تشریح:
(1) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر اور منبر کے درمیان والے حصے کو جنت کا باغیچہ قرار دیا ہے، اس کے تین معنی ہیں: ٭ یہ جگہ بعینہٖ جنت میں منتقل کر دی جائے گی، لہذا اس جگہ سے حقیقی معنی مراد ہے۔ ٭ اس مقام میں عبادت کرنے والے کا انجام جنت میں ہے، اس لیے مجازاً اس جگہ کو جنت کہہ دیا گیا ہے۔ لیکن یہ معنی محل نظر ہیں کیونکہ اس معنی میں اس مبارک جگہ کی کوئی خصوصیت نہیں جبکہ آپ کی مراد اس کی خصوصیت بیان کرنا ہے۔ ٭ اس مقام کو جنت کے باغ سے تشبیہ دی گئی ہے، یعنی یہ مقام جنت کے باغ کی طرح ہے۔
(2) علامہ خطابی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس کا مقصد مدینہ طیبہ میں رہائش اختیار کرنے کی ترغیب دینا ہے، یعنی جو شخص یہاں عبادت کرے گا وہ اسے جنت میں پہنچا دے گی اور جو کوئی منبر کے پاس عبادت کرے گا اسے قیامت کے دن حوض کوثر سے پانی پلایا جائے گا۔ (فتح الباري: 598/11) واللہ أعلم بالصواب