Sahi-Bukhari:
Divine Will (Al-Qadar)
(Chapter: "... Never could we have found guidance, were it not that Allah had guided us ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
” او ہم ہدایت پانے والے نہیں تھے، اگر اللہ نے ہمیں ہدایت نہ کی ہوتی “ ۔ ” اگر اللہ نے مجھے ہدایت کی ہوتی تو میں متقیوں میں سے ہوتا “ ۔ ( الزمر: 57 )
6620.
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے غزوہ خندق کے دن نبی ﷺ کو دیکھا، آپ ہمارے ساتھ مٹی اٹھا رہے تھے اور فرما رہے تھے: اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پا سکتے نہ روزہ رکھ سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے اے اللہ! ہم پر سکینت نازل فرما اگر ہم دشمن سے لڑیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ مشرکین نے ہم پر زیادتی کی ہے جس وقت انہوں نے فتنے کا ارادہ کیا تو ہم نے انکار کر دیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں ''لولا'' کا استعمال اللہ تعالیٰ کے احسان کے طور پر استعمال ہوا ہے، ایسا جائز ہے اور قرآن کریم میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، البتہ اپنے عجز کو ظاہر کرنے کے لیے یا تقدیر پر تدبیر کو حاکم بنانے کے لیے ''لو'' کا استعمال شرعاً جائز نہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے: ’’جو چیز تجھے نفع دے اس کے لیے حریص بنو، اس کے حصول کے لیے اللہ سے مدد طلب کرو اور عاجزی اختیار نہ کرو۔ اور اگر کبھی کوئی نقصان ہو جائے تو اس طرح نہ کہنا: اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہو جاتا بلکہ یوں کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح مقدر فرما دیا تھا، لہذا جیسا اس نے چاہا تھا اسی کے موافق ہو گیا کیونکہ اس ''اگر'' کے کلمے سے شیطانی عمل کا دروازہ کھلتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6774 (2664)) (2) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان نفع اور فائدہ دینے والے اعمال میں حریص نہیں وہ عاجز انسان ہے۔ انسان کا کمال عجز اختیار کرنے میں نہیں بلکہ کامیابی کے لیے سر توڑ کوشش کرنے میں ہے اور یہ عقیدہ رکھ کر جدوجہد کی جائے کہ ہمارے مقدر میں جو لکھا جا چکا ہے یہ اس کے لیے ہے، یعنی تدبیر کرنا ضروری ہے لیکن اسے حاکم بنا کر نہیں بلکہ تقدیر کا محکوم بنا کر کوشش کی جائے۔ اب اگر تدبیر کارگر نہ ہوئی اور اسباب اختیار کر لینے کے بعد مقصد پورا نہ ہو سکا تو یہ کہنا شروع کر دیا جائے، اگر میں یوں کرتا تو کامیاب ہو جاتا۔ یہ بھی دراصل تقدیر کو تدبیر کا محکوم بنانے کے مترادف ہے، اس لیے یہ مومن بندے کی شان نہیں بلکہ یہ شیطان کی حرکت ہے کیونکہ اب اگر، مگر کہنے سے سوائے ندامت، پشیمانی اور افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہو گا، جو مقدر تھا وہ تو ہو چکا، لہذا اب اگر مگر کے دروازے کو کھولنے کا فائدہ؟ ہاں جدوجہد کے بعد بھی اگر مقصد حاصل نہ ہو تو اب اسے قضائے الٰہی کے حوالے کر دینا یہ مومن کی شان ہے اور یہ اس کے لیے باعث تسلی بھی ہے، لہذا نتیجہ ظاہر ہونے سے پہلے تدبیر سے غفلت کا نام عجز ہے، اسے تقدیر پر اعتماد کا نام نہیں دیا جا سکتا اور نتائج کے خلاف ہونے کی صورت میں اپنی تدبیر کی کمزوری کو یاد کرنا شیطانی عمل ہے اور اسے تقدیر الٰہی کے حوالے کر دینا مومن کی شان ہے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قضا و قدر اپنی جگہ پر ہے اور کسب و اختیار اپنی جگہ پر لیکن شان مومن یہ ہے کہ کامیابی ہو یا ناکامی دونوں حالتوں میں وہ اپنی بندگی اور عبودیت کو قائم رکھے اور شیطان کو در آنے (گھسنے اور داخل ہونے) کا موقع نہ دے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے معاملات کے لیے پوری جدوجہد کرے، پھر اگر نتیجہ موافق برآمد ہو تو اس پر اترائے نہیں اور اگر خلاف ہو جائے تو اس پر بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔ قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں بھی یہی سبق دیا گیا ہے: ’’تاکہ اس پر غم نہ کھاؤ جو تمہیں حاصل نہ ہو سکا اور اس پر اتراؤ نہیں جو تمہیں عطا فرمایا۔‘‘(الحدید:23/57)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6385
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6620
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6620
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6620
تمہید کتاب
قدر کے لغوی معنی تقدیر، یعنی اندازہ کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ کئی مرتبہ استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ہر چیز کا خزانہ ہمارے پاس ہے اور ہم اسے ایک خاص مقدار میں نازل کرتے ہیں۔'' (الحجر 15/21) نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: ''اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پورا اندازہ۔'' (الفرقان: 25/2) قدر کے اصطلاحی معنی قدرتِ الٰہی اور باقاعدہ طریقے سے ایک محکم فیصلے کے ساتھ چیزوں کا اندازہ مقرر کرنا ہیں۔ قدر ہی کے معنی میں لفظ قضا بھی مستعمل ہے۔ یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ کچھ اہل علم نے ان میں فرق کیا ہے کہ قضا ازل میں اجمالی کلی حکم کا نام ہے اور قدر اس اجمالی کلی کی جزئیات اور تفصیلی امور ہیں جو مستقبل میں واقع ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پختہ اور محکم انداز میں، منصوبہ بندی کے تحت وجود بخشا اور ایسے قوانین جاری کیے جو ناقابل تغییر ہیں۔ارکان اسلام پانچ ہیں اور اصول ایمان چھ ہیں۔ اصول ایمان میں ایک اصل ایمان بالقدر، یعنی تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ تقدیر پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے اور یقین محکم کے ساتھ مانا جائے کہ اس عالم رنگ و بو میں جو کچھ ہو رہا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے جسے وہ پہلے سے طے کر چکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو کچھ چاہے لیکن دنیا کا یہ کارخانہ اس کی مرضی کے خلاف چلے یا کائنات کا نظام کسی اتفاقی حادثہ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا ہو۔ اسے تسلیم کرنے سے نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی عاجزی اور بے بسی لازم آتی ہے۔ واضح رہے کہ تقدیر کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر ایمان لانے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اگر اس کے متعلق کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کے متعلق بحث و کٹ حجتی نہ کی جائے بلکہ عقل اور اپنے ذہن کی نارسائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر یقین کر لیا جائے بلکہ اپنے دل اور دماغ کو اس طرح مطمئن کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان کیا ہے، لہذا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کے متعلق بحث و جدال کا دروازہ نہ کھولا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے قضا و قدر کے متعلق بحث کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے ہمیں اس حالت میں دیکھ کر انتہائی خفگی اور ناراضی کا اظہار فرمایا حتی کہ آپ کا چہرۂ انور غصے سے سرخ ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا آپ کے رخساروں میں انار کے سرخ دانے نچوڑ دیے گئے ہیں، پھر آپ نے فرمایا: ''کیا تمہیں یہی حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں تمہارے لیے یہی پیغام لے کر آیا ہوں؟ خبردار! تم سے پہلی قومیں اس بنا پر تباہ ہوئیں کہ انہوں نے تقدیر کے متعلق بحث و حجت کا طریقہ اپنا لیا تھا۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلے کے متعلق ہرگز بحث و جدال نہ کیا کرو۔'' (جامع الترمذی، القدر، حدیث: 2133)اس حدیث میں امتوں کی تباہی سے مراد ان کی گمراہی ہے کیونکہ ہلاکت کا لفظ گمراہی کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے، اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں اعتقادی گمراہیاں اس وقت آئیں جب انہوں نے تقدیر کو بحث و جدال کا موضوع بنایا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس امت میں بھی اعتقادی گمراہیوں کا سلسلہ ''مسئلۂ تقدیر'' سے شروع ہوا۔ ہاں، اگر کوئی تقدیر پر ایمان و یقین رکھتے ہوئے صرف اطمینان قلب کے لیے تقدیر کے کسی مسئلے کے متعلق کسی اہل علم سے سوال کرتا ہے تو اس کی ممانعت نہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال کرنے پر تقدیر کے بعض پہلوؤں پر خود روشنی ڈالی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ہمارا دین بیان فرمائیں، گویا ہم اب پیدا ہوئے ہیں، آپ وضاحت فرمائیں کہ ہم لوگ جو عمل کرتے ہیں وہ اس لیے ہے کہ قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے اور اس کے متعلق تقدیر جاری کی گئی ہے یا اس مقصد کے لیے ہے جو آگے ہونے والا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں، بلکہ اعمال اسی مقصد کے لیے ہیں جسے لکھ کر قلم خشک ہو گیا ہے اور تقدیر جاری ہو چکی ہے۔'' حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت سن کر عرض کی: ایسے حالات میں عمل کا کیا فائدہ؟ آپ نے فرمایا: ''تم عمل کرتے رہو! ہر انسان کو اسی کام کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔'' (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6735 (2648))تقدیر کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو مظفر بن سمعانی کے حوالے سے بہت عمدہ بات لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں: تقدیر کا باب صرف کتاب و سنت کی روشنی میں سمجھنے پر موقوف ہے۔ اس میں عقل و قیاس کو مطلق طور پر کوئی دخل نہیں ہے۔ جو شخص کتاب و سنت سے ہٹ کر اسے سمجھنے کی کوشش میں لگا وہ گمراہ ہو گیا اور حیرت و تعجب کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اس نے چشمۂ شفا کو نہیں پایا اور اس چیز تک نہیں پہنچ سکے گا جس سے اس کا دل مطمئن ہو کیونکہ مسئلۂ تقدیر اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ علیم و خبیر کے ساتھ اسے خاص کیا ہے۔ اس نے مخلوق کی عقل، نیز ان کے علوم اور تقدیر کے درمیان پردہ حائل کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا راز اور حکمت ہے کہ اس کا علم کسی نبئ مرسل اور مقرب فرشتے کو بھی نہیں دیا گیا۔ (فتح الباری: 11/582)تقدیر کے معاملے میں بندہ نہ بالکل مجبور ہے اور نہ بالکل مختار بلکہ اسے ایک ظاہری اختیار دیا گیا ہے جسے کسب کہتے ہیں۔ اسی اختیار کے استعمال کرنے سے اسے قیامت کے دن جزا یا سزا ملے گی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور جماعت سلف کا یہی موقف ہے۔ اس کے بعد امت میں جبریہ اور قدریہ پیدا ہوئے۔ جبریہ کہتے ہیں کہ بندہ جمادات کی طرح بالکل مجبور اور بے بس ہیں۔ اسے اپنے کسی فعل کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس قدریہ کا کہنا ہے کہ بندے کے افعال میں اللہ تعالیٰ کو کچھ دخل نہیں بلکہ وہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اور جو کرتا ہے وہ مختارِ کل ہونے کی حیثیت سے کرتا ہے۔ ایک گروہ نے افراط کیا جبکہ دوسرا تفریط میں مبتلا ہوا اور اہل سنت نے ان کے درمیان درمیان موقف اختیار کیا ہے اور یہ موقف عقل و نقل پر قائم ہے۔ ان کے نزدیک کائنات میں جو حوادث ہوتے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں: ٭ ایک وہ حوادث ہیں جن میں بندوں کو کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انہیں ظاہر کرتا ہے، مثلا: بارش برسانا، کھیت اگانا، کسی کو پیدا کرنا اور اسے موت دینا، صحت و بیماری کا آنا اس قسم کے افعال میں کسی مخلوق کو کوئی دخل نہیں۔ ٭ دوسرے وہ افعال ہیں جو ایسی مخلوق سے سرزد ہوتے ہیں جو ارادہ و اور اختیار رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قسم کے افعال کی نسبت بندوں کی طرف کی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ''تم میں سے کچھ دنیا چاہتے تھے جبکہ کچھ آخرت کے چاہنے والے تھے۔'' (آل عمران: 3/152) اس آیت میں ارادے کی نسبت بندوں کی طرف کی گئی ہے۔اہل علم کے نزدیک تقدیر کے چار مراتب ہیں: ٭ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا مخلوق کرنے والی ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم کے مطابق تمام اشیاء کی تقدیر لوح محفوظ میں لکھ دی ہے۔ ٭ کائنات میں اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ ٭ اس عالم رنگ و بو میں تمام مخلوقات اور ان کے تمام اعمال کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اہل حق کو چاہیے کہ وہ تقدیر کے مندرجہ بالا چاروں مراتب پر ایمان رکھیں اور انہیں تسلیم کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقدیر کے متعلق امت کی رہنمائی کرتے ہوئے کتاب القدر کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے انتیس (29) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں تین (3) معلق اور چھبیس (26) متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں بائیس (22) مکرر اور سات (7) خالص ہیں۔ بیان کردہ احادیث کو، سوائے دو (2) کے امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے پانچ (5) آثار بھی مروی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں جن کے ذریعے سے تقدیر سے متعلقہ مشکل گھتیوں کو سلجھایا گیا ہے۔ ہم ان احادیث کے فوائد میں اس کی وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰہمارے ہاں عام طور پر گناہ کرنے کے لیے تقدیر کو بہانہ بنایا جاتا ہے جبکہ ایسا کرنا تقدیر پر ایمان لانے کے بالکل منافی ہے۔ انسان دنیا بنانے کے لیے دن رات دوڑ دھوپ کرتا ہے لیکن آخرت سنوارنے کے لیے بہانہ سازی سے کام لیتا ہے جبکہ نیک اعمال بھی تقدیر کا حصہ ہیں۔ ان کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں پیدا کیا ہے، لہذا ہمیں تقدیر پر بھروسا کر کے بدعملی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نیک اعمال کی طلب اور جستجو میں لگے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دو آیات کا حوالہ دیا ہے، آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ''لولا'' کا استعمال اللہ تعالیٰ کے احسان و امتنان کے لیے استعمال ہو تو جائز ہے، اسی طرح حرف لو اگر اپنی بدعقیدگی یا بدعملی کو سہارا دینے کے لیے استعمال کیا جائے تو محل نظر ہے جیسا کہ آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ قیامت کے دن کافر کہے گا: ''افسوس! میری اس کوتاہی پر جو میں اللہ کے حق میں کرتا رہا اور بلاشبہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا یا یوں کہے: اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں اہل تقویٰ میں سے ہوتا۔'' (الزمر: 39/56-57) مگر اس حسرت کا کچھ فائدہ نہ ہو گا کیونکہ عمل کا وقت گزر چکا ہو گا۔ بہرحال تقدیر کے باب میں لو کا استعمال انتہائی محل نظر ہے جیسا کہ ہم آئندہ اس کی وضاحت کریں گے۔
” او ہم ہدایت پانے والے نہیں تھے، اگر اللہ نے ہمیں ہدایت نہ کی ہوتی “ ۔ ” اگر اللہ نے مجھے ہدایت کی ہوتی تو میں متقیوں میں سے ہوتا “ ۔ ( الزمر: 57 )
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے غزوہ خندق کے دن نبی ﷺ کو دیکھا، آپ ہمارے ساتھ مٹی اٹھا رہے تھے اور فرما رہے تھے: اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پا سکتے نہ روزہ رکھ سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے اے اللہ! ہم پر سکینت نازل فرما اگر ہم دشمن سے لڑیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ مشرکین نے ہم پر زیادتی کی ہے جس وقت انہوں نے فتنے کا ارادہ کیا تو ہم نے انکار کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ''لولا'' کا استعمال اللہ تعالیٰ کے احسان کے طور پر استعمال ہوا ہے، ایسا جائز ہے اور قرآن کریم میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، البتہ اپنے عجز کو ظاہر کرنے کے لیے یا تقدیر پر تدبیر کو حاکم بنانے کے لیے ''لو'' کا استعمال شرعاً جائز نہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے: ’’جو چیز تجھے نفع دے اس کے لیے حریص بنو، اس کے حصول کے لیے اللہ سے مدد طلب کرو اور عاجزی اختیار نہ کرو۔ اور اگر کبھی کوئی نقصان ہو جائے تو اس طرح نہ کہنا: اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہو جاتا بلکہ یوں کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح مقدر فرما دیا تھا، لہذا جیسا اس نے چاہا تھا اسی کے موافق ہو گیا کیونکہ اس ''اگر'' کے کلمے سے شیطانی عمل کا دروازہ کھلتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6774 (2664)) (2) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان نفع اور فائدہ دینے والے اعمال میں حریص نہیں وہ عاجز انسان ہے۔ انسان کا کمال عجز اختیار کرنے میں نہیں بلکہ کامیابی کے لیے سر توڑ کوشش کرنے میں ہے اور یہ عقیدہ رکھ کر جدوجہد کی جائے کہ ہمارے مقدر میں جو لکھا جا چکا ہے یہ اس کے لیے ہے، یعنی تدبیر کرنا ضروری ہے لیکن اسے حاکم بنا کر نہیں بلکہ تقدیر کا محکوم بنا کر کوشش کی جائے۔ اب اگر تدبیر کارگر نہ ہوئی اور اسباب اختیار کر لینے کے بعد مقصد پورا نہ ہو سکا تو یہ کہنا شروع کر دیا جائے، اگر میں یوں کرتا تو کامیاب ہو جاتا۔ یہ بھی دراصل تقدیر کو تدبیر کا محکوم بنانے کے مترادف ہے، اس لیے یہ مومن بندے کی شان نہیں بلکہ یہ شیطان کی حرکت ہے کیونکہ اب اگر، مگر کہنے سے سوائے ندامت، پشیمانی اور افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہو گا، جو مقدر تھا وہ تو ہو چکا، لہذا اب اگر مگر کے دروازے کو کھولنے کا فائدہ؟ ہاں جدوجہد کے بعد بھی اگر مقصد حاصل نہ ہو تو اب اسے قضائے الٰہی کے حوالے کر دینا یہ مومن کی شان ہے اور یہ اس کے لیے باعث تسلی بھی ہے، لہذا نتیجہ ظاہر ہونے سے پہلے تدبیر سے غفلت کا نام عجز ہے، اسے تقدیر پر اعتماد کا نام نہیں دیا جا سکتا اور نتائج کے خلاف ہونے کی صورت میں اپنی تدبیر کی کمزوری کو یاد کرنا شیطانی عمل ہے اور اسے تقدیر الٰہی کے حوالے کر دینا مومن کی شان ہے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قضا و قدر اپنی جگہ پر ہے اور کسب و اختیار اپنی جگہ پر لیکن شان مومن یہ ہے کہ کامیابی ہو یا ناکامی دونوں حالتوں میں وہ اپنی بندگی اور عبودیت کو قائم رکھے اور شیطان کو در آنے (گھسنے اور داخل ہونے) کا موقع نہ دے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے معاملات کے لیے پوری جدوجہد کرے، پھر اگر نتیجہ موافق برآمد ہو تو اس پر اترائے نہیں اور اگر خلاف ہو جائے تو اس پر بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔ قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں بھی یہی سبق دیا گیا ہے: ’’تاکہ اس پر غم نہ کھاؤ جو تمہیں حاصل نہ ہو سکا اور اس پر اتراؤ نہیں جو تمہیں عطا فرمایا۔‘‘(الحدید:23/57)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو جریر نے خبر دی جو ابن حازم ہیں، انہیں ابواسحاق نے، ان سے براء بن عازب ؓ نے کہا کہ میں نے غزوہ خندق کے دن رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہمارے ساتھ مٹی اٹھا رہے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے۔ ”واللہ، اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پا سکتے۔ نہ روزہ رکھ سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے۔ پس اے اللہ! ہم پر سکینت نازل فرما۔ اور جب سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ اور مشرکین نے ہم پر زیادتی کی ہے۔ جب وہ کسی فتنہ کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' bin 'Azib (RA) : I saw the Prophet (ﷺ) on the Day of (the battle of) Al-Khandaq, carrying earth with us and saying, "By Allah, without Allah we would not have been guided, neither would we have fasted, nor would we have prayed. O Allah! Send down Sakina (calmness) upon us and make our feet firm when we meet (the enemy). The pagans have rebelled against us, but if they want to put us in affliction (i.e., fight us) we refuse (to flee)." (See Hadith No. 430, Vol. 5).