Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The description of Paradise and the Fire)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوسعید خدری ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے کھانا جسے اہل جنت کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی کی بڑھی ہوئی چربی ہوگی۔ عدن کے معنی ہمیشہ رہنا۔ عرب لوگ کہتے ہیں ” عدنت بارض “ یعنی میں نے اس جگہ قیام کیا اور اسی سے معدن آتا ہے ” فی معدن صدق “ ( یا مقعد صدق جو سورۃ قمر میں ہے ) یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔چونکہ یہ باب جنت کے میں ہے اور قرآن شریف میں جنت کا نام عدن آیا ہے اس لیے امام بخاری نے عدن کی تفسیر کی دی۔
6547.
حضرت اسامہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو اس میں عموماً داخل ہونے والے مسکین اور مفلس لوگ تھے جبکہ مال دار لوگوں کو (داخلے سے) روک دیا گیا تھا اور جو لوگ دوزخی تھے انہیں تو جہنم میں روانہ کر دیا گیا تھا۔ میں نے جہنم کے دروازے پر کھڑے ہو کر دیکھا تو اس میں اکثر داخل ہونے والی عورتیں تھیں۔“
تشریح:
(1) جن صاحب ثروت اور مال دار حضرات کو جنت کے دروازے پر جنت میں داخل ہونے سے روک دیا جائے گا وہ وہ ہوں گے جو دین دار اور جنت میں داخل ہونے کے قابل تھے لیکن پل صراط سے گزرنے کے بعد ایک دوسرے پل پر انہیں حساب کی وجہ سے روک لیا جائے گا۔ وہ فقراء کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ فقراء کو اپنے فقر کے باعث فوراً جنت میں داخلہ مل جائے گا۔ (2) اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو یہ واقعہ خواب میں یا معراج کی رات اس طرح دکھایا گویا اب ہو رہا ہے، حالانکہ ابھی جنت یا دوزخ میں کوئی بھی داخل نہیں ہوا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مشاہدہ اس منطر کشی کےعلاوہ ہے جو آپ کو نماز گرہن پڑھاتے وقت ہوا تھا۔ (فتح الباري: 510/11)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6318
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6547
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6547
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6547
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
جنت اور دوزخ کے متعلق دو عنوان کتاب بدء الخلق میں بھی قائم کیے گئے تھے اور ان میں یہ بھی تھا کہ انہیں پیدا کیا جا چکا ہے اور مذکورہ باب کی بیشتر احادیث کو وہاں بیان کیا گیا تھا۔ (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب: 8-10) امام بخاری رحمہ اللہ نے جنت کے مختلف ناموں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان میں دس حسب ذیل ہیں اور ان کا ذکر قرآن میں ہے: (1) الفردوس (2) دارالسلام (3) دارالخلد (4) دارالمقامة (5) جنة المأوٰي (6) النعيم (7) المقام الأمين (8) جنت عدن (9) مقعد صدق (10) الحسنیٰ۔ (فتح الباری: 11/510)
اور ابوسعید خدری ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے کھانا جسے اہل جنت کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی کی بڑھی ہوئی چربی ہوگی۔ عدن کے معنی ہمیشہ رہنا۔ عرب لوگ کہتے ہیں ” عدنت بارض “ یعنی میں نے اس جگہ قیام کیا اور اسی سے معدن آتا ہے ” فی معدن صدق “ ( یا مقعد صدق جو سورۃ قمر میں ہے ) یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔چونکہ یہ باب جنت کے میں ہے اور قرآن شریف میں جنت کا نام عدن آیا ہے اس لیے امام بخاری نے عدن کی تفسیر کی دی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت اسامہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو اس میں عموماً داخل ہونے والے مسکین اور مفلس لوگ تھے جبکہ مال دار لوگوں کو (داخلے سے) روک دیا گیا تھا اور جو لوگ دوزخی تھے انہیں تو جہنم میں روانہ کر دیا گیا تھا۔ میں نے جہنم کے دروازے پر کھڑے ہو کر دیکھا تو اس میں اکثر داخل ہونے والی عورتیں تھیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جن صاحب ثروت اور مال دار حضرات کو جنت کے دروازے پر جنت میں داخل ہونے سے روک دیا جائے گا وہ وہ ہوں گے جو دین دار اور جنت میں داخل ہونے کے قابل تھے لیکن پل صراط سے گزرنے کے بعد ایک دوسرے پل پر انہیں حساب کی وجہ سے روک لیا جائے گا۔ وہ فقراء کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ فقراء کو اپنے فقر کے باعث فوراً جنت میں داخلہ مل جائے گا۔ (2) اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو یہ واقعہ خواب میں یا معراج کی رات اس طرح دکھایا گویا اب ہو رہا ہے، حالانکہ ابھی جنت یا دوزخ میں کوئی بھی داخل نہیں ہوا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مشاہدہ اس منطر کشی کےعلاوہ ہے جو آپ کو نماز گرہن پڑھاتے وقت ہوا تھا۔ (فتح الباري: 510/11)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو سعید خدری ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا: ”سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کا ٹکڑا ہوگا۔“عدن کے معنی ہیں:ہمیشہ رہنا۔ کہا جاتا ہے۔ عدنت بارض میں نے اس جگہ قیام کیا۔ لفظ معدن بھی اسی سے ماخوذ ہے۔ (فی مقعد صدق) کے معنیٰ ہیں: سچائی پیدا ہونے کی جگہ میں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، انہیں ابوعثمان نہدی نے، انہیں اسامہ بن زید ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو وہاں اکثر داخل ہونے والے محتاج لوگ تھے اور محنت مزدوری کرنے والے تھے اور مالدار لوگ ایک طرف روکے گئے ہیں، ان کا حساب لینے کے لیے باقی ہے اور جو لوگ دوزخی تھے وہ تو دوزخ کے لیے بھیج دئیے گئے اور میں نے جہنم کے دروازے پر کھڑے ہو کر دیکھا تو اس میں اکثر داخل ہونے والی عورتیں تھیں۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ یہ مالداہ جو بہشت کے دروازے پر روکے گئے وہ لوگ تھے جو دین دار اور بہشت میں جانے کے قابل تھے۔ لیکن دنیا کی دولت مندی کی وجہ سے وہ روکے گئے اور فقراء لوگ جھٹ جنت میں پہنچ گئے۔ باقی جو لوگ کافر تھے وہ تو دوزخ میں بھجوا دیے گئے۔ یہ حدیث بظاہر مشکل ہے کیوں کہ ابھی جنت اور دوزخ میں جانے کا وقت کہاں سے آیا۔ مگر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ماضی اور مستقبل اور حال کے سب واقعات یکساں موجود ہیں تو اللہ پاک نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ نیند میں خواب کے ذریعہ یا شب معراج میں اس طرح دکھلا دیا جیسے اب ہو رہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "I stood at the gate of Paradise and saw that the majority of the people who had entered it were poor people, while the rich were forbidden (to enter along with the poor, because they were waiting the reckoning of their accounts), but the people of the Fire had been ordered to be driven to the Fire. And I stood at the gate of the Fire and found that the majority of the people entering it were women."