باب: اگر قسم کھانے کے بعد بھولے سے اس کو توڑ ڈالے تو کفارہ لازم ہو گا یا نہیں
)
Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: If someone does something against his oath due to forgetfulness)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ ”تم پر اس قسم کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جو غلطی سے تم کھا بیٹھو۔“ اور فرمایا کہ ”بھول چوک میں مجھ پر مواخذہ نہ کرو۔یہ حضرت موسیٰ ؑنے حضرت عیسیٰؑ سے کہا تھا جب کہ حضرت موسیٰ ؑ نے ان پر اعتراض کیا تھااس سے معلوم ہوا کہ بھول چوک پہلی شریعتوں پر بھی معاف تھی
6673.
حضرت براء بن عاذب ؓ سے روایت ہے کہ ان کے ہاں کچھ مہمان ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے اہل خانہ سے کہا کہ ان کے واپس آنے سے پہلے جانور ذبح کر لیں تاکہ مہمان اسے تناول کریں چنانچہ انہوں نے (عیدالاضحیٰ کی) نماز سے قبل اپنا جانور ذبح کر لیا۔ پھر نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے حکم دیا کہ نماز کے بعد دوبارہ ذبح کریں۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پینے والا ایک بکری کا بچہ ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے۔ (رسول اللہ ﷺ نے وہی ذبح کرنے کی اجازت دے دی۔)۔ راوی حدیث کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں ہوسکا کہ مذکورہ رخصت دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے یا صرف ان (حضرت براء بن عاذب ؓ) کے لیے تھی۔ اس روایت کو ایوب نے ابن سیرین سے انہوں نے حضرت انس سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے ذکر کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6436
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6673
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6673
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6673
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھول کر قسم توڑنے والے کے متعلق کوئی حکم بیان نہیں کیا لیکن پیش کردہ آیات و احادیث سے ان کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھول اور غلطی کے عذر کی وجہ سے اس قسم کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ اس میں کوئی کفارہ نہیں ہے۔ اس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰ
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ ”تم پر اس قسم کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جو غلطی سے تم کھا بیٹھو۔“ اور فرمایا کہ ”بھول چوک میں مجھ پر مواخذہ نہ کرو۔یہ حضرت موسیٰ ؑنے حضرت عیسیٰؑ سے کہا تھا جب کہ حضرت موسیٰ ؑ نے ان پر اعتراض کیا تھااس سے معلوم ہوا کہ بھول چوک پہلی شریعتوں پر بھی معاف تھی
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عاذب ؓ سے روایت ہے کہ ان کے ہاں کچھ مہمان ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے اہل خانہ سے کہا کہ ان کے واپس آنے سے پہلے جانور ذبح کر لیں تاکہ مہمان اسے تناول کریں چنانچہ انہوں نے (عیدالاضحیٰ کی) نماز سے قبل اپنا جانور ذبح کر لیا۔ پھر نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے حکم دیا کہ نماز کے بعد دوبارہ ذبح کریں۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پینے والا ایک بکری کا بچہ ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے۔ (رسول اللہ ﷺ نے وہی ذبح کرنے کی اجازت دے دی۔)۔ راوی حدیث کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں ہوسکا کہ مذکورہ رخصت دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے یا صرف ان (حضرت براء بن عاذب ؓ) کے لیے تھی۔ اس روایت کو ایوب نے ابن سیرین سے انہوں نے حضرت انس سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے ذکر کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو تم بھول کر کرو۔“نیز فرمایا: ”بھول چوک پر میرا مؤاخذہ نہ کرو۔“
فائدہ: امام بخارینے بھول کر قسم توڑنے والے کے متعلق کوئی حکم بیان نہیں کیا لیکن پیش کردہ آیات واحادیث سے ان کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھول اور غلطی کی وجہ سے اس قسم کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ اس میں کوئی کفارہ نہیں۔
حدیث ترجمہ:
ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا کہ محمد بن بشار نے مجھے لکھا کہ ہم سے معاذ بن معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے شعبی نے بیان کیا، کہ براء بن عازب ؓ نے بیان کیا، ان کے یہاں کچھ ان کے مہمان ٹھہرے ہوئے تھے تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ ان کے واپس آنے سے پہلے جانور ذبح کر لیں تاکہ ان کے مہمان کھائیں، چنانچہ انہوں نے نماز عید الاضحی سے پہلے جانور ذبح کر لیا۔ پھر نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ نماز کے بعد دوبارہ ذبح کریں۔ براء ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے پاس ایک سال سے زیادہ دودھ والی بکری ہے جو دو بکریوں کے گوشت سے بڑھ کر ہے۔ ابن عوف شعبی کی حدیث کے اس مقام پر ٹھہر جاتے تھے اور محمد بن سیرین سے اسی حدیث کی طرح حدیث بیان کرتے تھے اور اس مقام پر رک کر کہتے تھے کہ مجھے معلوم نہیں، یہ رخصت دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے یا صرف براء ؓ کے لیے ہی تھی۔ اس کی روایت ایوب نے ابن سیرین سے کی ہے، ان سے انس ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔
حدیث حاشیہ:
سعید بن جبیر نےحضرت ابن عباس ؓ کےسامنے نوف بکالی کا قول نقل کیا تھا کہ وہ خضر والے موسیٰ کواسرائیلی موسیٰ نہیں بلکہ اور کوئی دوسرا موسیٰ کہتےہیں۔ اس پر حضرت ابن عباس نے نوف بکالی کے قول کی تردید کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب کی یہ روایت نقل کر کے بتلایا کہ وہ موسیٰ اسرائیلی ہی تھے، جن کا اس شرط کا خیال نہیں رہا تھا کہ وہ خضر سےکرچکے تھے اس پرلفظ لاتؤاخذني الخ انہوں نے کہے۔ وجہ مناسبت وہی ہے کہ سہو اور نسیان کوحضرت موسیٰ نےمؤاخذہ کے قابل نہیں سمجھا حضرت خضرنے بھی اس نسیان کو معاف ہی کر دیا تھا۔ حضرت انس بن مالک خزرجی خادم دس سال کی عمر میں خدمت نبوی میں آئے اور آخر تک خاص خدمات کا شرف حاصل ہوا۔ عہد فاروقی میں بصرہ میں مبلغ اسلام کی حیثیت سےمقیم ہوئے اور 91ھ میں بعمر 103 سال بصرہ ہی میں انتقال ہوا۔ مرتے وقت سو کے قریب اولاد چھوڑ کر گئے ان کی ماں کا نام ام سلیم بنت ملحان ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) that he heard the Prophet (ﷺ) saying, "Allah decided to test three people from Bani Isra'il. So, He sent an angel who came first to the leper and said, '(I am a traveller) who has run short of all means of living, and I have nobody to help me except Allah, and then with your help.'" Abu Hurairah (RA) then mentioned the complete narration.