باب : مدینہ منورہ کا صاع( ایک پیمانہ) اورنبی کریم ﷺکا مد( ایک پیمانہ) اور اس میں برکت، اور بعدمیں بھی اہل مدینہ کو نسلاً بعد نسل جو صاع اور مد ورثہ میں ملا اس کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: The Sa' of Al-Madina, and the Mudd of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6714.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بایں الفاظ میں دعا فرمائی: ”اے اللہ! ان کے پیمانے ان کے صاع اور ان کے مد میں برکت عطا فرما۔“
تشریح:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: اللہ کے رسول! ہمارا صاع دوسرے صاعوں اور ہمارا مد دیگر مدوں میں سب سے چھوٹا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہمارے صاع میں برکت کر دے اور ہمارے قلیل و کثیر میں برکت ڈال دے، یعنی دوگنی برکت عطا فرما۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیھقی: 171/4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شارح بخاری ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ مذکورہ دعا اس مد کے لیے خاص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں وہاں رائج تھا کیونکہ اس کے بعد اہل مدینہ کے اوزان میں بہت تبدیلی آئی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہوا کہ مختلف کفاروں کی ادائیگی میں اکثر فقہاء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد اور صاع کو معیاری قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 729/11) (2) اس روایت میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ کہنا کہ ہمارا صاع تمام صاعوں سے چھوٹا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی انکار نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی اہل مدینہ کا صاع تمام رائج الوقت صاعوں سے چھوٹا تھا اور اب تک جو صاع کی مقدار میں اختلاف سامنے آیا ہے وہ حجازیوں اور عراقیوں کا اختلاف ہے۔ اہل حجاز کا دعویٰ ہے کہ صاع 51/3 رطل کا ہے جبکہ اہل عراق کا کہنا ہے کہ صاع آٹھ رطل کا ہے۔ درج بالا روایت سے ثابت ہوا کہ صاع نبوی آٹھ رطل کا نہیں بلکہ 51/3 رطل کا تھا کیونکہ یہی صاع چھوٹا ہے۔ واللہ أعلم۔ تتمہ: گزشتہ بحث میں تین پیمانوں کا اکثر ذکر ہوا ہے: رطل، مد اور صاع۔ ہم ان کے متعلق اپنی گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں: ٭ رطل: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے برتن سے وضو کرتے تھے جس میں دو رطل پانی کی گنجائش ہوتی تھی اور ایک صاع پانی سے غسل کر لیتے تھے۔ (سنن أبي داود، الوضوء، حدیث: 95) رطل کے متعلق علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بغدادی رطل کی مقدار کے متعلق مختلف اقوال ہیں، ان میں واضح اور مناسب قول یہ ہے کہ رطل 1284/7درہم کا ہوتا ہے۔ (شرح صحیح مسلم: 315/1) ہماری تحقیق کے مطابق برصغیر میں رائج قدیمی اوزان کے مطابق ایک رطل کا وزن چھ چھٹانک، تین تولے اور نو ماشے ہے اور اعشاری اوزان کے مطابق 393.660 گرام ہے۔ تفصیل حسب ذیل ہے۔ پہلے درہم کے حساب سے رطل کے وزن کا اندازہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں علماء کا اتفاق ہے کہ زکاۃ میں چاندی کا نصاب 521/2 تولہ ہے جو حدیث میں دو سو درہم کی تعیین ہے۔ جب 521/2 کو 200 پر تقسیم کیا جائے گا تو جواب 21/80 تولے آتا ہے جو ایک درہم کا وزن ہے۔ جب 21/80 کو 124/7 سے ضرب دیں تو جواب میں ایک رطل کا ہندی قدیمی وزن چھ چھٹانک تین تولے اور نو ماشے آئے گا، اعشارى نظام میں ایک تولہ 11.664 گرام کے برابر ہے، لہذا ایک رطل کا اعشاری وزن 393.660 گرام ہے۔ ٭ مد: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع سے پانچ مد پانی تک غسل کر لیا کرتے تھے اور ایک مد پانی سے وضو فرما لیتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 201) مد کے وزن میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، چنانچہ مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عینی لکھتے ہیں کہ احناف کے نزدیک مد میں دو رطل اور امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں ایک مد 11/3 رطل کا ہے۔ (عمدة القاري: 94/3) اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل حجاز کا مد 11/3 رطل کا ہے جبکہ اہل عراق کے ہاں اس کا وزن دو رطل ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی حجاز، یعنی مکے اور مدینے میں گزاری۔ یہی علاقہ دین اسلام کا سرچشمہ اور وحی کا مرکز رہا، اس کے علاوہ زکاۃ، فطرانہ اور کفارات کی ادائیگی کے احکام یہیں سے صادر ہوئے، لہذا احکام میں وہی وزن معتبر ہو گا جو مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں رہنے والوں کے ہاں رائج تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ماپ اہل مدینہ کا اور وزن اہل مکہ کا معتبر ہے۔‘‘ (سنن النسائي، الزکاة، حدیث: 2521) اس حدیث کی روشنی میں ہم کہتے ہیں کہ ایک حجازی مد کا وزن 11/3 رطل ہے کیونکہ اہل حجاز میں یہی رائج تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن احمد کہتے ہیں کہ میرے والد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد کا وزن گندم کے ساتھ کیا تو ایک رطل اور تہائی رطل، یعنی 11/3 رطل تھا۔ (محلی ابن حزم 245/5) مد نبوی کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بشر بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے کہا: مجھے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مد دیجیے۔ انہوں نے ایک نوجوان کے ذریعے سے مد منگوایا۔ وہ نوجوان مد لے کر آیا اور مجھے دے دیا۔ میں نے وہ مد حضرت امام مالک رحمہ اللہ کو دکھایا اور پوچھا کیا یہی مد نبوی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، یہی مد نبوی ہے۔ خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور تو نہیں پایا، البتہ ہم اسی مد سے مد نبوی کی تعیین کرتے ہیں۔ میں نے کہا: عشر، صدقات اور کفارات اسی مد کے حساب سے ادا کیے جائیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، ہم اہل مدینہ اسی سے ادا کرتے ہیں۔ میں نے پھر کہا: اگر کوئی صدقۂ فطر اور قسم کا کفارہ اس بڑے مد سے ادا کرنا چاہتے تو کیا درست ہو گا؟ امام صاحب نے فرمایا: ہرگز نہیں، اسے چاہیے کہ وہ اسی مد سے ادا کرے۔ اس کے بعد جو نفلی طور پر ادا کرنا چاہتا ہے، ادا کر دے۔ (سنن الدارقطني: 151/2) سابقہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ حجازی مد 11/3 رطل کے برابر تھا۔ ایک رطل کا وزن 6 چھٹانک 3 تولے اور 9 ماشے ہے، جب اس میں 1/3 رطل کا اضافہ کیا تو مد کا وزن مکمل نو چھٹانک ہوا۔ اس مد حجازی کا اعشارى وزن 524.880 گرام کے مساوی ہے۔ ہمارے اس موقف کی تائید اس مد سے بھی ہوتی ہے جو مولانا احمد اللہ مرحوم دہلوی مدینہ طیبہ سے لائے تھے جس کی باقاعدہ سند تھی، اس کی مقدار بھی نو چھٹانک تھی، نیز مولانا عبدالجبار مرحوم کے پاس بھی ایک صاحب مد لائے تھے اس کی مقدار بھی اتنی ہی تھی۔ ٭ صاع: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع صدقۂ فطر مقرر کیا تھا جو کھجور اور جو سے ادا کیا جاتا۔ یہ ہر مسلمان: آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت پر فرض تھا۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1504) مسلمانوں میں اس صاع کی متعدد اقسام رائج تھیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ صاع حجازی: اسے صاع نبوی بھی کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی صاع کے مطابق صدقۂ فطر وغیرہ ادا کرتے تھے۔ یہی صاع مکے اور مدینے اور ان کے گردونواح میں رائج تھا۔ اس وقت تمام لوگ اسی حساب سے صدقۂ فطر اور کفارہ وغیرہ ادا کرتے تھے۔ اس کی مقدار 51/3 رطل تھی جس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔ ٭ صاع عراقی: اسے صاع بغدادی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بلاد عراق، یعنی کوفہ اور بغداد وغیرہ میں رائج تھا۔ چونکہ اسے حجاج بن یوسف نے رواج دیا تھا، اس لیے اسے صاع حجاجی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی مقدار 8 رطل تھی۔ یہ صاع حجازی سے ایک تہائی بڑا تھا۔ ٭ صاع عمر بن عبدالعزیز: حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں صاع نبوی میں دوبارہ اضافہ کر کے اسے رائج کیا گیا۔ اس کے مد کی مقدار چار رطل اور صاع کی مقدار سولہ رطل تھی۔ اس کی تفصیل حدیث: 6712 کے فوائد میں بیان کی گئی ہے۔ ٭ صاع ہاشمی: پھر ایک وقت آیا کہ کچھ لوگوں نے صاع کی مذکورہ مقدار کو بھی قائم نہ رہنے دیا بلکہ اسے مزید دوگنا کر دیا گیا جو صاع ہاشمی کہلایا۔ اس میں مد کی مقدار آٹھ رطل اور صاع کی مقدار بتیس رطل ہو گئی۔ (ھدایة، باب صدقة الفطر) اگرچہ مختلف زمانوں میں صاع اور مد کی مقدار میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، تاہم شرعی طور پر وہی مد اور صاع قابل عمل اور معتبر ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جاری و ساری تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی کسی دوسرے مد یا صاع کو کوئی اہمیت نہ دی۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبوی صاع اور نبوی مد کے حساب سے شرعی احکام کی بجا آوری کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل حدیث: 6713 میں بیان ہوا ہے، نیز امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سنا، وہ فرماتے تھے: ابن ابی ذئب کا صاع 51/3 رطل تھا۔ میں نے ان سے آٹھ رطل کے متعلق دریافت کیا تو فرمانے لگے کہ آٹھ رطل کا صاع محفوظ نہیں ہے، نیز امام موصوف فرمایا کرتے تھے کہ جس نے 51/3 رطل صدقہ دیا تو اس نے پورا صدقۂ فطر ادا کر دیا۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 238) امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاع 51/3 رطل کا تھا جبکہ اہل کوفہ کے ہاں صاع کی مقدار آٹھ رطل تھی۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 627) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جسے فرق کہا جاتا تھا۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 250) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فرق تین صاع کا ہوتا ہے۔ اس کی دلیل ابن حبان کی وہ روایت ہے جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم چھ اقساط کی مقدار میں پانی استعمال کرتے تھے، پھر لکھتے ہیں کہ اہل لغت کا اتفاق ہے کہ قسط نصف صاع کا ہوتا ہے اور اس امر میں بھی اختلاف نہیں کہ فرق میں سولہ رطل ہوتے ہیں، لہذا ایک صاع 51/3 رطل کا درست ثابت ہوا۔ (فتح الباري: 442/1)٭ صاع حجازی کا وزن: ہمارے ہاں صاع حجازی کے ہندی وزن کی تعیین میں اختلاف ہے۔ عام طور پر تین موقف مشہور ہیں: ٭ دو سیر چار چھٹانک۔ ٭ دو سیر دس چھٹانک، تین تولے اور چار ماشے۔ ٭ اڑھائی سیر۔ ہمارے نزدیک پہلا موقف زیادہ قرین قیاس، صحیح اور معتبر ہے، اسے ہم بیان کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ مد اور صاع کی تعیین میں درہم اور دینار اصل ہیں۔ ان دونوں کا وزن بھی عہد قدیم سے ائمۂ کرام اور محدثین عظام رحمہم اللہ نے بیان کر دیا ہے، لہذا درہم و دینار کے وزن سے مد اور صاع کا وزن طے کرتے ہیں۔ ٭ پہلا طریقہ بذریعۂ مثقال (دینار) : محدثین کی تصریح کے مطابق ایک رطل، نوے مثقال کا ہے اور حجازی صاع 51/3 رطل ہے، اس لیے نوے کو جب 51/3 رطل سے ضرب دیں تو 480 مثقال، حجازی صاع کا وزن آتا ہے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ ایک مثقال تقریبا 41/2 ماشے کا ہے۔ جب 480 مثقال کو 41/2 ماشے سے ضرب دیں تو صاع حجازی کا وزن اکیس سو ساٹھ (2160) ماشے آتا ہے۔ چونکہ بارہ ماشے کا ایک تولہ ہے، اس لیے 2160/12=180 تولے ہوئے۔ پانچ تولے کی ایک چھٹانک ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے کل چھتیس (36) چھٹانک حجازی صاع کا وزن آتا ہے جو دو سیر چار چھٹانک کے برابر ہے۔ ٭ دوسرا طریقہ بذریعۂ درہم: سابقہ تحقیق کے مطابق ایک رطل 1284/7 درہم کا ہے، گویا صاع حجازی =4800/7 51/3×1284/7درہم کے برابر ہے۔ ایک درہم کا وزن تین ماشے اور 11/5 رتی ہے۔ آٹھ رتی کا ایک ماشہ ہوتا ہے=126/5 8×11/5 رتی کا ایک درہم ہوا، اس اعتبار سے 4800/7 درہم کے دو ہزار ایک سو ساٹھ (2160) ماشے ہوئے۔ جب ان ماشوں کو سیر اور چھٹانک میں ڈھالا گیا تو وہی دو سیر چار چھٹانک صاع حجازی کا وزن آتا ہے۔ ٭ تیسرا طریقہ بذریعۂ مد: ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے اور مد حجازی 1/31 رطل کا ہے۔ رطل میں 4/7128 درہم ہوتے ہیں تو اس اعتبار سے ایک مد کے 11/3×1284/7=1571/7 درہم ہوئے۔ چونکہ ایک صاع حجازی میں چار مد ہوتے ہیں، اس لیے صاع حجازی کے=6855/7 4×1571/7 درہم ہوئے۔ حسب سابق ایک درہم کا وزن 126/5 رتی ہے، اس اعتبار سے 6855/7 درہم کے اکیس سو ساٹھ ماشے بنتے ہیں۔ جب اس کے تولے، چھٹانک اور سیر بنائے گئے تو وہی وزن دو سیر چار چھٹانک بنتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ الغرض صاع حجازی کو ہندی اوزان میں منتقل کرنے کے تین طریقے جو پہلے بیان ہوئے ہیں ان کے مطابق اس کا وزن 180 تولے ہے، ان کا وزن 36 چھٹانک بنتا ہے اور پھر اس کا وزن دو سیر چار چھٹانک بنتا ہے۔ جب اس وزن کو اعشاری اوزان کے مطابق کریں تو دو کلو اور سو گرام (2100 گرام) بنتا ہے۔ ہم اس مقام پر یہ وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ مد اور صاع وزن کے نہیں بلکہ ماپ کے پیمانے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وزن کے پیمانے بھی موجود تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر اور قسم کا کفارہ دینے کے لیے وزن کے بجائے ماپ کو منتخب کیا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اس سنت کو زندہ کیا جائے۔ ویسے بھی مد اور صاع کا وزن مختلف اجناس کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے، لہذا وزن کے بجائے ماپ کو ترجیح دی جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6476
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6714
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6714
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6714
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
تمہید باب
اس عنوان کے دو جز ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ مدینہ طیبہ کے صاع اور مد، نیز ان کی برکت کا بیان، اس میں اشارہ ہے کہ واجبات کی ادائیگی کے لیے اہل مدینہ کا صاع ضروری ہے کیونکہ پہلے اس کے ساتھ ادائیگی ہوتی تھی۔ ٭ ایک زمانے تک بطور وراثت یہی پیمانہ جاری رہا اور اس میں کوئی تبدیلی نہ آئی اگرچہ بعض حکمرانوں نے اس میں اضافہ کیا لیکن پذیرائی نہ ملی۔ اس عنوان کی مناسبت یہ ہے کہ قسم کے کفارے میں اہل مدینہ کا پیمانہ ہی معتبر ہو گا، جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بایں الفاظ میں دعا فرمائی: ”اے اللہ! ان کے پیمانے ان کے صاع اور ان کے مد میں برکت عطا فرما۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: اللہ کے رسول! ہمارا صاع دوسرے صاعوں اور ہمارا مد دیگر مدوں میں سب سے چھوٹا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہمارے صاع میں برکت کر دے اور ہمارے قلیل و کثیر میں برکت ڈال دے، یعنی دوگنی برکت عطا فرما۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیھقی: 171/4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شارح بخاری ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ مذکورہ دعا اس مد کے لیے خاص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں وہاں رائج تھا کیونکہ اس کے بعد اہل مدینہ کے اوزان میں بہت تبدیلی آئی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہوا کہ مختلف کفاروں کی ادائیگی میں اکثر فقہاء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد اور صاع کو معیاری قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 729/11) (2) اس روایت میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ کہنا کہ ہمارا صاع تمام صاعوں سے چھوٹا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی انکار نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی اہل مدینہ کا صاع تمام رائج الوقت صاعوں سے چھوٹا تھا اور اب تک جو صاع کی مقدار میں اختلاف سامنے آیا ہے وہ حجازیوں اور عراقیوں کا اختلاف ہے۔ اہل حجاز کا دعویٰ ہے کہ صاع 51/3 رطل کا ہے جبکہ اہل عراق کا کہنا ہے کہ صاع آٹھ رطل کا ہے۔ درج بالا روایت سے ثابت ہوا کہ صاع نبوی آٹھ رطل کا نہیں بلکہ 51/3 رطل کا تھا کیونکہ یہی صاع چھوٹا ہے۔ واللہ أعلم۔ تتمہ: گزشتہ بحث میں تین پیمانوں کا اکثر ذکر ہوا ہے: رطل، مد اور صاع۔ ہم ان کے متعلق اپنی گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں: ٭ رطل: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے برتن سے وضو کرتے تھے جس میں دو رطل پانی کی گنجائش ہوتی تھی اور ایک صاع پانی سے غسل کر لیتے تھے۔ (سنن أبي داود، الوضوء، حدیث: 95) رطل کے متعلق علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بغدادی رطل کی مقدار کے متعلق مختلف اقوال ہیں، ان میں واضح اور مناسب قول یہ ہے کہ رطل 1284/7درہم کا ہوتا ہے۔ (شرح صحیح مسلم: 315/1) ہماری تحقیق کے مطابق برصغیر میں رائج قدیمی اوزان کے مطابق ایک رطل کا وزن چھ چھٹانک، تین تولے اور نو ماشے ہے اور اعشاری اوزان کے مطابق 393.660 گرام ہے۔ تفصیل حسب ذیل ہے۔ پہلے درہم کے حساب سے رطل کے وزن کا اندازہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں علماء کا اتفاق ہے کہ زکاۃ میں چاندی کا نصاب 521/2 تولہ ہے جو حدیث میں دو سو درہم کی تعیین ہے۔ جب 521/2 کو 200 پر تقسیم کیا جائے گا تو جواب 21/80 تولے آتا ہے جو ایک درہم کا وزن ہے۔ جب 21/80 کو 124/7 سے ضرب دیں تو جواب میں ایک رطل کا ہندی قدیمی وزن چھ چھٹانک تین تولے اور نو ماشے آئے گا، اعشارى نظام میں ایک تولہ 11.664 گرام کے برابر ہے، لہذا ایک رطل کا اعشاری وزن 393.660 گرام ہے۔ ٭ مد: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع سے پانچ مد پانی تک غسل کر لیا کرتے تھے اور ایک مد پانی سے وضو فرما لیتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 201) مد کے وزن میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، چنانچہ مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عینی لکھتے ہیں کہ احناف کے نزدیک مد میں دو رطل اور امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں ایک مد 11/3 رطل کا ہے۔ (عمدة القاري: 94/3) اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل حجاز کا مد 11/3 رطل کا ہے جبکہ اہل عراق کے ہاں اس کا وزن دو رطل ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی حجاز، یعنی مکے اور مدینے میں گزاری۔ یہی علاقہ دین اسلام کا سرچشمہ اور وحی کا مرکز رہا، اس کے علاوہ زکاۃ، فطرانہ اور کفارات کی ادائیگی کے احکام یہیں سے صادر ہوئے، لہذا احکام میں وہی وزن معتبر ہو گا جو مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں رہنے والوں کے ہاں رائج تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ماپ اہل مدینہ کا اور وزن اہل مکہ کا معتبر ہے۔‘‘ (سنن النسائي، الزکاة، حدیث: 2521) اس حدیث کی روشنی میں ہم کہتے ہیں کہ ایک حجازی مد کا وزن 11/3 رطل ہے کیونکہ اہل حجاز میں یہی رائج تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن احمد کہتے ہیں کہ میرے والد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد کا وزن گندم کے ساتھ کیا تو ایک رطل اور تہائی رطل، یعنی 11/3 رطل تھا۔ (محلی ابن حزم 245/5) مد نبوی کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بشر بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے کہا: مجھے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مد دیجیے۔ انہوں نے ایک نوجوان کے ذریعے سے مد منگوایا۔ وہ نوجوان مد لے کر آیا اور مجھے دے دیا۔ میں نے وہ مد حضرت امام مالک رحمہ اللہ کو دکھایا اور پوچھا کیا یہی مد نبوی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، یہی مد نبوی ہے۔ خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور تو نہیں پایا، البتہ ہم اسی مد سے مد نبوی کی تعیین کرتے ہیں۔ میں نے کہا: عشر، صدقات اور کفارات اسی مد کے حساب سے ادا کیے جائیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، ہم اہل مدینہ اسی سے ادا کرتے ہیں۔ میں نے پھر کہا: اگر کوئی صدقۂ فطر اور قسم کا کفارہ اس بڑے مد سے ادا کرنا چاہتے تو کیا درست ہو گا؟ امام صاحب نے فرمایا: ہرگز نہیں، اسے چاہیے کہ وہ اسی مد سے ادا کرے۔ اس کے بعد جو نفلی طور پر ادا کرنا چاہتا ہے، ادا کر دے۔ (سنن الدارقطني: 151/2) سابقہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ حجازی مد 11/3 رطل کے برابر تھا۔ ایک رطل کا وزن 6 چھٹانک 3 تولے اور 9 ماشے ہے، جب اس میں 1/3 رطل کا اضافہ کیا تو مد کا وزن مکمل نو چھٹانک ہوا۔ اس مد حجازی کا اعشارى وزن 524.880 گرام کے مساوی ہے۔ ہمارے اس موقف کی تائید اس مد سے بھی ہوتی ہے جو مولانا احمد اللہ مرحوم دہلوی مدینہ طیبہ سے لائے تھے جس کی باقاعدہ سند تھی، اس کی مقدار بھی نو چھٹانک تھی، نیز مولانا عبدالجبار مرحوم کے پاس بھی ایک صاحب مد لائے تھے اس کی مقدار بھی اتنی ہی تھی۔ ٭ صاع: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع صدقۂ فطر مقرر کیا تھا جو کھجور اور جو سے ادا کیا جاتا۔ یہ ہر مسلمان: آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت پر فرض تھا۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1504) مسلمانوں میں اس صاع کی متعدد اقسام رائج تھیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ صاع حجازی: اسے صاع نبوی بھی کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی صاع کے مطابق صدقۂ فطر وغیرہ ادا کرتے تھے۔ یہی صاع مکے اور مدینے اور ان کے گردونواح میں رائج تھا۔ اس وقت تمام لوگ اسی حساب سے صدقۂ فطر اور کفارہ وغیرہ ادا کرتے تھے۔ اس کی مقدار 51/3 رطل تھی جس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔ ٭ صاع عراقی: اسے صاع بغدادی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بلاد عراق، یعنی کوفہ اور بغداد وغیرہ میں رائج تھا۔ چونکہ اسے حجاج بن یوسف نے رواج دیا تھا، اس لیے اسے صاع حجاجی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی مقدار 8 رطل تھی۔ یہ صاع حجازی سے ایک تہائی بڑا تھا۔ ٭ صاع عمر بن عبدالعزیز: حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں صاع نبوی میں دوبارہ اضافہ کر کے اسے رائج کیا گیا۔ اس کے مد کی مقدار چار رطل اور صاع کی مقدار سولہ رطل تھی۔ اس کی تفصیل حدیث: 6712 کے فوائد میں بیان کی گئی ہے۔ ٭ صاع ہاشمی: پھر ایک وقت آیا کہ کچھ لوگوں نے صاع کی مذکورہ مقدار کو بھی قائم نہ رہنے دیا بلکہ اسے مزید دوگنا کر دیا گیا جو صاع ہاشمی کہلایا۔ اس میں مد کی مقدار آٹھ رطل اور صاع کی مقدار بتیس رطل ہو گئی۔ (ھدایة، باب صدقة الفطر) اگرچہ مختلف زمانوں میں صاع اور مد کی مقدار میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، تاہم شرعی طور پر وہی مد اور صاع قابل عمل اور معتبر ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جاری و ساری تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی کسی دوسرے مد یا صاع کو کوئی اہمیت نہ دی۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبوی صاع اور نبوی مد کے حساب سے شرعی احکام کی بجا آوری کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل حدیث: 6713 میں بیان ہوا ہے، نیز امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سنا، وہ فرماتے تھے: ابن ابی ذئب کا صاع 51/3 رطل تھا۔ میں نے ان سے آٹھ رطل کے متعلق دریافت کیا تو فرمانے لگے کہ آٹھ رطل کا صاع محفوظ نہیں ہے، نیز امام موصوف فرمایا کرتے تھے کہ جس نے 51/3 رطل صدقہ دیا تو اس نے پورا صدقۂ فطر ادا کر دیا۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 238) امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاع 51/3 رطل کا تھا جبکہ اہل کوفہ کے ہاں صاع کی مقدار آٹھ رطل تھی۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 627) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جسے فرق کہا جاتا تھا۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 250) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فرق تین صاع کا ہوتا ہے۔ اس کی دلیل ابن حبان کی وہ روایت ہے جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم چھ اقساط کی مقدار میں پانی استعمال کرتے تھے، پھر لکھتے ہیں کہ اہل لغت کا اتفاق ہے کہ قسط نصف صاع کا ہوتا ہے اور اس امر میں بھی اختلاف نہیں کہ فرق میں سولہ رطل ہوتے ہیں، لہذا ایک صاع 51/3 رطل کا درست ثابت ہوا۔ (فتح الباري: 442/1)٭ صاع حجازی کا وزن: ہمارے ہاں صاع حجازی کے ہندی وزن کی تعیین میں اختلاف ہے۔ عام طور پر تین موقف مشہور ہیں: ٭ دو سیر چار چھٹانک۔ ٭ دو سیر دس چھٹانک، تین تولے اور چار ماشے۔ ٭ اڑھائی سیر۔ ہمارے نزدیک پہلا موقف زیادہ قرین قیاس، صحیح اور معتبر ہے، اسے ہم بیان کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ مد اور صاع کی تعیین میں درہم اور دینار اصل ہیں۔ ان دونوں کا وزن بھی عہد قدیم سے ائمۂ کرام اور محدثین عظام رحمہم اللہ نے بیان کر دیا ہے، لہذا درہم و دینار کے وزن سے مد اور صاع کا وزن طے کرتے ہیں۔ ٭ پہلا طریقہ بذریعۂ مثقال (دینار) : محدثین کی تصریح کے مطابق ایک رطل، نوے مثقال کا ہے اور حجازی صاع 51/3 رطل ہے، اس لیے نوے کو جب 51/3 رطل سے ضرب دیں تو 480 مثقال، حجازی صاع کا وزن آتا ہے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ ایک مثقال تقریبا 41/2 ماشے کا ہے۔ جب 480 مثقال کو 41/2 ماشے سے ضرب دیں تو صاع حجازی کا وزن اکیس سو ساٹھ (2160) ماشے آتا ہے۔ چونکہ بارہ ماشے کا ایک تولہ ہے، اس لیے 2160/12=180 تولے ہوئے۔ پانچ تولے کی ایک چھٹانک ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے کل چھتیس (36) چھٹانک حجازی صاع کا وزن آتا ہے جو دو سیر چار چھٹانک کے برابر ہے۔ ٭ دوسرا طریقہ بذریعۂ درہم: سابقہ تحقیق کے مطابق ایک رطل 1284/7 درہم کا ہے، گویا صاع حجازی =4800/7 51/3×1284/7درہم کے برابر ہے۔ ایک درہم کا وزن تین ماشے اور 11/5 رتی ہے۔ آٹھ رتی کا ایک ماشہ ہوتا ہے=126/5 8×11/5 رتی کا ایک درہم ہوا، اس اعتبار سے 4800/7 درہم کے دو ہزار ایک سو ساٹھ (2160) ماشے ہوئے۔ جب ان ماشوں کو سیر اور چھٹانک میں ڈھالا گیا تو وہی دو سیر چار چھٹانک صاع حجازی کا وزن آتا ہے۔ ٭ تیسرا طریقہ بذریعۂ مد: ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے اور مد حجازی 1/31 رطل کا ہے۔ رطل میں 4/7128 درہم ہوتے ہیں تو اس اعتبار سے ایک مد کے 11/3×1284/7=1571/7 درہم ہوئے۔ چونکہ ایک صاع حجازی میں چار مد ہوتے ہیں، اس لیے صاع حجازی کے=6855/7 4×1571/7 درہم ہوئے۔ حسب سابق ایک درہم کا وزن 126/5 رتی ہے، اس اعتبار سے 6855/7 درہم کے اکیس سو ساٹھ ماشے بنتے ہیں۔ جب اس کے تولے، چھٹانک اور سیر بنائے گئے تو وہی وزن دو سیر چار چھٹانک بنتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ الغرض صاع حجازی کو ہندی اوزان میں منتقل کرنے کے تین طریقے جو پہلے بیان ہوئے ہیں ان کے مطابق اس کا وزن 180 تولے ہے، ان کا وزن 36 چھٹانک بنتا ہے اور پھر اس کا وزن دو سیر چار چھٹانک بنتا ہے۔ جب اس وزن کو اعشاری اوزان کے مطابق کریں تو دو کلو اور سو گرام (2100 گرام) بنتا ہے۔ ہم اس مقام پر یہ وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ مد اور صاع وزن کے نہیں بلکہ ماپ کے پیمانے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وزن کے پیمانے بھی موجود تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر اور قسم کا کفارہ دینے کے لیے وزن کے بجائے ماپ کو منتخب کیا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اس سنت کو زندہ کیا جائے۔ ویسے بھی مد اور صاع کا وزن مختلف اجناس کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے، لہذا وزن کے بجائے ماپ کو ترجیح دی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ! ان کے کیل (پیمانے) میں ان کے صاع اور ان کے مد میں برکت عطا فرما۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Allah! Bestow Your Blessings on their measures, Sa' and Mudd (i.e., of the people of Medina) "