باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ مطففین میں فرمانا کہ ” کیا یہ خیال نہیں کرتے کہ یہ لوگ پھر ایک عظیم دن کے لیے اٹھائے جائیں گے۔ اس دن جب تمام لوگ رب العالمین کے حضور میں کھڑے ہوں گے “
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: "Think they not that they will be resurrected on a Great Day")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن عباسؓ نے کہا و تقطعت بہم الاسباب کامطلب یہ ہے کہ دنیا کے رشتے ناطے جو یہاں ایک دوسرے سے تھے وہ ختم ہوجائیں گے۔ تشریح:یہاں تک کہ دنیا میں جھوٹے پیرو مرشد پکڑ رکھے تھے وہ سب بیزار ہو جائیں گے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہونے کے بجائے دشمن بن جائیں گے قرآن شریف کی آیت ویوم بعض الظالم علی یدیہ یقول يليتنى اتخذت مع الرسول سبيلا-(الفرقان:27)وغيره میں اسی حقیقت کا اظہار ہے اللہ پاک مقلدین جامدین کو بھی نیک سمجھ دے جو خود اپنے اماموں کے خلاف چل کر ان کی ناراضی مول لیں گے الا ماشاءاللہ۔
6531.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ﴿يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کی تفسیر میں فرمایا: ”لوگوں میں سے کچھ نصف کانوں (کانوں کی لو) تک اپنے پسینے میں کھڑے ہوں گے۔“
تشریح:
(1) یہ پسینہ انسان کا ذاتی ہو گا جو نصف کانوں تک پہنچے گا۔ قیامت کے دن مسلسل خوف و ہراس، سورج کی نزدیکی اور لوگوں کے ہجوم کے سبب یہ پسینہ آئے گا۔ (2) لوگوں کے اعمال کے پیش نظر یہ پسینہ کم و بیش ہو گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے پتا چلتا ہے، قیامت کے دن سورج لوگوں کے بالکل قریب آ جائے گا حتی کہ لوگ پسینے سے شرابور ہوں گے۔ کچھ لوگوں کو پسینہ ایڑیوں تک، کچھ کو نصف پنڈلی تک کسی کی گھٹنوں تک، کسی کے رانوں تک، کسی کی کمر تک، کسی کے کندھوں تک اور کچھ لوگوں کے منہ تک، بعض کے منہ کو لگام دیے ہو گا۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے منہ کی طرف اشارہ کیا۔ اور کچھ لوگ پسینے میں غرق ہوں گے، آپ نے اپنے سر پر ہاتھ مار کر اس بات کی وضاحت فرمائی۔ (المستدرك للحاکم: 615/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6302
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6531
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6531
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6531
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں آیت کریمہ ذکر کر کے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ ان سے ایک آدمی نے کہا کہ اہل مدینہ ماپ تول پورا کرتے ہیں۔ انہوں نے مذکورہ آیات کو تلاوت کر کے فرمایا وہ ایسا کیوں نہ کریں جبکہ قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا، یہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں۔ (فتح الباری: 11/477)
اور ابن عباسؓ نے کہا و تقطعت بہم الاسباب کامطلب یہ ہے کہ دنیا کے رشتے ناطے جو یہاں ایک دوسرے سے تھے وہ ختم ہوجائیں گے۔ تشریح:یہاں تک کہ دنیا میں جھوٹے پیرو مرشد پکڑ رکھے تھے وہ سب بیزار ہو جائیں گے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہونے کے بجائے دشمن بن جائیں گے قرآن شریف کی آیت ویوم بعض الظالم علی یدیہ یقول يليتنى اتخذت مع الرسول سبيلا-(الفرقان:27)وغيره میں اسی حقیقت کا اظہار ہے اللہ پاک مقلدین جامدین کو بھی نیک سمجھ دے جو خود اپنے اماموں کے خلاف چل کر ان کی ناراضی مول لیں گے الا ماشاءاللہ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ﴿يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کی تفسیر میں فرمایا: ”لوگوں میں سے کچھ نصف کانوں (کانوں کی لو) تک اپنے پسینے میں کھڑے ہوں گے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ پسینہ انسان کا ذاتی ہو گا جو نصف کانوں تک پہنچے گا۔ قیامت کے دن مسلسل خوف و ہراس، سورج کی نزدیکی اور لوگوں کے ہجوم کے سبب یہ پسینہ آئے گا۔ (2) لوگوں کے اعمال کے پیش نظر یہ پسینہ کم و بیش ہو گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے پتا چلتا ہے، قیامت کے دن سورج لوگوں کے بالکل قریب آ جائے گا حتی کہ لوگ پسینے سے شرابور ہوں گے۔ کچھ لوگوں کو پسینہ ایڑیوں تک، کچھ کو نصف پنڈلی تک کسی کی گھٹنوں تک، کسی کے رانوں تک، کسی کی کمر تک، کسی کے کندھوں تک اور کچھ لوگوں کے منہ تک، بعض کے منہ کو لگام دیے ہو گا۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے منہ کی طرف اشارہ کیا۔ اور کچھ لوگ پسینے میں غرق ہوں گے، آپ نے اپنے سر پر ہاتھ مار کر اس بات کی وضاحت فرمائی۔ (المستدرك للحاکم: 615/4)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ (وتقطت بھم الاسباب) کا مطلب بیان کیا ہے کہ دنیا کہ رشتے ناتے سب ختم ہو جائیں گے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے ﴿يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کی تفسیر میں فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی سارے جہانوں کے پروردگار کے آگے کھڑا ہوگا اس حال میں کہ اس کا پسینہ کانوں کی لو تک پہنچا ہوا ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn `Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said (regarding the Verse), "A Day when all mankind will stand before the Lord of the Worlds,' (that day) they will stand, drowned in their sweat up to the middle of their ears".