باب: اللہ تعالی کا سورۂ حج میں ارشاد کہ قیامت کی ہل چل ایک بڑی مصیبت ہوگی اور سورۂ نجم اور سورۂ انبیاء میں فرمایا’ قیامت قریب آگئی‘
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Who associate others in worship with Allah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6530.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی فرمائے گا: اے آدم ؑ عرض کریں گے: میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں، ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ آگ کا لشکر الگ کر دو۔ حضرت آدم ؑ عرض کریں گے: جہنم کا لشکر کس قدر ہے؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا: ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ یہی وہ وقت ہوگا جب بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حمل والی عورت اپنا حمل گرا دے گی اور تم لوگوں کو نشے کی حالت میں دیکھو گے، حالانکہ وہ نشے کی حالت میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہوگا۔“ صحابہ کرام کو یہ بات بہت سخت معلوم ہوئی تو انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ”تمہیں بشارت ہو ایک ہزار یاجوج ماجوج سے ہوں گے اور تم میں سے وہ ایک جنتی ہوگا۔“ پھر آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! ”جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی ہوگے۔“ راوی کہتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالٰی کی حمد وثناء کی اور نعرہ تکبیر بلند کیا، پھر آپ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھےامید ہے کہ آدھا حصہ اہل جنت کا تم ہوگے۔ دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری مثال ایسے ہے جیسے سیاہ بیل کی جلد پر ایک سفید بال ہویا وہ سفید داغ جو گدھے کے اگلے پاؤں میں ہوتا ہے۔“
تشریح:
(1) اس سے پہلی حدیث میں اہل جنت کی نسبت اہل جہنم کے مقابلے میں ایک فیصد تھی جبکہ اس حدیث میں ایک ہزار میں سے ایک بیان ہوئی ہے، اس تعارض کے محدثین نے کئی ایک جواب دیے ہیں: ٭ ایک عدد دوسرے عدد کے منافی نہیں بلکہ مقصد اہل ایمان کی قلت اور اہل کفر کی کثرت بیان کرنا ہے۔ ٭ تمام اولاد آدم کی نسبت ہزار میں سے ایک اور یاجوج ماجوج کے علاوہ نسبت سو میں سے ایک ہو گی۔ ٭ تمام مخلوق کے اعتبار سے ہزار میں سے ایک اور اس امت کے لحاظ سے سو میں سے ایک ہو گا۔ ٭ کفار کے اعتبار سے بہ نسبت ہزار میں سے ایک اور گناہ گاروں کے لحاظ سے ایک فی صد ہو گی۔ (فتح الباري: 474/11) (2) بہرحال قیامت کے اس ہولناک منظر کو دیکھ کر بچے، بوڑھے ہو جائیں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اب اگر تم نے انکار کر دیا تو اس دن کی سختی سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گی جس کی سختی سے آسمان پھٹ جائے گا اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔‘‘ (المزمل:73//17، 18)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6301
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6530
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6530
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6530
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
ساعة کے معنی ہیں: ایک گھڑی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت ہلکی ہو گی لیکن اس میں ہولناک دھماکہ ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سورۃ الحج کی آیت ذکر کر کے اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کردہ حدیث بیان کرنے سے پہلے اسے تلاوت فرمایا تھا جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔ (فتح الباری: 11/472)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی فرمائے گا: اے آدم ؑ عرض کریں گے: میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں، ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ آگ کا لشکر الگ کر دو۔ حضرت آدم ؑ عرض کریں گے: جہنم کا لشکر کس قدر ہے؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا: ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ یہی وہ وقت ہوگا جب بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حمل والی عورت اپنا حمل گرا دے گی اور تم لوگوں کو نشے کی حالت میں دیکھو گے، حالانکہ وہ نشے کی حالت میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہوگا۔“ صحابہ کرام کو یہ بات بہت سخت معلوم ہوئی تو انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ”تمہیں بشارت ہو ایک ہزار یاجوج ماجوج سے ہوں گے اور تم میں سے وہ ایک جنتی ہوگا۔“ پھر آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! ”جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی ہوگے۔“ راوی کہتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالٰی کی حمد وثناء کی اور نعرہ تکبیر بلند کیا، پھر آپ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھےامید ہے کہ آدھا حصہ اہل جنت کا تم ہوگے۔ دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری مثال ایسے ہے جیسے سیاہ بیل کی جلد پر ایک سفید بال ہویا وہ سفید داغ جو گدھے کے اگلے پاؤں میں ہوتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس سے پہلی حدیث میں اہل جنت کی نسبت اہل جہنم کے مقابلے میں ایک فیصد تھی جبکہ اس حدیث میں ایک ہزار میں سے ایک بیان ہوئی ہے، اس تعارض کے محدثین نے کئی ایک جواب دیے ہیں: ٭ ایک عدد دوسرے عدد کے منافی نہیں بلکہ مقصد اہل ایمان کی قلت اور اہل کفر کی کثرت بیان کرنا ہے۔ ٭ تمام اولاد آدم کی نسبت ہزار میں سے ایک اور یاجوج ماجوج کے علاوہ نسبت سو میں سے ایک ہو گی۔ ٭ تمام مخلوق کے اعتبار سے ہزار میں سے ایک اور اس امت کے لحاظ سے سو میں سے ایک ہو گا۔ ٭ کفار کے اعتبار سے بہ نسبت ہزار میں سے ایک اور گناہ گاروں کے لحاظ سے ایک فی صد ہو گی۔ (فتح الباري: 474/11) (2) بہرحال قیامت کے اس ہولناک منظر کو دیکھ کر بچے، بوڑھے ہو جائیں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اب اگر تم نے انکار کر دیا تو اس دن کی سختی سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گی جس کی سختی سے آسمان پھٹ جائے گا اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔‘‘ (المزمل:73//17، 18)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے یوسف بن موسیٰ قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم! آدم ؑ کہیں گے حاضر ہوں فرماں بردار ہوں اور ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے انہیں نکال لو۔ آدم ؑ پوچھیں گے جہنم میں ڈالے جانے والے لوگ کتنے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ یہی وہ وقت ہوگا جب بچے غم سے بوڑھے ہو جائیں گے اور حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا دیں گی اور تم لوگوں کو نشہ کی حالت میں دیکھوگے، حالانکہ وہ واقعی نشہ کی حالت میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہوگا۔ صحابہ کو یہ بات بہت سخت معلوم ہوئی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر ہم میں سے وہ (خوش نصیب) شخص کون ہوگا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہوگے۔ راوی نے بیان کیا کہ ہم نے اس پر اللہ کی حمد بیان کی اور اس کی تکبیر کہی۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ آدھا حصہ اہل جنت کا تم لوگ ہوگے۔ تمہاری مثال دوسری امتوں کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کسی سیاہ بیل کے جسم پر سفید بالوں کی معمولی تعداد) ہوتی ہے یا وہ سفید داغ جو گدھے کے آگے کے پاؤں پر ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Said (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Allah will say, 'O Adam!. Adam will reply, 'Labbaik and Sa'daik (I respond to Your Calls, I am obedient to Your orders), wal Khair fi Yadaik (and all the good is in Your Hands)!' Then Allah will say (to Adam), Bring out the people of the Fire.' Adam will say, 'What (how many) are the people of the Fire?' Allah will say, 'Out of every thousand (take out) nine-hundred and ninety-nine (persons).' At that time children will become hoary-headed and every pregnant female will drop her load (have an abortion) and you will see the people as if they were drunk, yet not drunk; But Allah's punishment will be very severe." That news distressed the companions of the Prophet (ﷺ) too much, and they said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Who amongst us will be that man (the lucky one out of one-thousand who will be saved from the Fire)?" He said, "Have the good news that one-thousand will be from Gog and Magog, and the one (to be saved will be) from you." The Prophet (ﷺ) added, "By Him in Whose Hand my soul is, I Hope that you (Muslims) will be one third of the people of Paradise." On that, we glorified and praised Allah and said, "Allahu Akbar." The Prophet (ﷺ) then said, "By Him in Whose Hand my soul is, I hope that you will be one half of the people of Paradise, as your (Muslims) example in comparison to the other people (non-Muslims), is like that of a white hair on the skin of a black ox, or a round hairless spot on the foreleg of a donkey."