کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : محصن ( شادی شدہ کو زنا کی علت میں) سنگسار کرنا
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: The Rajm of a married person)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور امام حسن بصری نے کہااگرکوئی شخص اپنی بہن سے زنا کرے تو اس پر زنا کی حد پڑے گی۔ یہ اسلام کی وہ تعزیرات ہیں جن کے اجزاء پر امن عالم کی بنیاد ہے
6813.
سلیمان شیبانی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی کو رجم کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: سورہ نور کے نازل ہونے سے پہلے یا بعد انہوں نے فرمایا: یہ مجھے معلوم نہیں۔
تشریح:
(1) سورۂ نور سے مراد اس کی درج ذیل آیت کریمہ ہے: ’’زانی عورت یا مرد ان میں سے ہر ایک کو سو، سوکوڑے لگاؤ۔‘‘(النور24: 2) اس کے متعلق سوال کرنے کا فائدہ یہ تھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نازل ہونے سے پہلے رجم کیا ہے تو ممکن ہے کہ آیت کریمہ سے وہ رجم منسوخ ہوگیا ہو کیونکہ اس آیت میں کوڑے لگانے کا ذکر ہے اور اگر بعد میں اس کا نزول ہوا ہے تو ممکن ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا اس آیت سے مخصوص ہو، لیکن صحابی نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا کہ وہ مجھے معلوم نہیں۔ (2) حقیقت یہ ہے کہ ان آیات کا نزول سزائے رجم سے پہلے ہے کیونکہ یہ سورت 6 ہجری میں نازل ہوئی ہے اور رجم کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جو فتح خیبر کے موقع پر سات ہجری میں مسلمان ہوئے تھے۔ اس طرح رجم سے متعلقہ واقعے کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث:6824) اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی والدہ کے ہمراہ نو ہجری میں مدینہ طیبہ تشریف لائے تھے۔ (فتح الباري:147/12)
اور امام حسن بصری نے کہااگرکوئی شخص اپنی بہن سے زنا کرے تو اس پر زنا کی حد پڑے گی۔ یہ اسلام کی وہ تعزیرات ہیں جن کے اجزاء پر امن عالم کی بنیاد ہے
حدیث ترجمہ:
سلیمان شیبانی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی کو رجم کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: سورہ نور کے نازل ہونے سے پہلے یا بعد انہوں نے فرمایا: یہ مجھے معلوم نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) سورۂ نور سے مراد اس کی درج ذیل آیت کریمہ ہے: ’’زانی عورت یا مرد ان میں سے ہر ایک کو سو، سوکوڑے لگاؤ۔‘‘(النور24: 2) اس کے متعلق سوال کرنے کا فائدہ یہ تھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نازل ہونے سے پہلے رجم کیا ہے تو ممکن ہے کہ آیت کریمہ سے وہ رجم منسوخ ہوگیا ہو کیونکہ اس آیت میں کوڑے لگانے کا ذکر ہے اور اگر بعد میں اس کا نزول ہوا ہے تو ممکن ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا اس آیت سے مخصوص ہو، لیکن صحابی نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا کہ وہ مجھے معلوم نہیں۔ (2) حقیقت یہ ہے کہ ان آیات کا نزول سزائے رجم سے پہلے ہے کیونکہ یہ سورت 6 ہجری میں نازل ہوئی ہے اور رجم کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جو فتح خیبر کے موقع پر سات ہجری میں مسلمان ہوئے تھے۔ اس طرح رجم سے متعلقہ واقعے کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث:6824) اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی والدہ کے ہمراہ نو ہجری میں مدینہ طیبہ تشریف لائے تھے۔ (فتح الباري:147/12)
ترجمۃ الباب:
حسن بصری نے کہا: جس نے اپنی بہن سے زنا کیا اس کی حد بھی زنا کی حد ہے۔
فائدہ: احصان یعنی شادی شدہ سے مراد وہ عاقل بالغ اور آزاد مسلمان ہے جو نکاح صحیح کے بعد شارح بخاری ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے: اس امر پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ عظام رحمہ اللہ کا اتفاق ہے کہ شادی شدہ مرد یا عورت جب دیدہ دانستہ اپنے اختیار سے بد کاری کرے تو اس کی سزا سنگسار کرنا ہے۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد طحان نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے کہا میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے پوچھا۔ کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی کو رجم کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے پوچھا سورۃ نور سے پہلے یا اس کے بعد کہا کہ یہ مجھے معلوم نہیں۔ (امر نامعلوم کے لیے اظہار لاعلمی کر دینا بھی امر محمود ہے۔)
حدیث حاشیہ:
یعنی قانون رجم طریقہ محمدی ہے جو اس برائی کو ختم کرنے کے لیے تیر بہدف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ash Shaibani (RA) : I asked 'Abdullah bin Abi Aufa, 'Did Allah's Apostle (ﷺ) carry out the Rajam penalty ( i.e., stoning to death)?' He said, "Yes." I said, "Before the revelation of Surat-ar-Nur or after it?" He replied, "I don't Know."