کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : بلاط میں رجم کرنا
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: The Rajm at the Balat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6819.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک یہودی مرد اور یہودی عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا: ”تم اپنی کتاب (تورات) میں اس کی سزا کیا پاتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہمارے علماء نے اس جرم کی سزا چہرے کو کالا کرنا اور گدھے پر الٹا سوار کرانا کی تجویز رکھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! انہیں تورات لانے کا کہیں۔ تورات لائی گئی تو ان میں سے ایک شخص نے آیت رجم پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس کے آگے پیچھے کی آیات پڑھنے لگا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اسے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ، کیا دیکھتے ہیں کہ آیت رجم اس کے ہاتھ کے نیچے تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کر دیا گیا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: انہیں بلاط کے پاس رجم کیا گیا تھا۔ میں نے یہودی آشنا کو دیکھا کہ وہ اپنی داشتہ کو بچانے کے لیے اس پر جھک جھک پڑتا تھا۔
تشریح:
(1) مسجد نبوی کے دروازے کے سامنے بازار تک ایک میدانی علاقہ تھا جس پر پتھر وغیرہ بچھے ہوئے تھے۔ اس جگہ کا نام بلاط تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ رجم کی سزا دینے کے لیے کوئی خاص جگہ مقرر نہ تھی بلکہ زانی کو کبھی عید گاہ میں رجم کیا جاتا اور کبھی مقام بلاط میں اسے سنگسار کرکے ختم کر دیا جاتا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ سنگسار کرنے کے لیے گڑھا کھودنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے بغیر بھی رجم کیا جا سکتا ہے کیونکہ مقام بلاط میں گڑھا کھودنا ممکن نہ تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسجد اور اس کے آس پاس کا حکم ایک جیسا نہیں ہے کیونکہ بلاط مسجد کے قریب جگہ تھی اور اس کا حکم مسجد کا نہیں، جبکہ اس مقام پر رجم کیا اور مسجد میں رجم نہیں کیا جا سکتا۔ (2) بعض اہل علم نے بلاط سے مراد وہ پتھر لیے ہیں جن سے زانی کو سنگسار اور رجم کیا جاتا ہے، یہ معنی بعید از عقل ہیں کیونکہ حدیث کے آخر میں ہے کہ یہودی جوڑے کو بلاط کے پاس رجم کیا گیا تھا۔ بہرحال اس سے مراد پتھر نہیں بلکہ وہ مقام ہے جہاں پتھر بچھے ہوئے تھے۔ (فتح الباري:157/12)
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک یہودی مرد اور یہودی عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا: ”تم اپنی کتاب (تورات) میں اس کی سزا کیا پاتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہمارے علماء نے اس جرم کی سزا چہرے کو کالا کرنا اور گدھے پر الٹا سوار کرانا کی تجویز رکھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! انہیں تورات لانے کا کہیں۔ تورات لائی گئی تو ان میں سے ایک شخص نے آیت رجم پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس کے آگے پیچھے کی آیات پڑھنے لگا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اسے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ، کیا دیکھتے ہیں کہ آیت رجم اس کے ہاتھ کے نیچے تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کر دیا گیا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: انہیں بلاط کے پاس رجم کیا گیا تھا۔ میں نے یہودی آشنا کو دیکھا کہ وہ اپنی داشتہ کو بچانے کے لیے اس پر جھک جھک پڑتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مسجد نبوی کے دروازے کے سامنے بازار تک ایک میدانی علاقہ تھا جس پر پتھر وغیرہ بچھے ہوئے تھے۔ اس جگہ کا نام بلاط تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ رجم کی سزا دینے کے لیے کوئی خاص جگہ مقرر نہ تھی بلکہ زانی کو کبھی عید گاہ میں رجم کیا جاتا اور کبھی مقام بلاط میں اسے سنگسار کرکے ختم کر دیا جاتا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ سنگسار کرنے کے لیے گڑھا کھودنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے بغیر بھی رجم کیا جا سکتا ہے کیونکہ مقام بلاط میں گڑھا کھودنا ممکن نہ تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسجد اور اس کے آس پاس کا حکم ایک جیسا نہیں ہے کیونکہ بلاط مسجد کے قریب جگہ تھی اور اس کا حکم مسجد کا نہیں، جبکہ اس مقام پر رجم کیا اور مسجد میں رجم نہیں کیا جا سکتا۔ (2) بعض اہل علم نے بلاط سے مراد وہ پتھر لیے ہیں جن سے زانی کو سنگسار اور رجم کیا جاتا ہے، یہ معنی بعید از عقل ہیں کیونکہ حدیث کے آخر میں ہے کہ یہودی جوڑے کو بلاط کے پاس رجم کیا گیا تھا۔ بہرحال اس سے مراد پتھر نہیں بلکہ وہ مقام ہے جہاں پتھر بچھے ہوئے تھے۔ (فتح الباري:157/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو لایا گیا، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمہاری کتاب تورات میں اس کی سزا کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے علماء نے (اس کی سزا) چہرہ کو سیاہ کرنا اور گدھے پر الٹا سوار کرنا تجویز کی ہوئی ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا یا رسول اللہ! ان سے توریت منگوائے۔ جب توریت لائی گئی تو ان میں سے ایک نے رجم والی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ لیا اور اس سے آگے اور پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ(اور جب اس نے اپنا ہاتھ ہٹایا تو) آیت رجم اس کے ہاتھ کے نیچے تھی۔ آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کے متعلق حکم دیا اور انہیں رجم کر دیا گیا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ انہیں بلاط (مسجد نبوی کے قریب ایک جگہ) میں رجم کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ یہودی عورت کو مرد بچانے کے لیے اس پر جھک جھک پڑتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ مسلم اسٹیٹ میں یہودیوں اور عیسائیوں کے فیصلے ان کی شریعت کے مطابق کئے جائیں گے بشرطیکہ اسلام ہی کے موافق ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : A Jew and a Jewess were brought to Allah's Apostle (ﷺ) on a charge of committing an illegal sexual intercourse. The Prophet (ﷺ) asked them. "What is the legal punishment (for this sin) in your Book (Torah)?" They replied, "Our priests have innovated the punishment of blackening the faces with charcoal and Tajbiya." 'Abdullah bin Salam said, "O Allah's Apostle, tell them to bring the Torah." The Torah was brought, and then one of the Jews put his hand over the Divine Verse of the Rajam (stoning to death) and started reading what preceded and what followed it. On that, Ibn Salam said to the Jew, "Lift up your hand." Behold! The Divine Verse of the Rajam was under his hand. So Allah's Apostle (ﷺ) ordered that the two (sinners) be stoned to death, and so they were stoned. Ibn 'Umar (RA) added: So both of them were stoned at the Balat and I saw the Jew sheltering the Jewess.