Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The gathering (on the Day of Resurrection))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6528.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ ایک خیمے میں تھے، آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پرخوش ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟“ ہم نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس پر خوش ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟“ ہم نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف ہوگے۔ یہ اس لیے جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے اور تم اہل شرک کے مقابلے میں اس طرح ہوگے جس طرح سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہو یا جسے سرخ بیل کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔“
تشریح:
(1) اس عالم رنگ و بو میں کفار و فساق کی تعداد اہل ایمان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے موحد بندے بہت تھوڑے رہے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’میرے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔‘‘(سبا: 34/13) اس امر کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں اَسی صفیں میری امت کی ہوں گی۔‘‘ (مسند أحمد: 347/5) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں مسلمانوں کی تعداد تدریجاً ذکر کی تاکہ ان کی خوشی اور مسرت میں اضافہ ہوتا رہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6299
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6528
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6528
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6528
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حشر کی چار قسمیں ہیں: دو کا تعلق عالم دنیا سے ہے جبکہ دو آخرت میں ہوں گے۔ جو حشر دنیا میں ہوں گے۔ ان میں پہلا حشر سورۂ حشر میں بیان ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے پہلے ہی حملے میں اہل کتاب کافروں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔'' (الحشر: 59/2) دوسرا حشر اس وقت ہو گا جب قرب قیامت میں مشرق سے آگ برآمد ہو گی جو لوگوں کو مغرب کی طرف لے جائے گی جس کا ذکر آئندہ احادیث میں آئے گا۔ جو دو حشر عالم آخرت میں ہوں گے ان میں سے پہلا حشر اس وقت ہو گا جب مُردوں کو قبروں سے زندہ کر کے حساب کتاب کے لیے میدان محشر میں پیش کیا جائے گا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے: ''ہم لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔'' (الکھف: 18/47) آخری حشر اس وقت ہو گا جب فرشتے اہل جنت کو جنت میں اور اہل جہنم کو دوزخ میں لے جائیں گے اس کا ذکر سورۂ زمر آیت: 71-73 میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان میں پہلا حشر کوئی مستقل چیز نہیں بلکہ اس قسم کا حشر کئی مرتبہ مختلف قوموں اور لوگوں کے متعلق ہوا ہے۔ (فتح الباری: 11/460)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ ایک خیمے میں تھے، آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پرخوش ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟“ ہم نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس پر خوش ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟“ ہم نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف ہوگے۔ یہ اس لیے جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے اور تم اہل شرک کے مقابلے میں اس طرح ہوگے جس طرح سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہو یا جسے سرخ بیل کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس عالم رنگ و بو میں کفار و فساق کی تعداد اہل ایمان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے موحد بندے بہت تھوڑے رہے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’میرے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔‘‘(سبا: 34/13) اس امر کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں اَسی صفیں میری امت کی ہوں گی۔‘‘ (مسند أحمد: 347/5) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں مسلمانوں کی تعداد تدریجاً ذکر کی تاکہ ان کی خوشی اور مسرت میں اضافہ ہوتا رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مجمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے۔ آپ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا یک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ (امت مسلمہ) اہل جنت کا آدھا ہوگے اور ایسا اس لیے ہوگا کہ جنت میں فرمان بردار نفس کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہوگا اور تم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان (تعداد میں) اس طرح ہوگے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا جیسے سرخ کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں یوں ہے جیسے سفید بیل میں ایک بال کالا ہو۔ مقصود یہ ہے کہ دنیا میں مشرکوں اور فاسقوں کی تعداد بہت زیادہ ہی رہی ہے اور اللہ کے موحد و مؤمن بندے ان مشرکوں اور کافروں سے ہمیشہ کم ہی رہے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ قرآن مجید میں صاف مذکورہے ﴿وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ﴾(سبا: 13) میرے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہی حال ہے اور مسلمانوں میں توحید و سنت والوں کی تعداد بھی ہمیشہ تھوڑی ہی چلی آ رہی ہے جو لوگ آج کل اہل سنت والجماعت کہلانے والے ہیں ان کی تعداد عرسوں اور تعزیوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مشرکین و مبتدعین بکثرت ملیں گے۔ اہل توحید، پابند شریعت، فدائے سنت بالکل اقل قلیل ہیں۔ اللہ پاک ہم کو توحید و سنت کا عامل اور اسلام کا سچا تابع فرمان بنائے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : While we were in the company of the Prophet (ﷺ) in a tent he said, ''Would it please you to be one fourth of the people of Paradise?" We said, "Yes." He said, "Would It please you to be one-third of the people of Paradise?" We said, "Yes." He said, "Would it please you to be half of the people of Paradise?" We said, "Yes." Thereupon he said, "I hope that you will be one half of the people of Paradise, for none will enter Paradise but a Muslim soul, and you people, in comparison to the people who associate others in worship with Allah, are like a white hair on the skin of a black ox, or a black hair on the skin of a red ox."