باب: اللہ پاک بندے اور اس کے دل کے درمیان میں حائل ہو جاتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Divine Will (Al-Qadar)
(Chapter: "... (Allah) comes in between a person and his heart")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6617.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اکثر طور پر یوں قسم اٹھایا کرتے تھے: ”نہیں، دلوں کو پھیرنے والے کی قسم!۔“
تشریح:
(1) مقلب القلوب کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے کے دل کو ایمان سے کفر اختیار کرنے کی طرف اور کفر سے ایمان اختیار کرنے کی طرف پھیرنے والا ہے، یعنی ایک مومن کو کافر بنانے اور کافر کو کفر اختیار کرانے پر قادر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ انسان کے دل کی مثال اس پَر کی طرح ہے جو ایک چٹیل میدان میں پڑا ہو اور تیز و تند ہوائیں اس کو کبھی سیدھا اور کبھی الٹا کر رہی ہوں۔ (مسند أحمد: 419/4) ایک وسیع جنگل میں تیز و تند ہوا اور ایک ذرا سے پَر کا بھلا کیا مقابلہ ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد دل کے ارادوں کو پھیرنا ہے، چنانچہ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام انسانوں کے دل رحمٰن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا فرمائی: ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری پر جھکائے رکھنا۔‘‘ (مسند أحمد: 251/6) (3) حق تعالیٰ کی علی الاطلاق قدرت اور بندوں کی انتہائی بے چارگی کا نقشہ اس سے زیادہ مؤثر اور مختصر انداز میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ دعا سنی تو عرض کرنے لگے کہ جب ہم آپ پر ایمان لا چکے ہیں تو کیا آپ کو ہمارے متعلق اب بھی کوئی خطرہ باقی ہے تو آپ نے وہی الفاظ بیان فرمائے جو پہلی حدیث میں بیان ہو چکے ہیں۔ (جامع الترمذي، القدر، حدیث: 2140) اس کا مطلب یہ ہے کہ مقام صحابیت پر فائز ہو جانے کے بعد بھی کوئی شخص قضا و قدر کے قاہرانہ تصرف سے بے خوف نہیں ہو سکتا۔ شان بندگی اسی میں ہے کہ کسی بلند سے بلند مقام پر پہنچ جانے کے بعد بھی مختار کل کے اختیارات سے انسان ڈرتا رہے۔ اس سے یہ بات بھی پیش نظر رہتی چاہیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جو بڑی حد تک ان خطرات سے محفوظ تھے، جب ان کے متعلق بارگاہ نبوت سے یہ جواب ملا تو پھر ہم جیسے کمزور و ناتواں لوگوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6382
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6617
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6617
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6617
تمہید کتاب
قدر کے لغوی معنی تقدیر، یعنی اندازہ کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ کئی مرتبہ استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ہر چیز کا خزانہ ہمارے پاس ہے اور ہم اسے ایک خاص مقدار میں نازل کرتے ہیں۔'' (الحجر 15/21) نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: ''اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پورا اندازہ۔'' (الفرقان: 25/2) قدر کے اصطلاحی معنی قدرتِ الٰہی اور باقاعدہ طریقے سے ایک محکم فیصلے کے ساتھ چیزوں کا اندازہ مقرر کرنا ہیں۔ قدر ہی کے معنی میں لفظ قضا بھی مستعمل ہے۔ یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ کچھ اہل علم نے ان میں فرق کیا ہے کہ قضا ازل میں اجمالی کلی حکم کا نام ہے اور قدر اس اجمالی کلی کی جزئیات اور تفصیلی امور ہیں جو مستقبل میں واقع ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پختہ اور محکم انداز میں، منصوبہ بندی کے تحت وجود بخشا اور ایسے قوانین جاری کیے جو ناقابل تغییر ہیں۔ارکان اسلام پانچ ہیں اور اصول ایمان چھ ہیں۔ اصول ایمان میں ایک اصل ایمان بالقدر، یعنی تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ تقدیر پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے اور یقین محکم کے ساتھ مانا جائے کہ اس عالم رنگ و بو میں جو کچھ ہو رہا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے جسے وہ پہلے سے طے کر چکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو کچھ چاہے لیکن دنیا کا یہ کارخانہ اس کی مرضی کے خلاف چلے یا کائنات کا نظام کسی اتفاقی حادثہ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا ہو۔ اسے تسلیم کرنے سے نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی عاجزی اور بے بسی لازم آتی ہے۔ واضح رہے کہ تقدیر کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر ایمان لانے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اگر اس کے متعلق کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کے متعلق بحث و کٹ حجتی نہ کی جائے بلکہ عقل اور اپنے ذہن کی نارسائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر یقین کر لیا جائے بلکہ اپنے دل اور دماغ کو اس طرح مطمئن کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان کیا ہے، لہذا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کے متعلق بحث و جدال کا دروازہ نہ کھولا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے قضا و قدر کے متعلق بحث کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے ہمیں اس حالت میں دیکھ کر انتہائی خفگی اور ناراضی کا اظہار فرمایا حتی کہ آپ کا چہرۂ انور غصے سے سرخ ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا آپ کے رخساروں میں انار کے سرخ دانے نچوڑ دیے گئے ہیں، پھر آپ نے فرمایا: ''کیا تمہیں یہی حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں تمہارے لیے یہی پیغام لے کر آیا ہوں؟ خبردار! تم سے پہلی قومیں اس بنا پر تباہ ہوئیں کہ انہوں نے تقدیر کے متعلق بحث و حجت کا طریقہ اپنا لیا تھا۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلے کے متعلق ہرگز بحث و جدال نہ کیا کرو۔'' (جامع الترمذی، القدر، حدیث: 2133)اس حدیث میں امتوں کی تباہی سے مراد ان کی گمراہی ہے کیونکہ ہلاکت کا لفظ گمراہی کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے، اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں اعتقادی گمراہیاں اس وقت آئیں جب انہوں نے تقدیر کو بحث و جدال کا موضوع بنایا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس امت میں بھی اعتقادی گمراہیوں کا سلسلہ ''مسئلۂ تقدیر'' سے شروع ہوا۔ ہاں، اگر کوئی تقدیر پر ایمان و یقین رکھتے ہوئے صرف اطمینان قلب کے لیے تقدیر کے کسی مسئلے کے متعلق کسی اہل علم سے سوال کرتا ہے تو اس کی ممانعت نہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال کرنے پر تقدیر کے بعض پہلوؤں پر خود روشنی ڈالی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ہمارا دین بیان فرمائیں، گویا ہم اب پیدا ہوئے ہیں، آپ وضاحت فرمائیں کہ ہم لوگ جو عمل کرتے ہیں وہ اس لیے ہے کہ قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے اور اس کے متعلق تقدیر جاری کی گئی ہے یا اس مقصد کے لیے ہے جو آگے ہونے والا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں، بلکہ اعمال اسی مقصد کے لیے ہیں جسے لکھ کر قلم خشک ہو گیا ہے اور تقدیر جاری ہو چکی ہے۔'' حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت سن کر عرض کی: ایسے حالات میں عمل کا کیا فائدہ؟ آپ نے فرمایا: ''تم عمل کرتے رہو! ہر انسان کو اسی کام کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔'' (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6735 (2648))تقدیر کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو مظفر بن سمعانی کے حوالے سے بہت عمدہ بات لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں: تقدیر کا باب صرف کتاب و سنت کی روشنی میں سمجھنے پر موقوف ہے۔ اس میں عقل و قیاس کو مطلق طور پر کوئی دخل نہیں ہے۔ جو شخص کتاب و سنت سے ہٹ کر اسے سمجھنے کی کوشش میں لگا وہ گمراہ ہو گیا اور حیرت و تعجب کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اس نے چشمۂ شفا کو نہیں پایا اور اس چیز تک نہیں پہنچ سکے گا جس سے اس کا دل مطمئن ہو کیونکہ مسئلۂ تقدیر اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ علیم و خبیر کے ساتھ اسے خاص کیا ہے۔ اس نے مخلوق کی عقل، نیز ان کے علوم اور تقدیر کے درمیان پردہ حائل کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا راز اور حکمت ہے کہ اس کا علم کسی نبئ مرسل اور مقرب فرشتے کو بھی نہیں دیا گیا۔ (فتح الباری: 11/582)تقدیر کے معاملے میں بندہ نہ بالکل مجبور ہے اور نہ بالکل مختار بلکہ اسے ایک ظاہری اختیار دیا گیا ہے جسے کسب کہتے ہیں۔ اسی اختیار کے استعمال کرنے سے اسے قیامت کے دن جزا یا سزا ملے گی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور جماعت سلف کا یہی موقف ہے۔ اس کے بعد امت میں جبریہ اور قدریہ پیدا ہوئے۔ جبریہ کہتے ہیں کہ بندہ جمادات کی طرح بالکل مجبور اور بے بس ہیں۔ اسے اپنے کسی فعل کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس قدریہ کا کہنا ہے کہ بندے کے افعال میں اللہ تعالیٰ کو کچھ دخل نہیں بلکہ وہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اور جو کرتا ہے وہ مختارِ کل ہونے کی حیثیت سے کرتا ہے۔ ایک گروہ نے افراط کیا جبکہ دوسرا تفریط میں مبتلا ہوا اور اہل سنت نے ان کے درمیان درمیان موقف اختیار کیا ہے اور یہ موقف عقل و نقل پر قائم ہے۔ ان کے نزدیک کائنات میں جو حوادث ہوتے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں: ٭ ایک وہ حوادث ہیں جن میں بندوں کو کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انہیں ظاہر کرتا ہے، مثلا: بارش برسانا، کھیت اگانا، کسی کو پیدا کرنا اور اسے موت دینا، صحت و بیماری کا آنا اس قسم کے افعال میں کسی مخلوق کو کوئی دخل نہیں۔ ٭ دوسرے وہ افعال ہیں جو ایسی مخلوق سے سرزد ہوتے ہیں جو ارادہ و اور اختیار رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قسم کے افعال کی نسبت بندوں کی طرف کی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ''تم میں سے کچھ دنیا چاہتے تھے جبکہ کچھ آخرت کے چاہنے والے تھے۔'' (آل عمران: 3/152) اس آیت میں ارادے کی نسبت بندوں کی طرف کی گئی ہے۔اہل علم کے نزدیک تقدیر کے چار مراتب ہیں: ٭ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا مخلوق کرنے والی ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم کے مطابق تمام اشیاء کی تقدیر لوح محفوظ میں لکھ دی ہے۔ ٭ کائنات میں اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ ٭ اس عالم رنگ و بو میں تمام مخلوقات اور ان کے تمام اعمال کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اہل حق کو چاہیے کہ وہ تقدیر کے مندرجہ بالا چاروں مراتب پر ایمان رکھیں اور انہیں تسلیم کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقدیر کے متعلق امت کی رہنمائی کرتے ہوئے کتاب القدر کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے انتیس (29) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں تین (3) معلق اور چھبیس (26) متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں بائیس (22) مکرر اور سات (7) خالص ہیں۔ بیان کردہ احادیث کو، سوائے دو (2) کے امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے پانچ (5) آثار بھی مروی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں جن کے ذریعے سے تقدیر سے متعلقہ مشکل گھتیوں کو سلجھایا گیا ہے۔ ہم ان احادیث کے فوائد میں اس کی وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰہمارے ہاں عام طور پر گناہ کرنے کے لیے تقدیر کو بہانہ بنایا جاتا ہے جبکہ ایسا کرنا تقدیر پر ایمان لانے کے بالکل منافی ہے۔ انسان دنیا بنانے کے لیے دن رات دوڑ دھوپ کرتا ہے لیکن آخرت سنوارنے کے لیے بہانہ سازی سے کام لیتا ہے جبکہ نیک اعمال بھی تقدیر کا حصہ ہیں۔ ان کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں پیدا کیا ہے، لہذا ہمیں تقدیر پر بھروسا کر کے بدعملی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نیک اعمال کی طلب اور جستجو میں لگے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
آیت کے اس حصے کو سمجھنے کے لیے پوری آیت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے جو حسب ذیل ہے: ''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جبکہ رسول تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لیے زندگی بخش ہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔'' (الانفال: 8/24) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی دل کے اتنا قریب ہے کہ وہ راز، ارادے اور نیک تک کو جانتا ہے۔ دل ہی خیر و شر کا منبع ہے، لہذا مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں دیر نہیں کرنی چاہیے ورنہ ممکن ہے کہ بعد میں کوئی اور خیال پیدا ہو جائے اور انسان، اللہ تعالیٰ کی بات ماننے کی بجائے دوسری طرف پھر جائے، اللہ تعالیٰ کا قانون بھی یہ ہے کہ انسان جیسا ارادہ یا نیت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اسی طرح کی راہیں سمجھا دیتا ہے، اس بنا پر دل کو حتی الامکان شیطانی وسوسوں کی آماجگاہ بننے سے بچایا چاہیے اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ بلاتاخیر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے: ''اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔'' (سنن ابن ماجہ، السنۃ، حدیث: 199) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث اس امر کی مزید وضاحت کرتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اکثر طور پر یوں قسم اٹھایا کرتے تھے: ”نہیں، دلوں کو پھیرنے والے کی قسم!۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مقلب القلوب کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے کے دل کو ایمان سے کفر اختیار کرنے کی طرف اور کفر سے ایمان اختیار کرنے کی طرف پھیرنے والا ہے، یعنی ایک مومن کو کافر بنانے اور کافر کو کفر اختیار کرانے پر قادر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ انسان کے دل کی مثال اس پَر کی طرح ہے جو ایک چٹیل میدان میں پڑا ہو اور تیز و تند ہوائیں اس کو کبھی سیدھا اور کبھی الٹا کر رہی ہوں۔ (مسند أحمد: 419/4) ایک وسیع جنگل میں تیز و تند ہوا اور ایک ذرا سے پَر کا بھلا کیا مقابلہ ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد دل کے ارادوں کو پھیرنا ہے، چنانچہ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام انسانوں کے دل رحمٰن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا فرمائی: ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری پر جھکائے رکھنا۔‘‘ (مسند أحمد: 251/6) (3) حق تعالیٰ کی علی الاطلاق قدرت اور بندوں کی انتہائی بے چارگی کا نقشہ اس سے زیادہ مؤثر اور مختصر انداز میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ دعا سنی تو عرض کرنے لگے کہ جب ہم آپ پر ایمان لا چکے ہیں تو کیا آپ کو ہمارے متعلق اب بھی کوئی خطرہ باقی ہے تو آپ نے وہی الفاظ بیان فرمائے جو پہلی حدیث میں بیان ہو چکے ہیں۔ (جامع الترمذي، القدر، حدیث: 2140) اس کا مطلب یہ ہے کہ مقام صحابیت پر فائز ہو جانے کے بعد بھی کوئی شخص قضا و قدر کے قاہرانہ تصرف سے بے خوف نہیں ہو سکتا۔ شان بندگی اسی میں ہے کہ کسی بلند سے بلند مقام پر پہنچ جانے کے بعد بھی مختار کل کے اختیارات سے انسان ڈرتا رہے۔ اس سے یہ بات بھی پیش نظر رہتی چاہیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جو بڑی حد تک ان خطرات سے محفوظ تھے، جب ان کے متعلق بارگاہ نبوت سے یہ جواب ملا تو پھر ہم جیسے کمزور و ناتواں لوگوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ اکثر نبی کریم ﷺ قسم کھایا کرتے تھے کہ ”نہیں“ دلوں کو پھیرنے والے کی قسم۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : When taking an oath, the Prophet (ﷺ) very often used to say, "No, by Him Who turns the hearts."