Sahi-Bukhari:
Divine Will (Al-Qadar)
(Chapter: Adam and Musa argued with each other in front of Allah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6614.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت آدم اور موسیٰ ؑ نے مباحثہ کیا۔ موسیٰ ؑ نے آدم ؑ سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں۔ آپ ہی ہمیں محرومی سے دوچار کیا اور جنت سے باہر نکال پھینکا۔ آدم ؑ نے موسیٰ ؑ سے کہا: اے موسٰی اللہ تعالٰی نے تجھے ہم کلامی کے ساتھ برگزیدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے تیرے لیے (تورات کو) لکھا، کیا تم مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہو جو اللہ تعالٰی نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟ آخر آدم ؑ اس مباحثے میں موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔ آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا:۔ سفیان نے کہا: ہم سے ابو زناد نے بیان کیا اعرج سے، انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے اس جیسی حدیث بیان کی۔
تشریح:
(1) صحیح مسلم میں یہ مباحثہ تفصیل سے بیان ہوا ہے جس میں حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے فضائل کا ذکر ہے، اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے تورات لکھی تھی؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: چالیس سال پہلے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہیں اس میں یہ لکھا ہوا ملا تھا: آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بہک گیا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: ’’پھر تم مجھے اسی بات پر ملامت کیوں کرتے ہو جس کا کرنا اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6744 (2652)) (2) اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کرنے سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے، فرشتوں سے سجدہ کرانے، جنت میں ٹھہرانے اور ایک درخت کے پاس جانے سے منع کرنے، پھر اس کے کھانے اور اس کی پاداش میں جنت سے نکل جانے کا واقعہ تقدیر میں لکھا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت آدم علیہ السلام صرف گریۂ و زاری کرتے رہے، اس کے علاوہ ایک حرف تک منہ سے نہیں نکالا۔ کلمات استغفار بھی اس وقت کہنے کی جراءت کی جب پروردگار ہی کی طرف سے ان کا القاء کیا گیا۔ یہ صرف خالق کا حق ہے کہ وہ مخلوق سے کسی معاملے کے متعلق باز پرس کرے۔ (3) ممکن تھا کہ کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ شاید حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں اس وقت جواب نہ آ سکا ہو گا، اس عقدہ کے حل کے لیے اللہ تعالیٰ نے عالم غیب میں ایک محفل مکالمہ مرتب فرمائی، حضرت آدم علیہ السلام سے گفتگو کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ایک ایسے فرزند کا انتخاب کیا جو فطرتاً تیز مزاج اور نازوں میں پلے ہوئے تھے تاکہ ان سے گفتگو کی ابتدا کر سکیں اور ان کے سامنے سوال و جواب کا یہی موضوع رکھ دیا۔ بہرحال حضرت آدم علیہ السلام نے ایسا جواب دیا جس سے موسیٰ علیہ السلام کو خاموش ہونا پڑا مگر یہاں معاملہ مخلوق کا مخلوق کے سامنے تھا لیکن جب یہی معاملہ خالق کے سامنے پیش آیا تو آدم علیہ السلام کے پاس گریۂ و زاری کرنے (رونے پیٹنے) کے علاوہ اور کوئی جواب نہ تھا۔ (4) مصیبت میں تقدیر کا ذکر کرنا رضا بالقضاء کی علامت ہے لیکن گناہ اور معصیت پر تقدیر کا بہانہ پیش کرنا انتہائی جسارت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تقدیر، یعنی اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم عین برحق ہے کہیں بھی اس سے ذرہ برابر کچھ مختلف نہیں ہو سکتا، مگر یہ علم بندوں کو مجبور نہیں کرتا۔ انسانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آئندہ کے امور میں تقدیر کو بطور بہانہ یا عذر پیش کریں کیونکہ ہر شخص کو صحیح راہ اختیار کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے لیکن اگر گناہ ہو جائے تو تقدیر کا بیان بطور عذر مباح ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6379
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6614
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6614
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6614
تمہید کتاب
قدر کے لغوی معنی تقدیر، یعنی اندازہ کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ کئی مرتبہ استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ہر چیز کا خزانہ ہمارے پاس ہے اور ہم اسے ایک خاص مقدار میں نازل کرتے ہیں۔'' (الحجر 15/21) نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: ''اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پورا اندازہ۔'' (الفرقان: 25/2) قدر کے اصطلاحی معنی قدرتِ الٰہی اور باقاعدہ طریقے سے ایک محکم فیصلے کے ساتھ چیزوں کا اندازہ مقرر کرنا ہیں۔ قدر ہی کے معنی میں لفظ قضا بھی مستعمل ہے۔ یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ کچھ اہل علم نے ان میں فرق کیا ہے کہ قضا ازل میں اجمالی کلی حکم کا نام ہے اور قدر اس اجمالی کلی کی جزئیات اور تفصیلی امور ہیں جو مستقبل میں واقع ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پختہ اور محکم انداز میں، منصوبہ بندی کے تحت وجود بخشا اور ایسے قوانین جاری کیے جو ناقابل تغییر ہیں۔ارکان اسلام پانچ ہیں اور اصول ایمان چھ ہیں۔ اصول ایمان میں ایک اصل ایمان بالقدر، یعنی تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ تقدیر پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے اور یقین محکم کے ساتھ مانا جائے کہ اس عالم رنگ و بو میں جو کچھ ہو رہا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے جسے وہ پہلے سے طے کر چکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو کچھ چاہے لیکن دنیا کا یہ کارخانہ اس کی مرضی کے خلاف چلے یا کائنات کا نظام کسی اتفاقی حادثہ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا ہو۔ اسے تسلیم کرنے سے نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی عاجزی اور بے بسی لازم آتی ہے۔ واضح رہے کہ تقدیر کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر ایمان لانے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اگر اس کے متعلق کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کے متعلق بحث و کٹ حجتی نہ کی جائے بلکہ عقل اور اپنے ذہن کی نارسائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر یقین کر لیا جائے بلکہ اپنے دل اور دماغ کو اس طرح مطمئن کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان کیا ہے، لہذا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کے متعلق بحث و جدال کا دروازہ نہ کھولا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے قضا و قدر کے متعلق بحث کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے ہمیں اس حالت میں دیکھ کر انتہائی خفگی اور ناراضی کا اظہار فرمایا حتی کہ آپ کا چہرۂ انور غصے سے سرخ ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا آپ کے رخساروں میں انار کے سرخ دانے نچوڑ دیے گئے ہیں، پھر آپ نے فرمایا: ''کیا تمہیں یہی حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں تمہارے لیے یہی پیغام لے کر آیا ہوں؟ خبردار! تم سے پہلی قومیں اس بنا پر تباہ ہوئیں کہ انہوں نے تقدیر کے متعلق بحث و حجت کا طریقہ اپنا لیا تھا۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلے کے متعلق ہرگز بحث و جدال نہ کیا کرو۔'' (جامع الترمذی، القدر، حدیث: 2133)اس حدیث میں امتوں کی تباہی سے مراد ان کی گمراہی ہے کیونکہ ہلاکت کا لفظ گمراہی کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے، اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں اعتقادی گمراہیاں اس وقت آئیں جب انہوں نے تقدیر کو بحث و جدال کا موضوع بنایا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس امت میں بھی اعتقادی گمراہیوں کا سلسلہ ''مسئلۂ تقدیر'' سے شروع ہوا۔ ہاں، اگر کوئی تقدیر پر ایمان و یقین رکھتے ہوئے صرف اطمینان قلب کے لیے تقدیر کے کسی مسئلے کے متعلق کسی اہل علم سے سوال کرتا ہے تو اس کی ممانعت نہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال کرنے پر تقدیر کے بعض پہلوؤں پر خود روشنی ڈالی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ہمارا دین بیان فرمائیں، گویا ہم اب پیدا ہوئے ہیں، آپ وضاحت فرمائیں کہ ہم لوگ جو عمل کرتے ہیں وہ اس لیے ہے کہ قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے اور اس کے متعلق تقدیر جاری کی گئی ہے یا اس مقصد کے لیے ہے جو آگے ہونے والا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں، بلکہ اعمال اسی مقصد کے لیے ہیں جسے لکھ کر قلم خشک ہو گیا ہے اور تقدیر جاری ہو چکی ہے۔'' حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت سن کر عرض کی: ایسے حالات میں عمل کا کیا فائدہ؟ آپ نے فرمایا: ''تم عمل کرتے رہو! ہر انسان کو اسی کام کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔'' (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6735 (2648))تقدیر کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو مظفر بن سمعانی کے حوالے سے بہت عمدہ بات لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں: تقدیر کا باب صرف کتاب و سنت کی روشنی میں سمجھنے پر موقوف ہے۔ اس میں عقل و قیاس کو مطلق طور پر کوئی دخل نہیں ہے۔ جو شخص کتاب و سنت سے ہٹ کر اسے سمجھنے کی کوشش میں لگا وہ گمراہ ہو گیا اور حیرت و تعجب کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اس نے چشمۂ شفا کو نہیں پایا اور اس چیز تک نہیں پہنچ سکے گا جس سے اس کا دل مطمئن ہو کیونکہ مسئلۂ تقدیر اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ علیم و خبیر کے ساتھ اسے خاص کیا ہے۔ اس نے مخلوق کی عقل، نیز ان کے علوم اور تقدیر کے درمیان پردہ حائل کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا راز اور حکمت ہے کہ اس کا علم کسی نبئ مرسل اور مقرب فرشتے کو بھی نہیں دیا گیا۔ (فتح الباری: 11/582)تقدیر کے معاملے میں بندہ نہ بالکل مجبور ہے اور نہ بالکل مختار بلکہ اسے ایک ظاہری اختیار دیا گیا ہے جسے کسب کہتے ہیں۔ اسی اختیار کے استعمال کرنے سے اسے قیامت کے دن جزا یا سزا ملے گی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور جماعت سلف کا یہی موقف ہے۔ اس کے بعد امت میں جبریہ اور قدریہ پیدا ہوئے۔ جبریہ کہتے ہیں کہ بندہ جمادات کی طرح بالکل مجبور اور بے بس ہیں۔ اسے اپنے کسی فعل کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس قدریہ کا کہنا ہے کہ بندے کے افعال میں اللہ تعالیٰ کو کچھ دخل نہیں بلکہ وہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اور جو کرتا ہے وہ مختارِ کل ہونے کی حیثیت سے کرتا ہے۔ ایک گروہ نے افراط کیا جبکہ دوسرا تفریط میں مبتلا ہوا اور اہل سنت نے ان کے درمیان درمیان موقف اختیار کیا ہے اور یہ موقف عقل و نقل پر قائم ہے۔ ان کے نزدیک کائنات میں جو حوادث ہوتے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں: ٭ ایک وہ حوادث ہیں جن میں بندوں کو کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انہیں ظاہر کرتا ہے، مثلا: بارش برسانا، کھیت اگانا، کسی کو پیدا کرنا اور اسے موت دینا، صحت و بیماری کا آنا اس قسم کے افعال میں کسی مخلوق کو کوئی دخل نہیں۔ ٭ دوسرے وہ افعال ہیں جو ایسی مخلوق سے سرزد ہوتے ہیں جو ارادہ و اور اختیار رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قسم کے افعال کی نسبت بندوں کی طرف کی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ''تم میں سے کچھ دنیا چاہتے تھے جبکہ کچھ آخرت کے چاہنے والے تھے۔'' (آل عمران: 3/152) اس آیت میں ارادے کی نسبت بندوں کی طرف کی گئی ہے۔اہل علم کے نزدیک تقدیر کے چار مراتب ہیں: ٭ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا مخلوق کرنے والی ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم کے مطابق تمام اشیاء کی تقدیر لوح محفوظ میں لکھ دی ہے۔ ٭ کائنات میں اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ ٭ اس عالم رنگ و بو میں تمام مخلوقات اور ان کے تمام اعمال کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اہل حق کو چاہیے کہ وہ تقدیر کے مندرجہ بالا چاروں مراتب پر ایمان رکھیں اور انہیں تسلیم کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقدیر کے متعلق امت کی رہنمائی کرتے ہوئے کتاب القدر کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے انتیس (29) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں تین (3) معلق اور چھبیس (26) متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں بائیس (22) مکرر اور سات (7) خالص ہیں۔ بیان کردہ احادیث کو، سوائے دو (2) کے امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے پانچ (5) آثار بھی مروی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں جن کے ذریعے سے تقدیر سے متعلقہ مشکل گھتیوں کو سلجھایا گیا ہے۔ ہم ان احادیث کے فوائد میں اس کی وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰہمارے ہاں عام طور پر گناہ کرنے کے لیے تقدیر کو بہانہ بنایا جاتا ہے جبکہ ایسا کرنا تقدیر پر ایمان لانے کے بالکل منافی ہے۔ انسان دنیا بنانے کے لیے دن رات دوڑ دھوپ کرتا ہے لیکن آخرت سنوارنے کے لیے بہانہ سازی سے کام لیتا ہے جبکہ نیک اعمال بھی تقدیر کا حصہ ہیں۔ ان کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں پیدا کیا ہے، لہذا ہمیں تقدیر پر بھروسا کر کے بدعملی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نیک اعمال کی طلب اور جستجو میں لگے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت آدم اور موسیٰ ؑ نے مباحثہ کیا۔ موسیٰ ؑ نے آدم ؑ سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں۔ آپ ہی ہمیں محرومی سے دوچار کیا اور جنت سے باہر نکال پھینکا۔ آدم ؑ نے موسیٰ ؑ سے کہا: اے موسٰی اللہ تعالٰی نے تجھے ہم کلامی کے ساتھ برگزیدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے تیرے لیے (تورات کو) لکھا، کیا تم مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہو جو اللہ تعالٰی نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟ آخر آدم ؑ اس مباحثے میں موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔ آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا:۔ سفیان نے کہا: ہم سے ابو زناد نے بیان کیا اعرج سے، انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے اس جیسی حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح مسلم میں یہ مباحثہ تفصیل سے بیان ہوا ہے جس میں حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے فضائل کا ذکر ہے، اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے تورات لکھی تھی؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: چالیس سال پہلے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہیں اس میں یہ لکھا ہوا ملا تھا: آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بہک گیا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: ’’پھر تم مجھے اسی بات پر ملامت کیوں کرتے ہو جس کا کرنا اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6744 (2652)) (2) اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کرنے سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے، فرشتوں سے سجدہ کرانے، جنت میں ٹھہرانے اور ایک درخت کے پاس جانے سے منع کرنے، پھر اس کے کھانے اور اس کی پاداش میں جنت سے نکل جانے کا واقعہ تقدیر میں لکھا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت آدم علیہ السلام صرف گریۂ و زاری کرتے رہے، اس کے علاوہ ایک حرف تک منہ سے نہیں نکالا۔ کلمات استغفار بھی اس وقت کہنے کی جراءت کی جب پروردگار ہی کی طرف سے ان کا القاء کیا گیا۔ یہ صرف خالق کا حق ہے کہ وہ مخلوق سے کسی معاملے کے متعلق باز پرس کرے۔ (3) ممکن تھا کہ کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ شاید حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں اس وقت جواب نہ آ سکا ہو گا، اس عقدہ کے حل کے لیے اللہ تعالیٰ نے عالم غیب میں ایک محفل مکالمہ مرتب فرمائی، حضرت آدم علیہ السلام سے گفتگو کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ایک ایسے فرزند کا انتخاب کیا جو فطرتاً تیز مزاج اور نازوں میں پلے ہوئے تھے تاکہ ان سے گفتگو کی ابتدا کر سکیں اور ان کے سامنے سوال و جواب کا یہی موضوع رکھ دیا۔ بہرحال حضرت آدم علیہ السلام نے ایسا جواب دیا جس سے موسیٰ علیہ السلام کو خاموش ہونا پڑا مگر یہاں معاملہ مخلوق کا مخلوق کے سامنے تھا لیکن جب یہی معاملہ خالق کے سامنے پیش آیا تو آدم علیہ السلام کے پاس گریۂ و زاری کرنے (رونے پیٹنے) کے علاوہ اور کوئی جواب نہ تھا۔ (4) مصیبت میں تقدیر کا ذکر کرنا رضا بالقضاء کی علامت ہے لیکن گناہ اور معصیت پر تقدیر کا بہانہ پیش کرنا انتہائی جسارت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تقدیر، یعنی اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم عین برحق ہے کہیں بھی اس سے ذرہ برابر کچھ مختلف نہیں ہو سکتا، مگر یہ علم بندوں کو مجبور نہیں کرتا۔ انسانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آئندہ کے امور میں تقدیر کو بطور بہانہ یا عذر پیش کریں کیونکہ ہر شخص کو صحیح راہ اختیار کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے لیکن اگر گناہ ہو جائے تو تقدیر کا بیان بطور عذر مباح ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم نے عمرو سے اس حدیث کو یاد کیا، ان سے طاؤس نے، انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”آدم اور موسیٰ نے مباحثہ کیا۔ موسیٰ ؑ نے آدم ؑ سے کہا آدم! آپ ہمارے باپ ہیں مگر آپ ہی نے ہمیں محروم کیا اور جنت سے نکالا۔ آدم ؑ نے موسیٰ ؑ سے کہا موسیٰ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کے لیے برگزیدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے آپ کے لیے تورات کو لکھا۔ کیا آپ مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا۔ آخر آدم ؑ بحث میں موسیٰ ؑ پر غالب آئے۔ تین مرتبہ آنحضرت ﷺ نے یہ جملہ فرمایا۔ سفیان نے اسی اسناد سے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے، ان سے ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے پھر یہی حدیث نقل کی۔
حدیث حاشیہ:
ظاہر یہی ہے کہ یہ بحث اسی وقت ہوئی ہوگی جب حضرت موسیٰ دنیا میں تھے۔ بعض نے کہا کہ قیامت کے دن یہ بحث ہوگی۔ امام بخاری نے عنداللہ کہہ کر یہی اشارہ کیا ہے۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی اے رب! ہم کو آدم دکھلا جس نے ہم کو جنت سے نکالا اس پر یہ ملاقات ہوئی۔ آدم تقدیر کا حوالہ دے کر غالب ہوئے۔ یہی کتاب القدر سے مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Adam and Moses (ؑ) argued with each other. Moses (ؑ) said to Adam. 'O Adam! You are our father who disappointed us and turned us out of Paradise.' Then Adam said to him, 'O Moses (ؑ)! Allah favored you with His talk (talked to you directly) and He wrote (the Torah) for you with His Own Hand. Do you blame me for action which Allah had written in my fate forty years before my creation?' So Adam confuted Moses (ؑ), Adam confuted Moses (ؑ)," the Prophet (ﷺ) added, repeating the Statement three times.