Sahi-Bukhari:
Laws of Inheritance (Al-Faraa'id)
(Chapter: The share of inheritance of one’s son’s daughter)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6738.
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا ہے: ”اگر میں اس امت میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن اسلام کی دوستی افضل یا بہتر ہے“ ابو بکر ؓ نے دادے کو باپ کے قائم مقام قرار دیا ہے، یا انہوں نے فیصلہ دیا ہے کہ دادا باپ کی جگہ پر ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے باپ اور بھائی کے ساتھ دادے کی وراثت کو بیان کیا ہے۔ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ باپ کی موجودگی میں دادا محروم رہتا ہے اور اس امر پر امت کے علماء کا اجماع ہے۔ (فتح الباري:24/12) نیز باپ کی موجود گی میں ہر قسم کے بھائی ترکے سے محروم قرار پاتے ہیں۔ اب دادے کی موجودگی میں بھائیوں کو میت کی جائیداد سے حصہ ملے گا یا نہیں، اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔ حضرت ابوبکر، حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اور ائمہ اربعہ میں سے حضرت ابو حنیفہ کے نزدیک دادے کی موجودگی میں بھائی محروم رہتے ہیں کیونکہ دادا، باپ کے قائم مقام ہے، البتہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ دادے کی موجودگی میں حقیقی اور پدری بھائی وارث ہوں گے لیکن ان کا طریقۂ تقسیم بہت پیچیدہ ہے۔ اسے علم میراث کی اصطلاح میں مقاسمة الجد کہا جاتا ہے، یعنی میت کی جائیداد کو دادے اور اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم کرنے کا طریق کار۔ ہم اس کی وضاحت بیان کیے دیتے ہیں: اگر دادے اور میت کے بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہوں اور ان کا مقررہ حصہ انھیں دینے کے بعد کل ترکے کا 1/6 بچے تو وہ دادے کو دیا جائے گا، اس صورت میں بہن بھائی محروم ہوں گے، مثلاً: میت کے وارث خاوند، ماں، دادا اور بہن بھائی ہیں تو کل ترکے کے چھے حصے ہوں گے: خاوند کا حصہ 1/2، یعنی کل جائیداد کے تین حصے، ماں کا حصہ1/3، یعنی کل جائیداد کے دوحصے، باقی ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا چھٹا حصہ ہے وہ دادے کو مل جائے گا اور بہن بھائی محروم ہوں گے۔ اگر اصحاب الفروض کو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد باقی 1/6 سے کم ہو تو دادے کا چھٹا حصہ بطریق عول (ابتدائی تقسیم کے بعد مزید ردوبدل کے ذریعے سے) پورا کیا جائے گا، بہن بھائی محروم رہیں گے، مثلاً: میت کے وارث خاوند، بیٹی، ماں، دادا اور دیگر بہن بھائی ہیں تو کل جائیداد کے بارہ حصے ہوں گے: خاوند کا 1/4، یعنی تین حصے، لڑکی 1/2، یعنی چھے حصے، ماں کا 1/6، یعنی دو حصے دادے کے لیے صرف ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا بارھواں حصہ ہے، اس لیے یہاں عول کے اصول پر بارہ کے بجائے تیرہ حصے کرکے دادے کو ان میں سے دو حصے دیے جائیں گے۔ اگر دوسرے اصحاب الفروض کو دینے کے بعد کل ترکے کے چھٹے حصے سے زیادہ بچے تو پھر مقاسمہ ہوگا، یعنی دادے کو ایک بھائی سمجھ کر دادے اور دوسرے بہن بھائیوں کے درمیان ترکہ تقسیم ہوگا۔ (2) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا موقف ہے کہ دادے کہ ساتھ بہن بھائیوں کی تین صورتیں ہیں:٭ اگر صرف دادا اور بہن بھائی وارث ہوں تو مقاسمہ یا تمام ترکے کا تہائی، ان دو صورتوں میں جو صورت دادے کے لیے بہتر ہوگی اسے اختیار کیا جائے گا، مثلاً: دادا اور ایک بھائی ہو تو اس صورت میں دادے کے لیے مقاسمہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح آدھی جائیداد کا حق دار ہوگا اور اگر وارث دادا اور تین بھائی ہیں تو پھر دادے کے لیے کل ترکے کا ایک تہائی بہتر ہے، اس لیے کہ مقاسمہ کی صورت میں اسے 1/4 ملے گا جو 1/3 سے کم ہے۔٭اگر دادے اور بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہوں اور اصحاب الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد کچھ بچے تو اگر چھٹے حصے سے زیادہ باقی بچے تو ایسی حالت میں دادے کے لیے حسب ذیل تین صورتیں اختیار کی جاتی ہیں، ان میں بہتر صورت کو دیکھا جائے: ٭مقاسمہ، ٭ باقی ترکے کا تہائی۔ ٭کل ترکے کا چھٹا حصہ۔ مثال: میت کے وارث خاوند، دادا اور بھائی ہیں تو اس صورت میں مقاسمہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح دادے کو کل ترکے کا 1/4 ملے گا اور اگر میت کے وارث ماں، دادا پانچ بہنیں ہوں تو اس صورت میں باقی ترکے کی تہائی بہتر ہے اور اگر وارث خاوند، ماں، دادا اور دو بھائی ہیں تو اس صورت میں دادے کے لیے کل ترکے کا چھٹا حصہ بہتر ہے۔ ٭اگر دادے اور بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہیں اور اصحاب الفروض کو دینے کے بعد باقی چھٹا حصہ بچتا ہوتو اس صورت میں دادے کو چھٹا حصہ دیا جائے گا اور بہن بھائی سب محروم ہوں گے، مثلاً: میت کے وارث خاوند، دادا اور دیگر بھائی ہیں تو کل ترکے کے چھے حصے ہوں گے: خاوند کا نصف تین حصے، ماں کا تہائی، یعنی دو حصے، باقی ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا1/(6 ) ہے وہ دادے کو ملے گا اور بہن بھائی محروم ہوں گے۔ اگر اصحاب الفروض کو دینے کے بعد چھٹے حصے سے کم بچے تو بہن بھائی محروم اور دادے کا چھٹا حصہ بطریق عول پورا کیا جائے گا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ دادے کی موجودگی میں حقیقی اور پدری بہن بھائی محروم ہوتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6499
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6738
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6738
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6738
تمہید کتاب
فرائض، فريضة کی جمع ہے۔ فریضہ اس ذمہ داری کو کہتے ہیں جو مکلف پر شرعاً عائد کی جائے، جیسے: نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ فرض ہیں۔ میراث کو بھی فریضہ اور فرض کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کاٹنا اور مقرر کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لیے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث میں فرائض سے مراد وراثت کے مستحق لوگوں کے لیے وہ مقرر حصے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔ یہ نام قرآن کریم کی آیت کریمہ (نَصِيبًا مَّفْرُوضًا) سے ماخوذ ہے۔ (النساء: 4/7) کتاب الفرائض میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ترکے کے مسائل اور ورثاء کو ملنے والے حصے بیان کیے ہیں۔ فرائض کا علم ایک ایسا علم ہے جس کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ ان سے آگاہ ہونا ہر کسی کا کام نہیں کیونکہ ان میں علم ریاضی اور حساب، نیز جدید اعشاری قواعد و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم تمہید کے طور پر چند حقائق ذکر کرتے ہیں تاکہ صحیح بخاری میں آمدہ وراثت کے احکام و مسائل سمجھنے میں آسانی ہو۔٭ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کی فطری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس میں شخصی جائیداد اور انفرادی ملکیت کی پوری پوری گنجائش ہے۔ اس میں احکام وصیت و وراثت اور مسائل ہبہ و وقف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انفرادی نظریۂ ملکیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، پھر تمدن کی ترقی کے لیے انتقال ملکیت بھی ضروری ہے جس کی دو صورتیں ممکن ہیں ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری انتقال ملکیت کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ معاوضہ لے کر کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا ایسا اشیائے خریدوفروخت یا اس کے مشابہ لین دین میں ہوتا ہے۔ ٭ بلا معاوضہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت صحت ہو اور اپنی زندگی میں کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے تو اسے ہبہ یا ہدیہ کہا جاتا ہے اور اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت مرض موت ہو اور مرنے کے بعد وہ چیز کسی دوسرے کو ملے تو اسے وصیت کہا جاتا ہے۔ انتقال ملکیت کی دوسری صورت جو غیر اختیاری ہے اس میں ایک انسان کی مملوکہ اشیاء خودبخود اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس میں انتقال کرنے والے کے ارادے، نیت یا اختیار کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا، اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو شرعی اصطلاح میں ''وراثت'' کہا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کے ان مذکورہ دونوں طریقوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اختیاری طریقۂ انتقال میں بعض اوقات ایجاب و قبول اور بعض صورتوں میں صرف ایجاب شرط ہوتا ہے جیسا کہ خریدوفروخت اور وقف میں ہوتا ہے جبکہ وراثت میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر ہی وارث اس کا مالک بن جاتا ہے۔آغاز اسلام میں انتقال ملکیت کے لیے وصیتی طریقہ رائج کیا گیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ جائیداد کا مالک خود اس امر کا اہتمام کرتا کہ اس کے مرنے اس کی جائیداد کا بندوبست کس طرح ہو اور کون کون لوگ اس میں حصہ دار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر جائے، ایسا کرنا اہل تقویٰ کے ذمے حق ہے۔'' (البقرۃ: 2/180) لیکن انسان کی خودغرضی اسے اکثر اوقات ظلم و زیادتی پر آمادہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں کسی رشتہ دار کی ناجائز طرف داری یا بلاوجہ حق تلفی ہو جاتی ہے جو خاندان کے مختلف افراد کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح طور پر رہنمائی فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''البتہ جس شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کے متعلق جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو اور وہ ورثاء میں سمجھوتہ کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔'' (البقرۃ: 2/182) اسلام نے دانستہ یا نادانستہ طرف داری یا حق تلفی کا اس طرح سدباب کیا ہے کہ مُوَرِث، یعنی فوت ہونے والے کو ایک تہائی کی حد تک وصیت کا اختیار دے کر باقی ترکے کی تقسیم کے لیے واضح اصول مقرر کر دیے تاکہ خاندان میں عزیز و اقارب کے درمیان نفرت و عداوت پیدا نہ ہو، نیز صلہ رحمی اور ہمدردی کے جذبات بھی ماند نہ پڑیں۔اس کے علاوہ وراثت کے احکام کو اس اصول پر استوار کیا کہ فوت ہونے والے کا ترکہ ان لوگوں میں تقسیم ہو جو اپنی قرابت داری کے اعتبار سے مرحوم کی جائیداد کے زیادہ حق دار ہوں، پھر حق وراثت کو ایسا محکم اور پختہ فرض قرار دیا ہے جس میں تغیر و تبدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے پیچھے ایک سے زیادہ قرابت دار چھوڑ جاتا ہے جن کے متعلق وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے حقوق دوسرے قرابت داروں کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ عقل انسانی کے اس تذبذب کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دور فرمایا: ''تم نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔'' (النساء: 4/114) لیکن افسوس کہ وراثت کے متعلق کتاب و سنت میں بیان کردہ واضح شرعی احکام اور ان کی خلاف ورزی پر کھلی وعید کے باوجود ہم مسلمان اس سلسلے میں برسرعام خلاف ورزی کرتے ہیں اور واضح طور پر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف مزعومہ عاق نامے کے ذریعے سے اپنی اولاد کو ان کے شرعی حق سے محروم کر دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے بیٹوں کی موجودگی میں اپنے پوتوں کو وراثت میں برابر کا حصے دار ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح ترکے کے متعلق بھی ہمارے ہاں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ترکہ اسے خیال کیا جاتا ہے جو باپ دادا سے بطور وراثت ملا ہو اور جو کچھ اپنی محنت سے کمایا اسے ترکے میں شمار نہیں کیا جاتا، حالانکہ ہر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو شرعاً ترکہ کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد اس نے اپنے پیچھے چھوڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کا اس میں کوئی حق نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے اور اس کا تعلق بھی تقسیم جائیداد سے ہے لیکن ہم اس سلسلے میں کوتاہی کا شکار ہیں، وہ یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے بعض اوقات والد پر دباؤ ڈالا جاتا ہے یا والد ازخود کسی پیش بندی کے طور پر اپنی جائیداد زندگی ہی میں تقسیم کر دیتا ہے، حالانکہ ایسا کرنا انتہائی محل نظر ہے کیونکہ ضابطۂ وراثت کے اجراء کے لیے مُوَرِث کی موت کا یقین اور وارث کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ زندگی میں ضابطۂ وراثت کے مطابق جائیداد کا تقسیم کرنا کئی ایک خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، ہاں اگر اولاد کو بطور ہبہ کچھ دینا چاہے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، بشرطیکہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر ہبہ دیا جائے۔ چند ایک کو دینا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شرعی ورثاء کو محروم کرنے کے لیے ہبہ کو بطور حیلہ استعمال کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔دراصل ہمارے ہاں جہالت کا دور دورہ ہے۔ عصر حاضر میں علم فرائض کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی، علم فرائض بھی قبض کر لیا جائے گا، فتنے رونما ہوں گے حتی کہ دو آدمی اپنے کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' (المستدرک للحاکم: 4/333) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے کتاب الفرائض میں وراثت کے بہت سے پیچیدہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ وراثت کے علاوہ دیگر بے شمار معاشرتی مسائل بھی ذکر کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ چوبیس (24) آثار بھی ذکر کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں، پھر آپ نے ان منتخب احادیث پر تیس (30) سے زیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں وراثت کی اہمیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت، قیدی کی وراثت، جو خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، قیافہ شناس وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اسنادی مباحث ہیں جن کی ہم موقع و محل کی مناسبت سے وضاحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین نوٹ: ہم نے ''اسلامی قانون وراثت'' نامی کتاب پر ایک مدلل مقدمہ لکھا ہے، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ صحیح بخاری کو پڑھتے ہوئے اسے ضرور زیر مطالعہ لائیں۔ یہ کتاب دارالسلام نے ہی شائع کی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا ہے: ”اگر میں اس امت میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن اسلام کی دوستی افضل یا بہتر ہے“ ابو بکر ؓ نے دادے کو باپ کے قائم مقام قرار دیا ہے، یا انہوں نے فیصلہ دیا ہے کہ دادا باپ کی جگہ پر ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے باپ اور بھائی کے ساتھ دادے کی وراثت کو بیان کیا ہے۔ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ باپ کی موجودگی میں دادا محروم رہتا ہے اور اس امر پر امت کے علماء کا اجماع ہے۔ (فتح الباري:24/12) نیز باپ کی موجود گی میں ہر قسم کے بھائی ترکے سے محروم قرار پاتے ہیں۔ اب دادے کی موجودگی میں بھائیوں کو میت کی جائیداد سے حصہ ملے گا یا نہیں، اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔ حضرت ابوبکر، حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اور ائمہ اربعہ میں سے حضرت ابو حنیفہ کے نزدیک دادے کی موجودگی میں بھائی محروم رہتے ہیں کیونکہ دادا، باپ کے قائم مقام ہے، البتہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ دادے کی موجودگی میں حقیقی اور پدری بھائی وارث ہوں گے لیکن ان کا طریقۂ تقسیم بہت پیچیدہ ہے۔ اسے علم میراث کی اصطلاح میں مقاسمة الجد کہا جاتا ہے، یعنی میت کی جائیداد کو دادے اور اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم کرنے کا طریق کار۔ ہم اس کی وضاحت بیان کیے دیتے ہیں: اگر دادے اور میت کے بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہوں اور ان کا مقررہ حصہ انھیں دینے کے بعد کل ترکے کا 1/6 بچے تو وہ دادے کو دیا جائے گا، اس صورت میں بہن بھائی محروم ہوں گے، مثلاً: میت کے وارث خاوند، ماں، دادا اور بہن بھائی ہیں تو کل ترکے کے چھے حصے ہوں گے: خاوند کا حصہ 1/2، یعنی کل جائیداد کے تین حصے، ماں کا حصہ1/3، یعنی کل جائیداد کے دوحصے، باقی ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا چھٹا حصہ ہے وہ دادے کو مل جائے گا اور بہن بھائی محروم ہوں گے۔ اگر اصحاب الفروض کو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد باقی 1/6 سے کم ہو تو دادے کا چھٹا حصہ بطریق عول (ابتدائی تقسیم کے بعد مزید ردوبدل کے ذریعے سے) پورا کیا جائے گا، بہن بھائی محروم رہیں گے، مثلاً: میت کے وارث خاوند، بیٹی، ماں، دادا اور دیگر بہن بھائی ہیں تو کل جائیداد کے بارہ حصے ہوں گے: خاوند کا 1/4، یعنی تین حصے، لڑکی 1/2، یعنی چھے حصے، ماں کا 1/6، یعنی دو حصے دادے کے لیے صرف ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا بارھواں حصہ ہے، اس لیے یہاں عول کے اصول پر بارہ کے بجائے تیرہ حصے کرکے دادے کو ان میں سے دو حصے دیے جائیں گے۔ اگر دوسرے اصحاب الفروض کو دینے کے بعد کل ترکے کے چھٹے حصے سے زیادہ بچے تو پھر مقاسمہ ہوگا، یعنی دادے کو ایک بھائی سمجھ کر دادے اور دوسرے بہن بھائیوں کے درمیان ترکہ تقسیم ہوگا۔ (2) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا موقف ہے کہ دادے کہ ساتھ بہن بھائیوں کی تین صورتیں ہیں:٭ اگر صرف دادا اور بہن بھائی وارث ہوں تو مقاسمہ یا تمام ترکے کا تہائی، ان دو صورتوں میں جو صورت دادے کے لیے بہتر ہوگی اسے اختیار کیا جائے گا، مثلاً: دادا اور ایک بھائی ہو تو اس صورت میں دادے کے لیے مقاسمہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح آدھی جائیداد کا حق دار ہوگا اور اگر وارث دادا اور تین بھائی ہیں تو پھر دادے کے لیے کل ترکے کا ایک تہائی بہتر ہے، اس لیے کہ مقاسمہ کی صورت میں اسے 1/4 ملے گا جو 1/3 سے کم ہے۔٭اگر دادے اور بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہوں اور اصحاب الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد کچھ بچے تو اگر چھٹے حصے سے زیادہ باقی بچے تو ایسی حالت میں دادے کے لیے حسب ذیل تین صورتیں اختیار کی جاتی ہیں، ان میں بہتر صورت کو دیکھا جائے: ٭مقاسمہ، ٭ باقی ترکے کا تہائی۔ ٭کل ترکے کا چھٹا حصہ۔ مثال: میت کے وارث خاوند، دادا اور بھائی ہیں تو اس صورت میں مقاسمہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح دادے کو کل ترکے کا 1/4 ملے گا اور اگر میت کے وارث ماں، دادا پانچ بہنیں ہوں تو اس صورت میں باقی ترکے کی تہائی بہتر ہے اور اگر وارث خاوند، ماں، دادا اور دو بھائی ہیں تو اس صورت میں دادے کے لیے کل ترکے کا چھٹا حصہ بہتر ہے۔ ٭اگر دادے اور بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہیں اور اصحاب الفروض کو دینے کے بعد باقی چھٹا حصہ بچتا ہوتو اس صورت میں دادے کو چھٹا حصہ دیا جائے گا اور بہن بھائی سب محروم ہوں گے، مثلاً: میت کے وارث خاوند، دادا اور دیگر بھائی ہیں تو کل ترکے کے چھے حصے ہوں گے: خاوند کا نصف تین حصے، ماں کا تہائی، یعنی دو حصے، باقی ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا1/(6 ) ہے وہ دادے کو ملے گا اور بہن بھائی محروم ہوں گے۔ اگر اصحاب الفروض کو دینے کے بعد چھٹے حصے سے کم بچے تو بہن بھائی محروم اور دادے کا چھٹا حصہ بطریق عول پورا کیا جائے گا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ دادے کی موجودگی میں حقیقی اور پدری بہن بھائی محروم ہوتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر میں اس امت کے کسی آدمی کو ”خلیل“ بناتا تو ان کو( ابوبکر ؓ کو) کو خلیل بناتا، لیکن اسلام کا تعلق ہی سب سے بہتر ہے تو اس میں آنحضرت ﷺ نے دادا کو باپ کے درجہ میں رکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The person about whom Allah's Apostle (ﷺ) said, "If I were to take a Khalil from this nation (my followers), then I would have taken him (i.e., Abu Bakr), but the Islamic Brotherhood is better (or said: good)," regarded a grandfather as the father himself (in inheritance).