کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : زنا کے گناہ کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: The sin of illegal sexual intercourse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ فرقان میں ارشاد فرمایا” اور وہ لوگ زنا نہیں کرتے“ اور سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا” اور زنا کے قریب نہ جاؤ کہ وہ بے حیائی کا کام ہے اور اس کا راستہ برا ہے“
6810.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ اور شرابی جب شراب نوشی کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ پھر ان سب آدمیوں کے لیے توبہ کا دروازہ بہرحال کھلا رہتا ہے۔“
تشریح:
(1) ان روایات میں زنا کی سنگینی بیان کی گئی ہے کہ حالت زنا میں انسان نور ایمان سے محروم ہو جاتا ہے، اگر اسی حالت میں مر جائے تو ایمان سے محروم ہوک ر فوت ہوگیا، البتہ جس میں ایمان کی رمق ہوگی، اسے توبہ کا موقع ملتا ہے لیکن توبہ کا موقع بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ملتا ہے۔ (2) بہرحال انسان کو چاہیے کہ وہ بدکاری کے راستوں کو اختیار نہ کرے، فحش کلام اور فحش کام کے قریب تک نہ جائے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان نکل کر اس کے اوپر چھتری کی طرح ہو جاتا ہے اور جب وہ اس بےحد گندے اور برے کام سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان لوٹ آتا ہے۔ پھر انھوں نے ابو جعفر محمد بن علی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ آدمی ایمان سے اسلام کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (جامع الترمذي، الإیمان، حدیث:2625) (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک ایمان، اسلام کی ایک خاص حالت ہے جو زنا کے وقت برقرار نہیں رہتی، البتہ اسلام کی حالت باقی رہتی ہے۔ جمہور اہل علم نے اس امر کو ایک دوسرے انداز سے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد کامل ایمان ہے، یعنی اس ایمان کامل باقی نہیں رہتا، اصل ایمان سے خروج نہیں ہوتا۔ (فتح الباري:140/12)
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ فرقان میں ارشاد فرمایا” اور وہ لوگ زنا نہیں کرتے“ اور سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا” اور زنا کے قریب نہ جاؤ کہ وہ بے حیائی کا کام ہے اور اس کا راستہ برا ہے“
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ اور شرابی جب شراب نوشی کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ پھر ان سب آدمیوں کے لیے توبہ کا دروازہ بہرحال کھلا رہتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ان روایات میں زنا کی سنگینی بیان کی گئی ہے کہ حالت زنا میں انسان نور ایمان سے محروم ہو جاتا ہے، اگر اسی حالت میں مر جائے تو ایمان سے محروم ہوک ر فوت ہوگیا، البتہ جس میں ایمان کی رمق ہوگی، اسے توبہ کا موقع ملتا ہے لیکن توبہ کا موقع بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ملتا ہے۔ (2) بہرحال انسان کو چاہیے کہ وہ بدکاری کے راستوں کو اختیار نہ کرے، فحش کلام اور فحش کام کے قریب تک نہ جائے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان نکل کر اس کے اوپر چھتری کی طرح ہو جاتا ہے اور جب وہ اس بےحد گندے اور برے کام سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان لوٹ آتا ہے۔ پھر انھوں نے ابو جعفر محمد بن علی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ آدمی ایمان سے اسلام کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (جامع الترمذي، الإیمان، حدیث:2625) (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک ایمان، اسلام کی ایک خاص حالت ہے جو زنا کے وقت برقرار نہیں رہتی، البتہ اسلام کی حالت باقی رہتی ہے۔ جمہور اہل علم نے اس امر کو ایک دوسرے انداز سے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد کامل ایمان ہے، یعنی اس ایمان کامل باقی نہیں رہتا، اصل ایمان سے خروج نہیں ہوتا۔ (فتح الباري:140/12)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”وہ زنا نہیں کرتے“ نیز فرمایا:[ تم زنا کے قریب بھی نہ جاؤ بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بے حیائی اور برا راستہ ہے]۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ذکوان نے بیان کیا، اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ وہ چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا شرابی جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ پھر ان سب آدمیوں کے لیے توبہ کا دروازہ بہرحال کھلا ہوا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مگر توبہ کی توفیق بھی قسمت والوں کو ملتی ہے۔ توبہ سے پختہ توبہ مراد ہے، نہ کہ رسمی توبہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ash-Sha'bi (RA) : from 'Ali when the latter stoned a lady to death on a Friday. 'Ali said, "I have stoned her according to the tradition of Allah's Apostle."