Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: To say: “In sha’ Allah” while taking an oath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6719.
ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں قسم کا کفارہ دیتا ہوں اور وہ کام گزرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے۔ یا (بایں الفاظ فرمایا:) میں بہتر کام کر گزرتا ہوں اور اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔“
تشریح:
(1) اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ قسم کا کفارہ پہلے دے دے اور قسم کے منافی کام بعد میں کرے یا اس کے برعکس قسم پہلے توڑے بعد میں اس کا کفارہ دے، دونوں صورتیں جائز ہیں جیسا کہ آئندہ باب میں اس کی وضاحت آئے گی۔ (2) بہرحال اگر کوئی شخص قسم کے بعد ان شاءاللہ کہتا ہے اور اس کا ارادہ بھی استثناء کا ہے تو کسی صورت میں حانث نہیں ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ قسم اٹھا کر کہا اللہ کی قسم! میں ضرور قریش سے جنگ کروں گا، پھر آخر میں آپ نے ان شاءاللہ کہا: اس کے بعد آپ نے ان سے جنگ نہ کی۔ (سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3285)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6481
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6719
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6719
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6719
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
تمہید باب
عربی زبان میں لفظ استثناء دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے: ٭ کسی چیز کو إلا کے ذریعے سے متعدد سے باہر نکالنا، مثلاً: لوگ آئے مگر زید نہیں آیا۔ ٭ کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے معلق کرنا، یعنی ان شاءاللہ کہنا۔ اس عنوان میں یہ آخری معنی مراد ہیں کہ قسم اٹھاتے وقت ان شاءاللہ کہنا۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس کا حکم بیان کرنا چاہتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس نے قسم اٹھاتے وقت ان شاءاللہ کہہ دیا اس پر قسم توڑنے کا کفارہ نہیں ہے۔'' (جامع الترمذی، الایمان والنذور، حدیث: 1532) اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے قسم اٹھاتے وقت ان شاءاللہ کہا تو وہ حانث اور گناہ گار نہیں ہو گا، یعنی اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔
ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں قسم کا کفارہ دیتا ہوں اور وہ کام گزرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے۔ یا (بایں الفاظ فرمایا:) میں بہتر کام کر گزرتا ہوں اور اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ قسم کا کفارہ پہلے دے دے اور قسم کے منافی کام بعد میں کرے یا اس کے برعکس قسم پہلے توڑے بعد میں اس کا کفارہ دے، دونوں صورتیں جائز ہیں جیسا کہ آئندہ باب میں اس کی وضاحت آئے گی۔ (2) بہرحال اگر کوئی شخص قسم کے بعد ان شاءاللہ کہتا ہے اور اس کا ارادہ بھی استثناء کا ہے تو کسی صورت میں حانث نہیں ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ قسم اٹھا کر کہا اللہ کی قسم! میں ضرور قریش سے جنگ کروں گا، پھر آخر میں آپ نے ان شاءاللہ کہا: اس کے بعد آپ نے ان سے جنگ نہ کی۔ (سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3285)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے (اس روایت میں یہ ترتیب اسی طرح) بیان کی کہ میں قسم کا کفارہ ادا کر دوں گا اور وہ کام کروں گا جس میں اچھائی ہوگی یا (اس طرح آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ) میں کام وہ کروں گا جس میں اچھائی ہوگی اور کفارہ ادا کر دوں گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hammad (RA) : the same narration above (i.e. 709), "I make expiation for my dissolved oath, and I do what is better, or do what is better and make expiation."