Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: To say: “In sha’ Allah” while taking an oath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6720.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت سلیمان ؑ نے فرمایا: میں ضرور ایک رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ان میں سے پر ایک بچہ جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ ان کے ساتھی نے ”فرشتے“ نے کہا: ان شاء اللہ کہہ دیں۔ لیکن وہ بھول گئے، چنانچہ وہ تمام بیویوں کے پاس گئے اور ان میں کسی بیوی کے ہاں بچہ پیدا نہ ہوا مگر ایک عورت نے ناقص بچہ جنم دیا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے آپ ﷺ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو حانث نہ ہوتے اور اپنا مقصد حاصل کر لیتے۔ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ نے یہ الفاظ فرمائے: ”اگر وہ استشناء کہہ لیتے۔“ ہم سے ابو زناد نے بیان کیا، انہوں نے اعرج سے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی طرح حدیث بیان کی۔
تشریح:
اس حدیث میں حنث سے مراد قسم ٹوٹنا نہیں بلکہ عدم وقوع ہے، یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو ارادہ کیا تھا وہ پورا نہ ہوا اور ''لم يحنث'' کے معنی یہ ہیں کہ اگر سلیمان علیہ السلام ان شاءاللہ کہہ لیتے تو اس طرح ہوتا جیسا کہ انہوں نے ارادہ کیا تھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے: ’’امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر عام حالات و واقعات میں ان شاءاللہ کہا جا سکتا ہے تو ایسی خبریں جنہیں قسم سے پختہ کر دیا گیا ہو ان میں ان شاءاللہ کہنا کیوں جائز نہیں، یعنی قسم میں ان شاءاللہ کہنے کی مشروعیت بیان کرنا ہے۔ (فتح الباري: 738/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6482
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6720
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6720
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6720
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
تمہید باب
عربی زبان میں لفظ استثناء دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے: ٭ کسی چیز کو إلا کے ذریعے سے متعدد سے باہر نکالنا، مثلاً: لوگ آئے مگر زید نہیں آیا۔ ٭ کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے معلق کرنا، یعنی ان شاءاللہ کہنا۔ اس عنوان میں یہ آخری معنی مراد ہیں کہ قسم اٹھاتے وقت ان شاءاللہ کہنا۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس کا حکم بیان کرنا چاہتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس نے قسم اٹھاتے وقت ان شاءاللہ کہہ دیا اس پر قسم توڑنے کا کفارہ نہیں ہے۔'' (جامع الترمذی، الایمان والنذور، حدیث: 1532) اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے قسم اٹھاتے وقت ان شاءاللہ کہا تو وہ حانث اور گناہ گار نہیں ہو گا، یعنی اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت سلیمان ؑ نے فرمایا: میں ضرور ایک رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ان میں سے پر ایک بچہ جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ ان کے ساتھی نے ”فرشتے“ نے کہا: ان شاء اللہ کہہ دیں۔ لیکن وہ بھول گئے، چنانچہ وہ تمام بیویوں کے پاس گئے اور ان میں کسی بیوی کے ہاں بچہ پیدا نہ ہوا مگر ایک عورت نے ناقص بچہ جنم دیا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے آپ ﷺ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو حانث نہ ہوتے اور اپنا مقصد حاصل کر لیتے۔ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ نے یہ الفاظ فرمائے: ”اگر وہ استشناء کہہ لیتے۔“ ہم سے ابو زناد نے بیان کیا، انہوں نے اعرج سے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی طرح حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حنث سے مراد قسم ٹوٹنا نہیں بلکہ عدم وقوع ہے، یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو ارادہ کیا تھا وہ پورا نہ ہوا اور ''لم يحنث'' کے معنی یہ ہیں کہ اگر سلیمان علیہ السلام ان شاءاللہ کہہ لیتے تو اس طرح ہوتا جیسا کہ انہوں نے ارادہ کیا تھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے: ’’امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر عام حالات و واقعات میں ان شاءاللہ کہا جا سکتا ہے تو ایسی خبریں جنہیں قسم سے پختہ کر دیا گیا ہو ان میں ان شاءاللہ کہنا کیوں جائز نہیں، یعنی قسم میں ان شاءاللہ کہنے کی مشروعیت بیان کرنا ہے۔ (فتح الباري: 738/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حجیر نے، ان سے طاؤس نے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ سلیمان ؑ نے کہا تھا کہ آج رات میں اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک بچہ جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ ان کے ساتھی سفیان یعنی فرشتے نے ان سے کہا۔ اجی ان شاءاللہ تو کہو لیکن آپ بھول گئے اور پھر تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک بیوی کے سوا جس کے یہاں ناتمام بچہ ہوا تھا کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ نہیں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر انہوں نے ان شاءاللہ کہہ دیا ہوتا تو ان کی قسم بے کار نہ جاتی اور اپنی ضرورت کو پالیتے اور ایک مرتبہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ اگر انہوں نے استثناء کر دیا ہوتا۔ اور ہم سے ابوالزناد نے اعرج سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : (The Prophet) Solomon said, "Tonight I will sleep with (my) ninety wives, each of whom will get a male child who will fight for Allah's Cause." On that, his companion (Sufyan said that his companion was an angel) said to him, "Say, "If Allah will (Allah willing)." But Solomon forgot (to say it). He slept with all his wives, but none of the women gave birth to a child, except one who gave birth to a halfboy. Abu Hurairah (RA) added: The Prophet (ﷺ) said, "If Solomon had said, "If Allah will" (Allah willing), he would not have been unsuccessful in his action, and would have attained what he had desired." Once Abu Hurairah (RA) added: Allah apostle said, "If he had accepted."