باب : قسم کا کفارہ، قسم توڑنے سے پہلے اور اس کے بعد دونوں طرح دے سکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: To make expiation for one’s oath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6722.
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ازخود امارت کا سوال نہ کرو کیونکہ اگر تجھے یہ امات مانگے بغیر مل جائے تو اس پر تیری مدد کی جائے گی اور اگر تجھے مانگنے سے دی جائے تو تجھے اس کے سپرد کر دیا جائے گا، نیز جب تو کسی چیز کی قسم اٹھائے پھر اس کا غیر اس سے بہتر دیکھے تو وہ کرو جو بہتر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو۔“ اشہل نے ابن عون سے روایت کرنے میں عثمان بن عمر کی متابعت کی ہے۔ اور یونس، سماک بن عطیہ، سماک بن حرب، حمید، قتادہ، منصور ہشام اور ربیع نے بھی ابن عون کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قسم کا کفارہ، قسم توڑنے کے بعد ادا کیا جائے جبکہ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے: ''اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بہتر ہو۔'' (صحیح البخاری، الایمان والنذور، حدیث: 6622) اس روایت کا تقاضا ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے بھی کفارہ دیا جا سکتا ہے، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ثابت ہوا کہ کفارہ، قسم توڑنے سے پہلے اور بعد میں دیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6484
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6722
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6722
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6722
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
تمہید باب
قسم توڑنے سے پہلے یا بعد میں کفارہ دینے کے متعلق علماء میں اختلاف ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قسم توڑنے سے پہلے بھی کفارہ دیا جا سکتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ کھانا کھلانا، کپڑے دینا اور غلام آزاد کرنا تو قسم توڑنے سے پہلے بھی جائز ہے، لیکن روزے قسم توڑنے سے پہلے نہیں رکھے جا سکتے۔ احناف کا موقف ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینا درست نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ قسم کا کفارہ قسم توڑنے سے پہلے دینا یا بعد میں، دونوں طرح جائز ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ازخود امارت کا سوال نہ کرو کیونکہ اگر تجھے یہ امات مانگے بغیر مل جائے تو اس پر تیری مدد کی جائے گی اور اگر تجھے مانگنے سے دی جائے تو تجھے اس کے سپرد کر دیا جائے گا، نیز جب تو کسی چیز کی قسم اٹھائے پھر اس کا غیر اس سے بہتر دیکھے تو وہ کرو جو بہتر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو۔“ اشہل نے ابن عون سے روایت کرنے میں عثمان بن عمر کی متابعت کی ہے۔ اور یونس، سماک بن عطیہ، سماک بن حرب، حمید، قتادہ، منصور ہشام اور ربیع نے بھی ابن عون کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قسم کا کفارہ، قسم توڑنے کے بعد ادا کیا جائے جبکہ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے: ''اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بہتر ہو۔'' (صحیح البخاری، الایمان والنذور، حدیث: 6622) اس روایت کا تقاضا ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے بھی کفارہ دیا جا سکتا ہے، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ثابت ہوا کہ کفارہ، قسم توڑنے سے پہلے اور بعد میں دیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر بن فارس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ ابن عون نے خبر دی، انہیں امام حسن بصری نے، ان سے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کبھی تم حکومت کا عہدہ طلب نہ کرنا کیوں کہ اگر بلا مانگے تمہیں یہ مل جائے گا تو اس میں تمہاری منجانب اللہ مدد کی جائے گی، لیکن اگرمانگنے پر ملا تو سارا بوجھ تمہیں پر ڈال دیا جائے گا اور اگر تم کوئی قسم کھالو اور اس کے سوا کوئی اور بات بہتر نظر آئے تو وہی کرو جو بہتر ہو اور قسم کا کفارہ ادا کر دو۔ عثمان بن عمر کے ساتھ اس حدیث کو اشہل بن حاتم نے بھی عبداللہ بن عون سے روایت کیا، اس کو ابوعوانہ اور حاکم نے وصل کیا اور عبداللہ بن عون کے ساتھ اس حدیث کو یونس اور سماک بن عطیہ اور سماک بن حرب اور حمید اور قتادہ اور منصور اور ہشام اور ربیع نے بھی روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin Samura (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "(O 'Abdur-Rahman!) Do not seek to be a ruler, for, if you are given the authority of ruling without your asking for it, then Allah will help you; but if you are given it by your asking, then you will be held responsible for it (i.e. Allah will not help you) . And if you take an oath to do something and later on find another thing, better than that, then do what is better and make expiation for (the dissolution of) your oath."