باب: یوں کہنا منع ہے کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں ( وہ ہو گا )
)
Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: One should not say: "Whatever Allah wills and whatever you will.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور کیا کوئی شخص یوں کہہ سکتا ہے کہ مجھ کو اللہ کا آسرا ہے پھر آپ کا۔
6653.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ کو یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کے تین آدمیوں کا امتحان لینے کا ارادہ کیا تو ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ وہ کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے کہا: میرے تمام اسباب و ذرائع ختم ہو چکے ہیں، میرے لیے اب اللہ کے سوا پھر تیرے علاوہ کوئی سہارا نہیں ہے۔“ پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
تشریح:
(1) بنی اسرائیل کے تین شخصوں: کوڑھ والے، گنجے اور نابینے کا واقعہ مشہور ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3464) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس دوسرے جز کے جواز یا عدم جواز کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ بیان نہیں کیا کیونکہ حدیث میں ایک فرشتے کی بات ہے جو بطور امتحان کہی گئی تھی، لہذا اس میں احتمال کی گنجائش ہے اور جس میں دوسرے پہلو کا احتمال ہو اس سے استدلال منع ہوتا ہے، البتہ امام مہلب نے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا ہے: امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ماشاءاللهثم ما شئت کہنا جائز ہے، پھر بطور دلیل مذکورہ حدیث بیان کی ہے جس میں أنا بالله ثم بك استعمال ہوا ہے، کیونکہ اس میں ''ثم'' کا استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت بندوں کی مشیت پر مقدم ہے۔ چونکہ اس سلسلے میں صریح حدیث ان کی شرائط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انہوں نے ایک صحیح حدیث سے اس کا جواز استنباط کیا جو ان کی شرط کے مطابق تھی۔ (فتح الباري: 658/11) (2) اسی طرح أعوذ بالله وبك جائز نہیں کیونکہ واؤ سے اشتراک لازم آتا ہے جبکہ أعوذ بالله ثم بك جائز ہے کیونکہ '' ثم'' سے اشتراک لازم نہیں آتا بلکہ یہ لفظ تراخی کو چاہتا ہے۔ (عمدة القاري: 702/15) (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مذکورہ حدیث درج ذیل وجوہات کی بنا پر پیش کی ہے: ٭ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ان الفاظ میں مروی ہے: ’’جب تم میں سے کوئی قسم اٹھائے تو یوں نہ کہے ماشاءالله و شئت بلکہ اس طرح کہے: ماشاءالله ثم شئت(سنن ابن ماجة، الکفارات، حدیث: 2117) ٭ أنا بالله ثم بك سے غیراللہ کی قسم کا جواز کشید کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ قسم کے علاوہ تو جائز ہے لیکن قسم اٹھاتے وقت یہ انداز صحیح نہیں کیونکہ اس کے متعلق بصراحت حکم امتناعی ہے۔ (فتح الباري: 659/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6417
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6653
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6653
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6653
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کے دو جز ہیں: پہلے جز کے متعلق قطعی حکم بیان کیا کہ ایسا نہیں کہنا چاہیے: ''جو اللہ چاہے اور جو تو چاہے'' کیونکہ واؤ عطف اشتراک کے لیے ہے اور خالق و مخلوق کو کسی ایک صفت میں جمع کرنا ادب کے خلاف ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ''تم میں سے کوئی شخص یوں نہ کہے: ماشاءالله و شاء محمد بلکہ یوں کہو: ماشاءالله ثم ما شاء محمد۔'' (مسند احمد: 5/393) اس کا مطلب یہ ہے کہ ''واؤ'' عطف کے بجائے '' ثم'' لانا جائز ہے کیونکہ '' ثم'' تراخی کو چاہتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اس کی مخلوق کی مشیت سے مقدم ہو گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم نہیں چاہ سکتے مگر جب چاہے اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے۔'' (التکویر: 81/29) دوسرے جز کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے قطعی حکم بیان نہیں کیا بلکہ توقف کیا ہے جس کی تفصیل ہم حدیث کے بعد فوائد میں بیان کریں گے۔
اور کیا کوئی شخص یوں کہہ سکتا ہے کہ مجھ کو اللہ کا آسرا ہے پھر آپ کا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ کو یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کے تین آدمیوں کا امتحان لینے کا ارادہ کیا تو ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ وہ کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے کہا: میرے تمام اسباب و ذرائع ختم ہو چکے ہیں، میرے لیے اب اللہ کے سوا پھر تیرے علاوہ کوئی سہارا نہیں ہے۔“ پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) بنی اسرائیل کے تین شخصوں: کوڑھ والے، گنجے اور نابینے کا واقعہ مشہور ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3464) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس دوسرے جز کے جواز یا عدم جواز کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ بیان نہیں کیا کیونکہ حدیث میں ایک فرشتے کی بات ہے جو بطور امتحان کہی گئی تھی، لہذا اس میں احتمال کی گنجائش ہے اور جس میں دوسرے پہلو کا احتمال ہو اس سے استدلال منع ہوتا ہے، البتہ امام مہلب نے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا ہے: امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ماشاءاللهثم ما شئت کہنا جائز ہے، پھر بطور دلیل مذکورہ حدیث بیان کی ہے جس میں أنا بالله ثم بك استعمال ہوا ہے، کیونکہ اس میں ''ثم'' کا استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت بندوں کی مشیت پر مقدم ہے۔ چونکہ اس سلسلے میں صریح حدیث ان کی شرائط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انہوں نے ایک صحیح حدیث سے اس کا جواز استنباط کیا جو ان کی شرط کے مطابق تھی۔ (فتح الباري: 658/11) (2) اسی طرح أعوذ بالله وبك جائز نہیں کیونکہ واؤ سے اشتراک لازم آتا ہے جبکہ أعوذ بالله ثم بك جائز ہے کیونکہ '' ثم'' سے اشتراک لازم نہیں آتا بلکہ یہ لفظ تراخی کو چاہتا ہے۔ (عمدة القاري: 702/15) (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مذکورہ حدیث درج ذیل وجوہات کی بنا پر پیش کی ہے: ٭ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ان الفاظ میں مروی ہے: ’’جب تم میں سے کوئی قسم اٹھائے تو یوں نہ کہے ماشاءالله و شئت بلکہ اس طرح کہے: ماشاءالله ثم شئت(سنن ابن ماجة، الکفارات، حدیث: 2117) ٭ أنا بالله ثم بك سے غیراللہ کی قسم کا جواز کشید کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ قسم کے علاوہ تو جائز ہے لیکن قسم اٹھاتے وقت یہ انداز صحیح نہیں کیونکہ اس کے متعلق بصراحت حکم امتناعی ہے۔ (فتح الباري: 659/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور عمرو بن عاصم نے کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن عبداللہ نے، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے، ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے اللہ نے ان کو آزمانا چاہا (پھر سارا قصہ بیان کیا) فرشتے کو کوڑھی کے پاس بھیجا وہ اس سے کہنے لگا میری روزی کے سارے ذریعے کٹ گئے ہیں اب اللہ ہی کا آسرا ہے پھر تیرا (یا اب اللہ ہی کی مدد درکار ہے پھر تیری) پھر پوری حدیث کو ذکر کیا۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری پہلے مطلب کے لیے کوئی حدیث نہیں لائے حالانکہ اس باب میں صریح حدیثیں وارد ہیں کیونکہ وہ ان کی شرط پر نہ ہوں گی وہ حدیث سنائی۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ کوئی یوں نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں بلکہ یوں کہے کہ جو اللہ اکیلا چاہے وہ ہوگا۔ باب کے دوسرے حصے کا مطلب حدیث کے آخری جملہ سے نکلتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah that he heard the Prophet (ﷺ) saying, "Allah decided to test three people from Bani Isra'il. So, He sent an angel who came first to the leper and said, '(I am a traveller) who has run short of all means of living, and I have nobody to help me except Allah, and then with your help.'" Abu Hurairah then mentioned the complete narration.