ دونوں ایک ہی ہیں یعنی وہ پہلے نفخہ پر ایسے گھبرائیں گے کہ گھبراتے گھبراتے بے ہوش ہو جائیں گے۔یا اللہ! آج عشرہ محرم 1396ھ کا مبارک تریں سحر ہے میں اس پارے کی تسوید کا آغاز کر رہا ہوں پرودگار میں نہایت ہی عاجزی سے اس مقدس ساعت میں تیرے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوں مثل سابق اس پارے کو بھی اشاعت میں لانے کے لئے غیب سے اسباب مہیا فرما دے اور تکمیل بخاری شریف کے شرف عظیم سے مشرف فرما اور میرے سارے مخلصین کو اس خدمت کے ثواب عظیم میں حصہ وافر عطا فرما اور مجھ کو امراض قلبی اور و قالبی اور افکار ظاہری و باطنی سے خلاصی بخش دیجئو اور میرے تمام ساتھیوں کے ساتھ میری اولاد ذکور اناس کو بھی برکات دارین عطا فرمائیو اور باقی پاروں کی تسوید اور اشاعت کے لئے بھی نصرت فرمائیو تا کہ یہ حدیث تکمیل کو پہنچ کر جملہ اہل اسلام کے لئے باعث رشد و ہدایت بن سکے۔یا اللہ! اس خدمت کے سلسلہ میں مجھ سے جو لغزش اور کوتاہی ہو جائے اس کو بھی معاف فرما دیجیو آج رمضان المبارک 1396ھ کا پہلا جمعہ اور ساتواں روزہ ہے کہ نظر ثالث کے بعد اسے بعون اللہ تبارک وتعالیٰ کاتب صاحبان کی خدمت میں برائے کتابت خوالہ کر رہا ہوں ۔ربنا تقبل منا انک انت السمع العلیم وصل علی حبیبک محمد وآلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الرحمین راقم خادم محمد داؤد راز 7 رمضان 1396ھ وارد حال کتب خانہ محمدیہ اہلحدیث نمبر 17 مارکیٹ روڈ بنگلور دارالسرور(حرسہااللہ من شرو رالدھور آمین)
6518.
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بے ہوشی کے وقت تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے اور سب سے پہلے اٹھنے والا ہوں گا۔ اس وقت موسٰی ؑ کو پکڑے ہوئے ہوں گے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو بے ہوش ہوئے۔ (لیکن وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے)۔“ اس حدیث کو حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بھی نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق جس استثنیٰ کا ذکر کیا ہے وہ درج ذیل آیت کریمہ میں ہے: ’’اور جب صور پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں موجود مخلوق ہے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ (بچانا) چاہے، پھر جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو فوراً سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔‘‘(الزمر: 68) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں صور پھونکے جانے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی مخلوق بھی ہو گی جو پہلے نفخے کے بعد بے ہوش نہیں ہو گی۔ بہرحال انسانوں میں سے کوئی بھی اس بے ہوشی سے محفوظ نہیں رہے گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہوں گے تو دوسرے انسان کیسے بچ سکتے ہیں، البتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ نے مستثنیٰ کیا ہے۔ وہ بھی اس صورت میں کہ شاید وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں یا بے ہوش ہوئے ہی نہ ہوں، اس لیے کہ وہ دنیا میں کوہ طور پر ایک بار بے ہوش ہو چکے تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت کے مطابق فرمایا: ‘‘مجھے معلوم نہیں کہ کوہ طور پر انہیں بے ہوش کر کے ان کا حساب چکا دیا گیا تھا یا وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3414) (3) رسول اللہ نے یہودی کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے یہ گفتگو بطور تواضع فرمائی تھی ورنہ احادیثِ شفاعت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے افضل ہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6289
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6518
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6518
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6518
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
صور میں دو دفعہ پھونکا جائے گا: ایک نفخۂ صعق ہے اسے نفخۂ فزع بھی کہتے ہیں اور دوسرا نفخۂ قیام ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''صور میں پھونکا جائے گا تو جو لوگ زمین میں ہیں اور جو آسمان میں ہیں بے ہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے، پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا تو اچانک سب لوگ کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہوں گے۔'' (الزمر: 39/68) بعض اہل علم نے ان میں نفخۂ فزع کا اضافہ کیا ہے لیکن یہ نفخۂ صعق ہی کا حصہ ہے، یعنی پہلے نفخے کے وقت پہلے گھبراہٹ طاری ہو گی پھر گھبراتے گھبراتے بے ہوش ہو جائیں گے۔ واللہ اعلم
مجاہد نے کہا کہ صور ایک سینگ کی طرح ہے۔ اور (سورۃ یٰسین میں جو ہے فانما هی زجرة واحدة ) تو «زجرة» کے معنی چیخ کے ہیں (دوسری بار) پھونکنا اور صيحة پہلی بار پھونکنا۔ وقال ابن عباس الناقور الصور. {الراجفة} النفخة الأولى. و{الرادفة} النفخة الثانية.مجاہد نے کہا کہ صور ایک سینگ کی طرح ہے۔ اور ( سورۃ ےٰسین میں جو ہے فانما ہی زجرۃ واحدۃ ) تو زجرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ( دوسری بار ) پھونکنا اور صیحۃ پہلی بار پھونکنا۔ اور ابن عباس نے کہا ناقور ( جو سورۃ مائدہ میں ہے ) صور کو کہتے ہیں ( وصلہ الطبری و ابن ابی حاتم ) الراجفۃ ( جو سورۃ والنازعات میں ہے ) پہلی بار صور کا پھونکنا، الرادفۃ ( جو اسی سورت میں ہے ) دوسری بار کا پھونکنا۔تشریح:صور ایک جسم ہے جس کو اللہ نے پیدا کر کے حضرت اسرفیل نامی فرشتے کے حوالہ کیا ہوا ہے اس میں اتنے سوراخ ہیں جتنی دنیا میں روحیں ہیں اس صور کو پھونکتے ہی وہ روحیں نکل نکل کر کرمانی شارح بخاری فرماتے ہیں اختلف فی عدد ھا فاصح انھا نفختان قال اللہ وفقخ فی الصور فصعق من فی السموات والارض الا من شاءاللہ ثم نفخ فیہ اخریٰ فاذاھم قیام ینظرون والقول الثانی انھا ثلث نفخات نفخۃ الفزع اھل السموات والارض بخیث یذھل کل مرضعہ عماارضعت ثم نفخۃ الصعق ثم نفخۃ البعث فاجیب بان الاولین عائد تان الی واحدۃ فزعوا الی ان صعقوا واللہ اعلم(کرمانی)یعنی نفخ صور کے عدد میں اختلاف کیا گیا ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ دو نفخے ہوں گے جیسا کہ ارشاد باری ہے ’’اور صور پھونکا جائے گا جس کے بعد زمین و آسمان والے سب بہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ بچانا چاہے گا وہ بہوش نہ ہو گا ‘‘پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا ‘جس کے بعد اچانک تمام ذی روح کھڑے ہو کر دیکھتے ہوں گے دوسرا قول یہ ہے نفخے تین ہوں گے پہلا نفخہ قزع کا ہوگا جس کے بعد تمام زمین و آسمان والے گھبرا جائیں گے اس طور کے بعد دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے سے غافل ہو جائیں گی پھر دوسرا نفخہ بہوشی کا ہوگا پھر تیسرا نفخہ ہوگا جس کے بعدزمین و آسمان والے اٹھ کھڑے ہوں گے اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ نفخہ قزع اور نفخہ صعق یہ دونوں ایک ہی ہیں یعنی وہ پہلے نفخہ پر ایسے گھبرائیں گے کہ گھبراتے گھبراتے بے ہوش ہو جائیں گے۔یا اللہ! آج عشرہ محرم 1396ھ کا مبارک تریں سحر ہے میں اس پارے کی تسوید کا آغاز کر رہا ہوں پرودگار میں نہایت ہی عاجزی سے اس مقدس ساعت میں تیرے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوں مثل سابق اس پارے کو بھی اشاعت میں لانے کے لئے غیب سے اسباب مہیا فرما دے اور تکمیل بخاری شریف کے شرف عظیم سے مشرف فرما اور میرے سارے مخلصین کو اس خدمت کے ثواب عظیم میں حصہ وافر عطا فرما اور مجھ کو امراض قلبی اور و قالبی اور افکار ظاہری و باطنی سے خلاصی بخش دیجئو اور میرے تمام ساتھیوں کے ساتھ میری اولاد ذکور اناس کو بھی برکات دارین عطا فرمائیو اور باقی پاروں کی تسوید اور اشاعت کے لئے بھی نصرت فرمائیو تا کہ یہ حدیث تکمیل کو پہنچ کر جملہ اہل اسلام کے لئے باعث رشد و ہدایت بن سکے۔یا اللہ! اس خدمت کے سلسلہ میں مجھ سے جو لغزش اور کوتاہی ہو جائے اس کو بھی معاف فرما دیجیو آج رمضان المبارک 1396ھ کا پہلا جمعہ اور ساتواں روزہ ہے کہ نظر ثالث کے بعد اسے بعون اللہ تبارک وتعالیٰ کاتب صاحبان کی خدمت میں برائے کتابت خوالہ کر رہا ہوں ۔ربنا تقبل منا انک انت السمع العلیم وصل علی حبیبک محمد وآلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الرحمین راقم خادم محمد داؤد راز 7 رمضان 1396ھ وارد حال کتب خانہ محمدیہ اہلحدیث نمبر 17 مارکیٹ روڈ بنگلور دارالسرور(حرسہااللہ من شرو رالدھور آمین)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بے ہوشی کے وقت تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے اور سب سے پہلے اٹھنے والا ہوں گا۔ اس وقت موسٰی ؑ کو پکڑے ہوئے ہوں گے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو بے ہوش ہوئے۔ (لیکن وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے)۔“ اس حدیث کو حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بھی نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق جس استثنیٰ کا ذکر کیا ہے وہ درج ذیل آیت کریمہ میں ہے: ’’اور جب صور پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں موجود مخلوق ہے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ (بچانا) چاہے، پھر جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو فوراً سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔‘‘(الزمر: 68) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں صور پھونکے جانے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی مخلوق بھی ہو گی جو پہلے نفخے کے بعد بے ہوش نہیں ہو گی۔ بہرحال انسانوں میں سے کوئی بھی اس بے ہوشی سے محفوظ نہیں رہے گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہوں گے تو دوسرے انسان کیسے بچ سکتے ہیں، البتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ نے مستثنیٰ کیا ہے۔ وہ بھی اس صورت میں کہ شاید وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں یا بے ہوش ہوئے ہی نہ ہوں، اس لیے کہ وہ دنیا میں کوہ طور پر ایک بار بے ہوش ہو چکے تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت کے مطابق فرمایا: ‘‘مجھے معلوم نہیں کہ کوہ طور پر انہیں بے ہوش کر کے ان کا حساب چکا دیا گیا تھا یا وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3414) (3) رسول اللہ نے یہودی کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے یہ گفتگو بطور تواضع فرمائی تھی ورنہ احادیثِ شفاعت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے افضل ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
امام مجاہد کہتے ہیں: صور،بوق(سینگ اور بگل) جیسی کوئی چیز ہے۔ زجرۃ کے معنی ہیں:چیخ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: «الناقور» کے معنی ہیں: صور۔ (الراجفۃ) سے مراد پہلی دفعہ صور میں پھونکنا اور (الرادفۃ) سے مراد سوسری دفعہ پھونکنا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بے ہوشی کے وقت تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے اور سب سے پہلے اٹھنے والا میں ہوں گا۔ اس وقت موسیٰ عرش الٰہی کا کونہ تھامے ہوں گے۔ اب میں نہیں جانتا کہ وہ بے ہوش بھی ہوں گے یا نہیں۔ اس حدیث کو ابوسعید خدری ؓ نے بھی آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
جو اوپر کتاب الاشخاص میں موصولاً گزر چکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "The people will fall down unconscious at the time when they should fall down (i.e., on the Day of Resurrection), and then I will be the first man to get up, and behold, Moses (ؑ) will be there holding (Allah's) Throne. I will not know whether he has been amongst those who have fallen unconscious."