باب: اور اللہ نے جو حکم دیا ہے (تقدیر میں جو کچھ لکھ دیا ہے) وہ ضرور ہو کر رہے گا۔
)
Sahi-Bukhari:
Divine Will (Al-Qadar)
(Chapter: "And the Command of Allah is a decree determined")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6605.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کا جنت وجہنم میں ٹھکانا لکھا جا چکا ہے۔“ حاضرین میں سے ایک آدمی نےکہا: اللہ کے رسول! پھر ہم کیوں نہ اس پر بھروسا کر لیں۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں،تم عمل کرو (جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے) اس کے لیے وہ چیز آسان کر دی گئی ہے۔“ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا۔ آخر تک۔“
تشریح:
(1) پوری آیات کا ترجمہ: ’’پھر جس نے مال دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور بھلی باتوں کی تصدیق کی تو یقیناً ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی سہولت دیتے ہیں اور جس نے بخل سے کام لیا اور بے پروا بنا رہا اور بھلائی کو جھٹلایا تو یقیناً ہم اسے تنگی کی راہ پر چلنے کی سہولت دیتے ہیں۔‘‘(اللیل: 5/92، 10) (2) بھلی بات سے مراد ایمان بالغیب بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کی توحید بھی، رسول کی تصدیق بھی اور اخلاق فاضلہ کی بجا آوری بھی۔ عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ جو شخص مذکورہ بالا کام کرے اس کے لیے احکام شریعت پر چلنا اور جنت میں داخلے کا مستحق ہونا آسان بنا دیا جاتا ہے اور اسے نیکی کے کاموں کی توفیق دی جاتی ہے حتی کہ بدی کی راہ پر چلنا انسان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس دوسرے شخص کے لیے جہنم کا راستہ آسان اور نیکی کی راہیں بہت مشکل بنا دی جاتی ہیں، پھر اس کی زندگی گناہ اور حرام کاموں میں گزرتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! جب سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے تو پھر عمل کس لیے ہوا؟ آپ نے فرمایا: عمل کے بغیر تو جنت نہیں مل سکتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر عرض کی: اللہ کے رسول! پھر تو ہم عمل کرنے میں جان توڑ کوشش کریں گے۔ (فتح الباري: 606/11) (3) حیرت کی بات ہے کہ جس حدیث کو سن کر آج عمل چھوڑ دینے کا عہد کیا جاتا ہے، اسی کو سن کر کل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جدوجہد کا عہد کرتے تھے۔ بات اصل یہ ہے کہ وہ حکم کے فرمانبردار تھے لیکن ہم عقل کے بندے ہیں۔ عقل بے چاری دنیا کی معمولی الجھنیں نہیں سلجھا سکتی، وہ تقدیر کے مسئلے کو کیسے حل کر سکتی ہے؟ ہاں، جب وہ بھی اسلام قبول کر لیتی ہے تو پھر مسائلِ شریعت میں اس کے نزدیک کوئی الجھن، الجھن نہیں رہتی؟ پھر اس میں وہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے کہ جتنا اختیار اسے مل چکا ہے، اسے کام میں لانا اپنا فرض منصبی خیال کرتی ہے۔ (4) تقدیر کا ہمیں علم نہیں تو پھر عمر میں اختیار سے کام کیوں نہ لیا جائے؟ رہا کسی شخص کے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے پیشگی علم کا مسئلہ تو اللہ تعالیٰ کا یہ علم کسی شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فیصلہ کر رکھا ہے۔ بہرحال انسان کو جیسا اور جتنا اختیار ملا ہے اس سے فائدہ اٹھائے۔ (5) تقدیر کے مسئلے کو ہم ایک مثال سے حل کرتے ہیں کہ ایک مریض کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور وہ اس کی تشخیص کر کے اپنے تجربے کے پیش نظر کسی کاغذ پر لکھ دیتا ہے کہ اس نے دوسرے دن مر جانا ہے، پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ دوسرے دن مر جاتا ہے، اب کیا وہ اس تحریر سے پابند ہو گیا ہے کہ وہ دوسرے دن ہی مرے گا، اگر ڈاکٹر نہ لکھتا تو کیا وہ مریض زندہ رہتا؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگی تحریر یا مشیت یا تقدیر کی بات اسے مجبور سمجھنے کی دلیل نہیں بلکہ یہ جو کام بھی کرتا ہے اپنے عزم اور کھلے اختیار سے کرتا ہے۔ تقدیر تو اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے مجبور محض بننے کی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6370
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6605
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6605
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6605
تمہید کتاب
قدر کے لغوی معنی تقدیر، یعنی اندازہ کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ کئی مرتبہ استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ہر چیز کا خزانہ ہمارے پاس ہے اور ہم اسے ایک خاص مقدار میں نازل کرتے ہیں۔'' (الحجر 15/21) نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: ''اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پورا اندازہ۔'' (الفرقان: 25/2) قدر کے اصطلاحی معنی قدرتِ الٰہی اور باقاعدہ طریقے سے ایک محکم فیصلے کے ساتھ چیزوں کا اندازہ مقرر کرنا ہیں۔ قدر ہی کے معنی میں لفظ قضا بھی مستعمل ہے۔ یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ کچھ اہل علم نے ان میں فرق کیا ہے کہ قضا ازل میں اجمالی کلی حکم کا نام ہے اور قدر اس اجمالی کلی کی جزئیات اور تفصیلی امور ہیں جو مستقبل میں واقع ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پختہ اور محکم انداز میں، منصوبہ بندی کے تحت وجود بخشا اور ایسے قوانین جاری کیے جو ناقابل تغییر ہیں۔ارکان اسلام پانچ ہیں اور اصول ایمان چھ ہیں۔ اصول ایمان میں ایک اصل ایمان بالقدر، یعنی تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ تقدیر پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے اور یقین محکم کے ساتھ مانا جائے کہ اس عالم رنگ و بو میں جو کچھ ہو رہا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے جسے وہ پہلے سے طے کر چکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو کچھ چاہے لیکن دنیا کا یہ کارخانہ اس کی مرضی کے خلاف چلے یا کائنات کا نظام کسی اتفاقی حادثہ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا ہو۔ اسے تسلیم کرنے سے نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی عاجزی اور بے بسی لازم آتی ہے۔ واضح رہے کہ تقدیر کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر ایمان لانے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اگر اس کے متعلق کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کے متعلق بحث و کٹ حجتی نہ کی جائے بلکہ عقل اور اپنے ذہن کی نارسائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر یقین کر لیا جائے بلکہ اپنے دل اور دماغ کو اس طرح مطمئن کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان کیا ہے، لہذا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کے متعلق بحث و جدال کا دروازہ نہ کھولا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے قضا و قدر کے متعلق بحث کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے ہمیں اس حالت میں دیکھ کر انتہائی خفگی اور ناراضی کا اظہار فرمایا حتی کہ آپ کا چہرۂ انور غصے سے سرخ ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا آپ کے رخساروں میں انار کے سرخ دانے نچوڑ دیے گئے ہیں، پھر آپ نے فرمایا: ''کیا تمہیں یہی حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں تمہارے لیے یہی پیغام لے کر آیا ہوں؟ خبردار! تم سے پہلی قومیں اس بنا پر تباہ ہوئیں کہ انہوں نے تقدیر کے متعلق بحث و حجت کا طریقہ اپنا لیا تھا۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلے کے متعلق ہرگز بحث و جدال نہ کیا کرو۔'' (جامع الترمذی، القدر، حدیث: 2133)اس حدیث میں امتوں کی تباہی سے مراد ان کی گمراہی ہے کیونکہ ہلاکت کا لفظ گمراہی کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے، اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں اعتقادی گمراہیاں اس وقت آئیں جب انہوں نے تقدیر کو بحث و جدال کا موضوع بنایا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس امت میں بھی اعتقادی گمراہیوں کا سلسلہ ''مسئلۂ تقدیر'' سے شروع ہوا۔ ہاں، اگر کوئی تقدیر پر ایمان و یقین رکھتے ہوئے صرف اطمینان قلب کے لیے تقدیر کے کسی مسئلے کے متعلق کسی اہل علم سے سوال کرتا ہے تو اس کی ممانعت نہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال کرنے پر تقدیر کے بعض پہلوؤں پر خود روشنی ڈالی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ہمارا دین بیان فرمائیں، گویا ہم اب پیدا ہوئے ہیں، آپ وضاحت فرمائیں کہ ہم لوگ جو عمل کرتے ہیں وہ اس لیے ہے کہ قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے اور اس کے متعلق تقدیر جاری کی گئی ہے یا اس مقصد کے لیے ہے جو آگے ہونے والا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں، بلکہ اعمال اسی مقصد کے لیے ہیں جسے لکھ کر قلم خشک ہو گیا ہے اور تقدیر جاری ہو چکی ہے۔'' حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت سن کر عرض کی: ایسے حالات میں عمل کا کیا فائدہ؟ آپ نے فرمایا: ''تم عمل کرتے رہو! ہر انسان کو اسی کام کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔'' (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6735 (2648))تقدیر کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو مظفر بن سمعانی کے حوالے سے بہت عمدہ بات لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں: تقدیر کا باب صرف کتاب و سنت کی روشنی میں سمجھنے پر موقوف ہے۔ اس میں عقل و قیاس کو مطلق طور پر کوئی دخل نہیں ہے۔ جو شخص کتاب و سنت سے ہٹ کر اسے سمجھنے کی کوشش میں لگا وہ گمراہ ہو گیا اور حیرت و تعجب کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اس نے چشمۂ شفا کو نہیں پایا اور اس چیز تک نہیں پہنچ سکے گا جس سے اس کا دل مطمئن ہو کیونکہ مسئلۂ تقدیر اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ علیم و خبیر کے ساتھ اسے خاص کیا ہے۔ اس نے مخلوق کی عقل، نیز ان کے علوم اور تقدیر کے درمیان پردہ حائل کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا راز اور حکمت ہے کہ اس کا علم کسی نبئ مرسل اور مقرب فرشتے کو بھی نہیں دیا گیا۔ (فتح الباری: 11/582)تقدیر کے معاملے میں بندہ نہ بالکل مجبور ہے اور نہ بالکل مختار بلکہ اسے ایک ظاہری اختیار دیا گیا ہے جسے کسب کہتے ہیں۔ اسی اختیار کے استعمال کرنے سے اسے قیامت کے دن جزا یا سزا ملے گی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور جماعت سلف کا یہی موقف ہے۔ اس کے بعد امت میں جبریہ اور قدریہ پیدا ہوئے۔ جبریہ کہتے ہیں کہ بندہ جمادات کی طرح بالکل مجبور اور بے بس ہیں۔ اسے اپنے کسی فعل کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس قدریہ کا کہنا ہے کہ بندے کے افعال میں اللہ تعالیٰ کو کچھ دخل نہیں بلکہ وہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اور جو کرتا ہے وہ مختارِ کل ہونے کی حیثیت سے کرتا ہے۔ ایک گروہ نے افراط کیا جبکہ دوسرا تفریط میں مبتلا ہوا اور اہل سنت نے ان کے درمیان درمیان موقف اختیار کیا ہے اور یہ موقف عقل و نقل پر قائم ہے۔ ان کے نزدیک کائنات میں جو حوادث ہوتے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں: ٭ ایک وہ حوادث ہیں جن میں بندوں کو کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انہیں ظاہر کرتا ہے، مثلا: بارش برسانا، کھیت اگانا، کسی کو پیدا کرنا اور اسے موت دینا، صحت و بیماری کا آنا اس قسم کے افعال میں کسی مخلوق کو کوئی دخل نہیں۔ ٭ دوسرے وہ افعال ہیں جو ایسی مخلوق سے سرزد ہوتے ہیں جو ارادہ و اور اختیار رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قسم کے افعال کی نسبت بندوں کی طرف کی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ''تم میں سے کچھ دنیا چاہتے تھے جبکہ کچھ آخرت کے چاہنے والے تھے۔'' (آل عمران: 3/152) اس آیت میں ارادے کی نسبت بندوں کی طرف کی گئی ہے۔اہل علم کے نزدیک تقدیر کے چار مراتب ہیں: ٭ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا مخلوق کرنے والی ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم کے مطابق تمام اشیاء کی تقدیر لوح محفوظ میں لکھ دی ہے۔ ٭ کائنات میں اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ ٭ اس عالم رنگ و بو میں تمام مخلوقات اور ان کے تمام اعمال کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اہل حق کو چاہیے کہ وہ تقدیر کے مندرجہ بالا چاروں مراتب پر ایمان رکھیں اور انہیں تسلیم کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقدیر کے متعلق امت کی رہنمائی کرتے ہوئے کتاب القدر کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے انتیس (29) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں تین (3) معلق اور چھبیس (26) متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں بائیس (22) مکرر اور سات (7) خالص ہیں۔ بیان کردہ احادیث کو، سوائے دو (2) کے امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے پانچ (5) آثار بھی مروی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں جن کے ذریعے سے تقدیر سے متعلقہ مشکل گھتیوں کو سلجھایا گیا ہے۔ ہم ان احادیث کے فوائد میں اس کی وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰہمارے ہاں عام طور پر گناہ کرنے کے لیے تقدیر کو بہانہ بنایا جاتا ہے جبکہ ایسا کرنا تقدیر پر ایمان لانے کے بالکل منافی ہے۔ انسان دنیا بنانے کے لیے دن رات دوڑ دھوپ کرتا ہے لیکن آخرت سنوارنے کے لیے بہانہ سازی سے کام لیتا ہے جبکہ نیک اعمال بھی تقدیر کا حصہ ہیں۔ ان کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں پیدا کیا ہے، لہذا ہمیں تقدیر پر بھروسا کر کے بدعملی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نیک اعمال کی طلب اور جستجو میں لگے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں جن کاموں کا فیصلہ کیا ہے وہ ضرور پورے ہوں گے اور اس کے اسباب بھی ہو کر رہیں گے۔ انسان ان کے خلاف خواہ کتنی ہی کوشش کر لے، انہیں دنیا کی کوئی طاقت واقع ہونے سے نہیں روک سکتی۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کا جنت وجہنم میں ٹھکانا لکھا جا چکا ہے۔“ حاضرین میں سے ایک آدمی نےکہا: اللہ کے رسول! پھر ہم کیوں نہ اس پر بھروسا کر لیں۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں،تم عمل کرو (جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے) اس کے لیے وہ چیز آسان کر دی گئی ہے۔“ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا۔ آخر تک۔“
حدیث حاشیہ:
(1) پوری آیات کا ترجمہ: ’’پھر جس نے مال دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور بھلی باتوں کی تصدیق کی تو یقیناً ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی سہولت دیتے ہیں اور جس نے بخل سے کام لیا اور بے پروا بنا رہا اور بھلائی کو جھٹلایا تو یقیناً ہم اسے تنگی کی راہ پر چلنے کی سہولت دیتے ہیں۔‘‘(اللیل: 5/92، 10) (2) بھلی بات سے مراد ایمان بالغیب بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کی توحید بھی، رسول کی تصدیق بھی اور اخلاق فاضلہ کی بجا آوری بھی۔ عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ جو شخص مذکورہ بالا کام کرے اس کے لیے احکام شریعت پر چلنا اور جنت میں داخلے کا مستحق ہونا آسان بنا دیا جاتا ہے اور اسے نیکی کے کاموں کی توفیق دی جاتی ہے حتی کہ بدی کی راہ پر چلنا انسان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس دوسرے شخص کے لیے جہنم کا راستہ آسان اور نیکی کی راہیں بہت مشکل بنا دی جاتی ہیں، پھر اس کی زندگی گناہ اور حرام کاموں میں گزرتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! جب سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے تو پھر عمل کس لیے ہوا؟ آپ نے فرمایا: عمل کے بغیر تو جنت نہیں مل سکتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر عرض کی: اللہ کے رسول! پھر تو ہم عمل کرنے میں جان توڑ کوشش کریں گے۔ (فتح الباري: 606/11) (3) حیرت کی بات ہے کہ جس حدیث کو سن کر آج عمل چھوڑ دینے کا عہد کیا جاتا ہے، اسی کو سن کر کل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جدوجہد کا عہد کرتے تھے۔ بات اصل یہ ہے کہ وہ حکم کے فرمانبردار تھے لیکن ہم عقل کے بندے ہیں۔ عقل بے چاری دنیا کی معمولی الجھنیں نہیں سلجھا سکتی، وہ تقدیر کے مسئلے کو کیسے حل کر سکتی ہے؟ ہاں، جب وہ بھی اسلام قبول کر لیتی ہے تو پھر مسائلِ شریعت میں اس کے نزدیک کوئی الجھن، الجھن نہیں رہتی؟ پھر اس میں وہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے کہ جتنا اختیار اسے مل چکا ہے، اسے کام میں لانا اپنا فرض منصبی خیال کرتی ہے۔ (4) تقدیر کا ہمیں علم نہیں تو پھر عمر میں اختیار سے کام کیوں نہ لیا جائے؟ رہا کسی شخص کے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے پیشگی علم کا مسئلہ تو اللہ تعالیٰ کا یہ علم کسی شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فیصلہ کر رکھا ہے۔ بہرحال انسان کو جیسا اور جتنا اختیار ملا ہے اس سے فائدہ اٹھائے۔ (5) تقدیر کے مسئلے کو ہم ایک مثال سے حل کرتے ہیں کہ ایک مریض کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور وہ اس کی تشخیص کر کے اپنے تجربے کے پیش نظر کسی کاغذ پر لکھ دیتا ہے کہ اس نے دوسرے دن مر جانا ہے، پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ دوسرے دن مر جاتا ہے، اب کیا وہ اس تحریر سے پابند ہو گیا ہے کہ وہ دوسرے دن ہی مرے گا، اگر ڈاکٹر نہ لکھتا تو کیا وہ مریض زندہ رہتا؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگی تحریر یا مشیت یا تقدیر کی بات اسے مجبور سمجھنے کی دلیل نہیں بلکہ یہ جو کام بھی کرتا ہے اپنے عزم اور کھلے اختیار سے کرتا ہے۔ تقدیر تو اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے مجبور محض بننے کی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمن سلمی نے اور ان سے حضرت علی ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور آنحضرت ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے اور آپ نے (اسی اثناء میں) فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کا جہنم کا یا جنت کا ٹھکانا لکھا جا چکا ہے، ایک مسلمان نے اس پر عرض کیا یا رسول اللہ! پھر کیوں نہ ہم اس پر بھروسہ کر لیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں عمل کرو کیوں کہ ہر شخص (اپنی تقدیر کے مطابق) عمل کی آسانی پاتا ہے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔ ﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى﴾(پس جس نے راہ للہ دیا اور تقویٰ اختیار کیا ....الخ)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) : While we were sitting with the Prophet (ﷺ) who had a stick with which he was scraping the earth, he lowered his head and said, "There is none of you but has his place assigned either in the Fire or in Paradise." Thereupon a man from the people said, "Shall we not depend upon this, O Allah's Apostle?" The Prophet (ﷺ) said, "No, but carry on and do your deeds, for everybody finds it easy to do such deeds (as will lead him to his place)." The Prophet (ﷺ) then recited the Verse: 'As for him who gives (in charity) and keeps his duty to Allah..' (92.5)