Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The description of Paradise and the Fire)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوسعید خدری ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے کھانا جسے اہل جنت کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی کی بڑھی ہوئی چربی ہوگی۔ عدن کے معنی ہمیشہ رہنا۔ عرب لوگ کہتے ہیں ” عدنت بارض “ یعنی میں نے اس جگہ قیام کیا اور اسی سے معدن آتا ہے ” فی معدن صدق “ ( یا مقعد صدق جو سورۃ قمر میں ہے ) یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔چونکہ یہ باب جنت کے میں ہے اور قرآن شریف میں جنت کا نام عدن آیا ہے اس لیے امام بخاری نے عدن کی تفسیر کی دی۔
6553.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ جنت میں ایسا درخت ہے جس کے سائے میں گھوڑ دوڑ کے لیے تیار کردہ تیز رفتار گھوڑے پر سوار شخص سو سال تک چلتا رہے گا لیکن پھر بھی اسے طے نہ کرسکے گا۔“
تشریح:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس طرح کی ایک حدیث کے آخر میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم اس کی تصدیق چاہتے ہو تو قرآن کریم کی اس آیت کو پڑھو: ’’اور لمبے لمبے سائے۔‘‘(الواقعة: 30/56 و صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3252) (2) حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس کی ٹہنیوں کے سائے میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا یا سو سال تک اس کے سائے میں رہے گا۔‘‘ (جامع الترمذي، صفة الجنة، حدیث: 2541) (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بخاری کی پیش کردہ حدیث میں درخت سے مراد سدرۃ المنتہیٰ ہے جیسا کہ ترمذی کی حدیث سے پتا چلتا ہے۔ (فتح الباري: 517/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6323.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6553
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6553
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6553
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
جنت اور دوزخ کے متعلق دو عنوان کتاب بدء الخلق میں بھی قائم کیے گئے تھے اور ان میں یہ بھی تھا کہ انہیں پیدا کیا جا چکا ہے اور مذکورہ باب کی بیشتر احادیث کو وہاں بیان کیا گیا تھا۔ (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب: 8-10) امام بخاری رحمہ اللہ نے جنت کے مختلف ناموں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان میں دس حسب ذیل ہیں اور ان کا ذکر قرآن میں ہے: (1) الفردوس (2) دارالسلام (3) دارالخلد (4) دارالمقامة (5) جنة المأوٰي (6) النعيم (7) المقام الأمين (8) جنت عدن (9) مقعد صدق (10) الحسنیٰ۔ (فتح الباری: 11/510)
اور ابوسعید خدری ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے کھانا جسے اہل جنت کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی کی بڑھی ہوئی چربی ہوگی۔ عدن کے معنی ہمیشہ رہنا۔ عرب لوگ کہتے ہیں ” عدنت بارض “ یعنی میں نے اس جگہ قیام کیا اور اسی سے معدن آتا ہے ” فی معدن صدق “ ( یا مقعد صدق جو سورۃ قمر میں ہے ) یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔چونکہ یہ باب جنت کے میں ہے اور قرآن شریف میں جنت کا نام عدن آیا ہے اس لیے امام بخاری نے عدن کی تفسیر کی دی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ جنت میں ایسا درخت ہے جس کے سائے میں گھوڑ دوڑ کے لیے تیار کردہ تیز رفتار گھوڑے پر سوار شخص سو سال تک چلتا رہے گا لیکن پھر بھی اسے طے نہ کرسکے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس طرح کی ایک حدیث کے آخر میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم اس کی تصدیق چاہتے ہو تو قرآن کریم کی اس آیت کو پڑھو: ’’اور لمبے لمبے سائے۔‘‘(الواقعة: 30/56 و صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3252) (2) حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس کی ٹہنیوں کے سائے میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا یا سو سال تک اس کے سائے میں رہے گا۔‘‘ (جامع الترمذي، صفة الجنة، حدیث: 2541) (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بخاری کی پیش کردہ حدیث میں درخت سے مراد سدرۃ المنتہیٰ ہے جیسا کہ ترمذی کی حدیث سے پتا چلتا ہے۔ (فتح الباري: 517/11)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو سعید خدری ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا: ”سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کا ٹکڑا ہوگا۔“عدن کے معنی ہیں:ہمیشہ رہنا۔ کہا جاتا ہے۔ عدنت بارض میں نے اس جگہ قیام کیا۔ لفظ معدن بھی اسی سے ماخوذ ہے۔ (فی مقعد صدق) کے معنیٰ ہیں: سچائی پیدا ہونے کی جگہ میں۔
حدیث ترجمہ:
ابوحازم نے بیان کیا کہ پھر میں نے یہ حدیث نعمان بن ابی عیاش سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسعید نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جنت میں ایک درخت ہوگا جس کے سایہ میں عمدہ اور تیز رفتار گھوڑے پر سوار شخص سو سال تک چلتا رہے گا اور پھر بھی اسے طے نہ کرسکے گا۔“
حدیث حاشیہ:
یا اللہ! یہ جنت ہر بخاری شریف پڑھنے والے بھائی بہن کو عطا فرمائیو آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The Prophet (ﷺ) said: There is a tree in Paradise (so huge) that a fast (or a trained) rider may travel: for one hundred years without being able to cross it.