باب: جب کوئی شخص اپنا مال نذر یا توبہ کے طور پر خیرات کر دے
)
Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: If a person gives his property in charity because of a vow and as an expiation for sins)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6690.
عبد الرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے (وہ اپنے باپ عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں)۔ اور جب حضرت کعب بن مالک ؓ نا بینا ہوگئے تھے تو ان کی اولاد میں سے یہی (عبداللہ بن کعب) ان کو لے کر چلا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک ؓ سے ان کی حدیث سنی جو ان حضرات سے متعلق تھی جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنی سرگزشت کے آخر میں کہا: میں نے یہ پیش کش كى کہ اپنی توبہ کی خوشی میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے لیے صدقہ کر کے اس سے خالی ہونا چاہتا ہوں نبی ﷺ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے پاس ہی رکھو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔“
تشریح:
(1) ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے توبہ قبول ہونے کی خوشی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ پھر انہوں نے نصف مال دینے کی اجازت مانگی تو بھی آپ نے انکار کر دیا۔ آخر میں ایک تہائی مال دینے کے متعلق کہا تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ اس کے بعد حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں اپنا خیبر سے ملنے والا حصہ روک لیتا ہوں، چنانچہ انہوں نے خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ کر باقی تمام مال صدقہ کر دیا۔ (سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3321) اس تفصیل کی بنا پر ہمارا موقف ہے کہ اگر کسی نے نذر مانی کہ میرے مریض کو شفا ملنے پر میرا تمام مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال دینے کی اجازت ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک دوسرا موقف بیان کیا ہے کہ تمام مال صدقہ کرنا انسان کے اپنے حالات پر موقوف ہے، اگر مال دار صابر و شاکر ہے تو اسے تمام مال صدقہ کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے اور جیسا کہ انصار کے ایثار کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔ اگر وہ غریب ہے تو سارا مال صدقہ کرنے کی اجازت نہیں جیسا کہ حدیث میں بہترین صدقہ اسے قرار دیا گیا ہے کہ اس کے بعد انسان کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو جائے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 699/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6452
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6690
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6690
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6690
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
كتاب الأيمان والنذور میں یہ پہلا عنوان نذر کے متعلق ہے۔ لغوی طور پر اچھی یا بری چیز کو اپنے ذمے لینے کو نذر کہتے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں کسی غیر واجب کو خود پر واجب کر لینا نذر کہلاتا ہے۔ عمومی اعتبار سے اس کی دو قسمیں ہیں: ٭ مُنَجز: اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنے ذمے کوئی کام لے لینا، مثلاً: میں اللہ تعالیٰ کے لیے روزہ رکھنے کی نذر مانتا ہوں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ میں اس بیماری سے شفا کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے لیے نفل ادا کرنے کی نذر مانتا ہوں۔ ٭ معلق: کسی چیز سے مشروط کرتے ہوئے کوئی نذر ماننا، مثلاً: اگر میری گمشدہ چیز مل گئی تو میں ہزار روپے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کی نذر مانتا ہوں۔ ان دونوں قسم کی نذر کا حکم یہ ہے کہ انسان کے لیے ان کا ادا کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ عنوان کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سارے مال کی نذر مان لے تو کیا اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے لیے درج ذیل حدیث کا حوالہ دیا ہے۔
عبد الرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے (وہ اپنے باپ عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں)۔ اور جب حضرت کعب بن مالک ؓ نا بینا ہوگئے تھے تو ان کی اولاد میں سے یہی (عبداللہ بن کعب) ان کو لے کر چلا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک ؓ سے ان کی حدیث سنی جو ان حضرات سے متعلق تھی جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنی سرگزشت کے آخر میں کہا: میں نے یہ پیش کش كى کہ اپنی توبہ کی خوشی میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے لیے صدقہ کر کے اس سے خالی ہونا چاہتا ہوں نبی ﷺ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے پاس ہی رکھو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے توبہ قبول ہونے کی خوشی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ پھر انہوں نے نصف مال دینے کی اجازت مانگی تو بھی آپ نے انکار کر دیا۔ آخر میں ایک تہائی مال دینے کے متعلق کہا تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ اس کے بعد حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں اپنا خیبر سے ملنے والا حصہ روک لیتا ہوں، چنانچہ انہوں نے خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ کر باقی تمام مال صدقہ کر دیا۔ (سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3321) اس تفصیل کی بنا پر ہمارا موقف ہے کہ اگر کسی نے نذر مانی کہ میرے مریض کو شفا ملنے پر میرا تمام مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال دینے کی اجازت ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک دوسرا موقف بیان کیا ہے کہ تمام مال صدقہ کرنا انسان کے اپنے حالات پر موقوف ہے، اگر مال دار صابر و شاکر ہے تو اسے تمام مال صدقہ کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے اور جیسا کہ انصار کے ایثار کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔ اگر وہ غریب ہے تو سارا مال صدقہ کرنے کی اجازت نہیں جیسا کہ حدیث میں بہترین صدقہ اسے قرار دیا گیا ہے کہ اس کے بعد انسان کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو جائے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 699/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا مجھ کو یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، کہا مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی، جب کعب ؓ نابینا ہو گئے تھے تو ان کی اولاد میں ایک یہی کہیں آنے جانے میں ان کے ساتھ رہتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک ؓ سے ان کے واقعہ اور آیت ﴿وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا﴾ کے سلسلہ میں سنا، انہوں نے اپنی حدیث کے آخر میں کہا کہ (میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے یہ پیش کش کی کہ) اپنی توبہ کی خوشی میں میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کے دین کی خدمت میں صدقہ کر دوں۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اپنا کچھ مال اپنے پاس ہی رکھو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔
حدیث حاشیہ:
آیت شریفہ ﴿وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا﴾ الخ ( التوبة: 117) میں ان تینوں صحابیوں کا ذکر ہے جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے اور رسول کریم ﷺ نے ان سے سخت باز پرس کی تھی وہ تین حضرت کعب بن مالک اور ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیعہ ہیں۔ پچھلے دو نےتو معذرت وغیرہ کر کے چھٹکارا حاصل کر لیا تھا مگر حضرت کعب بن مالک نے اپنے قصور کا اعتراف کیا اور کوئی معذرت کرنا مناسب نہ جانا۔ آخر رسول کریم ﷺ نے وحی الہی کےانتظار میں ان سے بولنا وغیرہ بند کر دیا آخر بہت کافی دنوں بعد ان کی توبہ کی قبولیت کی بشارت ملی اور ان کو مبارک باد دی گئی۔ انصاری خزرجی ہیں دوسری بیعت عقبہ میں یہ شریک تھے۔77سال کی عمر پا کر 50ھ میں جب کہ بصارت چلی گئی تھی ان کا انتقال ہوا۔ رضي اللہ عنه أرضاہ (آمین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ka'b bin Malik (RA) : In the last part of his narration about the three who remained behind (from the battle of Tabuk). (I said) "As a proof of my true repentance (for not joining the Holy battle of Tabuk), I shall give up all my property for the sake of Allah and His Apostle (ﷺ) (as an expiation for that sin)." The Prophet (ﷺ) said (to me), "Keep some of your wealth, for that is better for you."