کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : پاگل مرد یا عورت کو رجم نہیں کیا جائے گا
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: An insane should not be stoned to death)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت علیؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ پاگل سے ثواب یا عذاب لکھنے والی قلم اٹھالی گئی ہے یہاں تک کہ اسے ہوش ہوجائے۔ بچہ سے بھی قلم اٹھالی گئی ہے یہاں تک کہ بالغ ہوجائے۔ سونے والا بھی مرفوع القلم ہے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے یعنی دماغ اور ہوش درست کرلے۔ تشریح : مرفوع القلم کا مطلب یہ ہے کہ ان سے معافی ہے۔ ایک زانیہ حاملہ عورت کو حضرت عمرؓ نے رجم کرنا چاہا تھا، اس وقت حضرت علیؓ نے یہ فرمایا۔
6816.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ان لوگوں میں تھا جنہوں نے اسے رجم کیا تھا ہم نے اسے آبادی سے باہر عیدگاہ کے پاس رجم کیا تھا۔ جب اس کو پتھر پڑے تو بھاگ نکلا لیکن ہم نے حرہ کے پاس اسے پالیا اور وہیں سنگسار کر دیا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ تو دیوانہ ہے؟ کیونکہ کوئی صاحب شعور، اس طرح کا اعتراف واقرار نہیں کرتا جس کی پاداش میں وہ دنیا سے نیست ونابود ہو جاتا ہو، لیکن اس انسان کا ضمیر بیدار ہو چکا تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ اس طرح موت سے وہ اس جرم سے پاک ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اقرار کے بعد اس کے خاندان سے پتا کرایا کہ یہ شخص دیوانہ تو نہیں، قوم نے بالاتفاق گواہی دی کہ یہ شخص انتہائی سمجھ دار ہے۔ الغرض آپ نے اس سلسلے میں پوری تحقیق کی جیسا کہ آئندہ وضاحت آئے گی، اس کے بعد آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ دیوانے کو ہوش آنے تک رجم کی سزا نہ دی جائے۔ (فتح الباري:150/12)
اور حضرت علیؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ پاگل سے ثواب یا عذاب لکھنے والی قلم اٹھالی گئی ہے یہاں تک کہ اسے ہوش ہوجائے۔ بچہ سے بھی قلم اٹھالی گئی ہے یہاں تک کہ بالغ ہوجائے۔ سونے والا بھی مرفوع القلم ہے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے یعنی دماغ اور ہوش درست کرلے۔ تشریح : مرفوع القلم کا مطلب یہ ہے کہ ان سے معافی ہے۔ ایک زانیہ حاملہ عورت کو حضرت عمرؓ نے رجم کرنا چاہا تھا، اس وقت حضرت علیؓ نے یہ فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ان لوگوں میں تھا جنہوں نے اسے رجم کیا تھا ہم نے اسے آبادی سے باہر عیدگاہ کے پاس رجم کیا تھا۔ جب اس کو پتھر پڑے تو بھاگ نکلا لیکن ہم نے حرہ کے پاس اسے پالیا اور وہیں سنگسار کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ تو دیوانہ ہے؟ کیونکہ کوئی صاحب شعور، اس طرح کا اعتراف واقرار نہیں کرتا جس کی پاداش میں وہ دنیا سے نیست ونابود ہو جاتا ہو، لیکن اس انسان کا ضمیر بیدار ہو چکا تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ اس طرح موت سے وہ اس جرم سے پاک ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اقرار کے بعد اس کے خاندان سے پتا کرایا کہ یہ شخص دیوانہ تو نہیں، قوم نے بالاتفاق گواہی دی کہ یہ شخص انتہائی سمجھ دار ہے۔ الغرض آپ نے اس سلسلے میں پوری تحقیق کی جیسا کہ آئندہ وضاحت آئے گی، اس کے بعد آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ دیوانے کو ہوش آنے تک رجم کی سزا نہ دی جائے۔ (فتح الباري:150/12)
ترجمۃ الباب:
حضرت علی ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کہا: آپ کو معلوم نہیں کہ دیوانہ،ہوش آنے تک،بچہ،بالغ ہونے تک اور سونے والا بیدار ہونے تک مرفوع القلم ہے۔
حدیث ترجمہ:
ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر مجھے انہوں نے خبر دی، جنہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ رجم کرنے والوں میں میں بھی تھا، ہم نے انہیں آبادی سے باہر عیدگاہ کے پاس رجم کیا تھا جب ان پر پتھر پڑے تو وہ بھاگ پڑے لیکن ہم نے انہیں حرہ کے پاس پکڑا اور رجم کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر لگی تو آپ نے فرمایا تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا۔ شاید وہ توبہ کرتا اور اللہ اس کا قصور معاف کر دیتا۔ اس کو ابوداؤد نے روایت کیا اور حاکم اور ترمذی نے صحیح کہا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اقرار کرنے والے اگر رجم کے وقت بھاگے تو اس سے رجم ساقط ہو جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin 'Abdullah said: I was among the ones who participated in stoning him and we stoned him at the Musalla. When the stones troubled him, he fled, but we over took him at Al-Harra and stoned him to death.