Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: As-Sirat is a bridge across the Hell)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6574.
حضرت عطاء سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ بھی اس وقت حضرت ابو ہریرہ ؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے،انہوں نے ان کی کسی بات پر اعتراض نہیں کیا لیکن حضرت ابو ہریرہ ؓ جب حدیث کے اس ٹکڑے پر پہنچے: ”تمہاری تمام خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی اور نعمتیں دی جاتی ہیں“ تو حضرت ابو سعید خدری ؓ نے کہا: میں نے رسول االلہ ﷺ سے سنا تھا،آپ نے فرمایا: ”تمہاری یہ خواہشات پوری کی جاتی اور ان سے دس گناہ مزید دی جاتی ہیں۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: میں نے تو یہی الفاظ یاد کیے ہیں کہ یہ سب چیزیں اور اتنی ہی اور تجھے دی جاتی ہیں۔
تشریح:
(1) پل صراط اور اس سے گزرنے کی کیفیت کے متعلق درج ذیل احادیث میں وضاحت ہے: ٭ جب میدان محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفارش کرنے کی اجازت مل جائے گی تو امانت اور صلہ رحمی کو بھیجا جائے گا، وہ پل صراط کے دونوں جانب کھڑی ہو جائیں گی، پھر تم میں سے پہلا بجلی کی ماند گزر جائے گا۔ راوئ حدیث کہتے ہیں: میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! بجلی کی طرح گزرنے کی کیا صورت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ''کیا تم نے بجلی نہیں دیکھی وہ آنکھ جھپکنے میں گزرتی ہے اور واپس آ جاتی ہے، پھر ہوا کے چلنے کی طرح، پھر پرندے کی طرح اور تیز چلنے والے آدمیوں کی طرح ان کے اعمال انہیں لے کر چلیں گے۔ اور تمہارے نبی پل صراط پر کھڑے ہوں گے۔ وہ کہہ رہے ہوں گے: اے میرے رب! سلامتی عطا فرما، سلامتی عطا فرما، حتی کہ بندوں کے اعمال عاجز آ جائیں گے یہاں تک کہ ایک آدمی آئے گا جو چلنے کی طاقت نہیں رکھتا ہو گا بلکہ وہ سرین کے بل گھسیٹ رہا ہو گا۔'' آپ نے فرمایا: ''پل صراط کے دونوں کناروں پر آنکڑے ہوں گے۔ وہ اس بات پر مامور ہوں گے کہ جس کے متعلق حکم دیا جائے گا وہ اسے اچک لیں گے۔ کچھ لوگ زخمی ہوں گے، نجات پانے والے ہوں گے اور کچھ جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت ہو گی۔'' (صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 482 (195)) ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تمام لوگ آگ (پل صراط) پر وارد ہوں گے، پھر وہ اپنے اعمال کے مطابق وہاں سے پار ہوں گے۔ ان میں سے پہلے بجلی چمکنے کی مانند گزر جائیں گے، پھر ہوا کی مانند، پھر تیز رفتار گھوڑے کی مانند، پھر سواری پر سوار کی مانند، پھر دوڑنے والے آدمی کی مانند، پھر پیدل چلنے والے کی مانند اس پل کو عبور کریں گے جو جہنم پر نصب ہو گا۔'' (جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث: 3159) (2) پل صراط کے نیچے جہنم ہو گی۔ اہل جہنم کی پست و بلند آوازیں، دھواں اور جلن نظر آئے گی۔ لوگ پل پر سے پھسلتے اور جہنم میں گرتے نظر آئیں گے۔ یہ بے انتہا مشکل منظر ہو گا، اس لیے اپنے عقیدے اور عمل کی اصلاح کریں۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6342.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6574
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6574
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6574
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
الصراط ایک پل ہے جسے جہنم پر رکھا جائے گا اور ہر شخص، خواہ وہ مسلم ہو یا کافر، نیک ہو یا بد، اسے ایک دفعہ اس کے اوپر سے گزرنا ہو گا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا جہنم پر سے گزر نہ ہو۔'' (مریم: 19/71) حدیث میں ہے کہ وہ پل بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہو گا۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 455 (183)) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: یہ پل صراط کیا چیز ہے تو آپ نے فرمایا: ''یہ ایک پل ہے جسے جہنم کی پشت پر رکھا جائے گا۔ یہ گرنے اور پھسلنے کا مقام ہے، اس پر لوہے کے نوک دار کانٹے اور آنکڑے ہیں، چوڑے چوڑے کانٹے ہیں، ان کا سر خمدار سعدان کے کانٹوں کی طرح ہو گا جو ملک نجد میں ہوتے ہیں۔ مسلمان اس پر سے پلک جھپکنے کی طرح، بجلی کی طرح، آندھی کی طرح، تیز گھوڑوں کی طرح اور اونٹوں کی طرح گزر جائیں گے۔ کچھ صحیح و سلامت وہاں سے بچ کر نکل جائیں گے اور کچھ زخمی ہو کر اور چھل چھلا کر اور کچھ دوزخ میں گر پڑیں گے۔ آخری شخص جو پل صراط سے پار ہو گا اسے کھینچ کھینچ کر پار کریں گے۔'' (صحیح البخاری، التوحید، حدیث: 7439) پل صراط کا مزید تعارف درج ذیل حدیث میں ہے۔
حضرت عطاء سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ بھی اس وقت حضرت ابو ہریرہ ؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے،انہوں نے ان کی کسی بات پر اعتراض نہیں کیا لیکن حضرت ابو ہریرہ ؓ جب حدیث کے اس ٹکڑے پر پہنچے: ”تمہاری تمام خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی اور نعمتیں دی جاتی ہیں“ تو حضرت ابو سعید خدری ؓ نے کہا: میں نے رسول االلہ ﷺ سے سنا تھا،آپ نے فرمایا: ”تمہاری یہ خواہشات پوری کی جاتی اور ان سے دس گناہ مزید دی جاتی ہیں۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: میں نے تو یہی الفاظ یاد کیے ہیں کہ یہ سب چیزیں اور اتنی ہی اور تجھے دی جاتی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) پل صراط اور اس سے گزرنے کی کیفیت کے متعلق درج ذیل احادیث میں وضاحت ہے: ٭ جب میدان محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفارش کرنے کی اجازت مل جائے گی تو امانت اور صلہ رحمی کو بھیجا جائے گا، وہ پل صراط کے دونوں جانب کھڑی ہو جائیں گی، پھر تم میں سے پہلا بجلی کی ماند گزر جائے گا۔ راوئ حدیث کہتے ہیں: میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! بجلی کی طرح گزرنے کی کیا صورت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ''کیا تم نے بجلی نہیں دیکھی وہ آنکھ جھپکنے میں گزرتی ہے اور واپس آ جاتی ہے، پھر ہوا کے چلنے کی طرح، پھر پرندے کی طرح اور تیز چلنے والے آدمیوں کی طرح ان کے اعمال انہیں لے کر چلیں گے۔ اور تمہارے نبی پل صراط پر کھڑے ہوں گے۔ وہ کہہ رہے ہوں گے: اے میرے رب! سلامتی عطا فرما، سلامتی عطا فرما، حتی کہ بندوں کے اعمال عاجز آ جائیں گے یہاں تک کہ ایک آدمی آئے گا جو چلنے کی طاقت نہیں رکھتا ہو گا بلکہ وہ سرین کے بل گھسیٹ رہا ہو گا۔'' آپ نے فرمایا: ''پل صراط کے دونوں کناروں پر آنکڑے ہوں گے۔ وہ اس بات پر مامور ہوں گے کہ جس کے متعلق حکم دیا جائے گا وہ اسے اچک لیں گے۔ کچھ لوگ زخمی ہوں گے، نجات پانے والے ہوں گے اور کچھ جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت ہو گی۔'' (صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 482 (195)) ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تمام لوگ آگ (پل صراط) پر وارد ہوں گے، پھر وہ اپنے اعمال کے مطابق وہاں سے پار ہوں گے۔ ان میں سے پہلے بجلی چمکنے کی مانند گزر جائیں گے، پھر ہوا کی مانند، پھر تیز رفتار گھوڑے کی مانند، پھر سواری پر سوار کی مانند، پھر دوڑنے والے آدمی کی مانند، پھر پیدل چلنے والے کی مانند اس پل کو عبور کریں گے جو جہنم پر نصب ہو گا۔'' (جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث: 3159) (2) پل صراط کے نیچے جہنم ہو گی۔ اہل جہنم کی پست و بلند آوازیں، دھواں اور جلن نظر آئے گی۔ لوگ پل پر سے پھسلتے اور جہنم میں گرتے نظر آئیں گے۔ یہ بے انتہا مشکل منظر ہو گا، اس لیے اپنے عقیدے اور عمل کی اصلاح کریں۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عطاءنے بیان کیا کہ ابوسعید خدری ؓ بھی اس وقت ابوہریرہ ؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے ان کی کسی بات پر اعتراض نہیں کیا لیکن جب ابوہریرہ ؓ حدیث کے اس ٹکڑے تک پہنچے کہ تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں تو ابوسعید خدری ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ” تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اس سے دس گنا اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں۔ اور ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ نہیں میں نے یوں ہی سنا ہے۔ یہ سب چیزیں اور اتنی ہی اور۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں پروردگار کی دو صفات کا اثبات ہے۔ ایک آنے کا، دوسری صورت کا۔ متکلمین ایسی صفات کی دور ازکار تاویلات کرتے ہیں مگر اہل حدیث یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسکتا ہے، جا سکتا ہے، اترسکتا ہے، چڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح جس صورت میں چاہے تجلی فرماسکتا ہے۔ اس کو سب طرح کی قدرت ہے۔ بس اتنی سی بات ہے کہ اللہ کی کسی صفت کو مخلوقات کی صفت سے مشابہت نہیں دے سکتے۔ اس حدیث میں بہت سی باتیں بیان میں آئی ہیں۔ پل صراط کا بھی ذکر ہے جس کے بارے میں دوسری روایت میں ہے کہ اس پل پر سے پار ہونے والے سب سے پہلے میں ہوں گا اور میری امت ہوگی۔ پل صراط پر سعدان نامی درخت کے جیسے آنکڑوں کا ذکر ہے جو سعدان کے کانٹوں کے مشابہ ہوں گے، مقدار میں نہیں کیوں کہ مقدار میں تو وہ بہت بڑے ہوں گے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سعدان عرب کی ایک گھاس کا نام ہے جس میں ٹیڑھے منھ کے کانٹے ہوتے ہیں۔ آگے روایت میں دوزخ پر نشان سجدہ اور مقام سجدہ کے حرام ہونے کا ذکر ہے۔ سجدے کے مقام پیشانی دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دونوں قدم یا صرف پیشانی مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سارابدن جل کر کوئلہ ہوگیا ہوگا مگر یہ مقامات سجدہ سالم ہوں گے جن کو دیکھ کر فرشتے پہچان لیں گے کہ یہ موحد مسلمان نمازی تھے۔ آہ بے نمازی مسلمانوں کے پاس کیا علامت ہوگی جس کی وجہ سے انہیں پہچان کر دوزخ سے نکالا جائے؟ آگے روایت میں سب کے بعدجنت میں جانے والے ایک شخص کا ذکر ہے یہ وہ ہوگا جو دوزخ میں سات ہزار برس گزار چکا ہوگا۔ اس کے بعد نکل کر بایں صورت جنت میں جائے گا۔ اسی شخص سے متعلق اللہ تعالیٰ کے ہنسنے کا ذکر ہے۔ یہ بھی اللہ کی ایک صفت ہے۔ جس کا انکار یا تاویل اہل حدیث نہیں کرتے، نہ اسے مخلوق کی ہنسی سے مشابہت دیتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ata (while Abu Hurairah (RA) was narrating): Abu Said was sitting in the company of Abu Hurairah (RA) and he did not deny anything of his narration till he reached his saying: "All this and as much again therewith are for you." Then Abu Sa'id said, "I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, 'This is for you and ten times as much.' " Abu Hurairah (RA) said, "In my memory it is 'as much again therewith.' "