کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : جس نے کوئی ایسا گناہ کیا جس پر حد نہیں( مثلاً اجنبی عورت کو بوسہ دیا یا اس سے مساس کیا)اور پھراس کی خبر امام کو دی تو اگر اس نے توبہ کرلی اور فتویٰ پوچھنے آیا تو اسے اب توبہ کے بعد کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: If somebody commits a sin less than the legal punishment and informs the ruler, no punishment is to be inflicted on him after his repentance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عطاء نے کہا کہ ایسی صورت میں نبی کریم ﷺنے اسے کوئی سزا نہیں دی تھی۔ ابن جریج نے کہا کہ آنحضرت ﷺنے اس شخص کو کوئی سزا نہیں دی تھی جنہوں نے رمضان میں بیوی سے صحبت کرلی تھی۔ اسی طرح حضرت عمر ؓنے( حالت احرام میں) ہرن کا شکار کرنے والے کو سزا نہیں دی اور اس باب میں ابوعثمان کی روایت حضرت ابن مسعود ؓسے بحوالہ نبی کریم ﷺ مروی ہے۔یہ احکام امام وقت کی رائے اور جرائم کی نوعیتوں پر موقوف ہیں جو حدی جرائم ہیں۔ وہ اپنے قانون کے اندر ہی فیصل ہوں گے۔
6822.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد نبوی میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں تو جل بھن گیا ہوں۔ ”آپ نے فرمایا: کیا بات ہے؟“ اس نے کہا میں نے رمضان میں جماع کر لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(اس کو تلافی کے لیے) صدقہ کر۔“ اس نے کہا میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ وہ بیٹھ گیا۔ اس دوران میں ایک آدمی اپنا گدھا ہانکتا ہوا آیا اس کے پاس غلہ تھا۔ راوی حدیث عبدالرحمن نے کہا: مجھے معلوم نہیں اس پر کون سا غلہ تھا۔ ۔ وہ شخص نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”جلنے والا کہاں ہے؟“ اس نے کہا: میں ادھر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔“ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں؟ میرے اہل وعیال کے پاس کھانا نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”چلو تم ہی کھا لو۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: پہلی حدیث (حدیث ابو ہریرہ) زیادہ واضح ہے اس میں ہے: ”اپنے اہل و عیال کو کھلا دو۔“
تشریح:
(1) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے رمضان المبارک میں بحالت روزہ اپنی بیوی سے جماع کیا تھا۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ماہ صیام کی بے حرمتی ہے لیکن اس پر کوئی حد لازم نہیں ہوتی بلکہ اس گناہ کی تلافی کے لیے کفارہ دینا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کفارہ ادا کرنے کے متعلق کہا، اس کے علاوہ اسے مزید کوئی سزا نہیں دی۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ واقعہ دو صحابہ سے بیان کیا ہے۔ پہلی حدیث میں زیادہ وضاحت ہے اگرچہ پیش کردہ حدیث میں وہ الفاظ نہیں ہیں جس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مدعا ثابت ہو سکے، تاہم ایک دوسری روایت میں ہے کہ تم یہ کھانا اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1936)
عطاء نے کہا کہ ایسی صورت میں نبی کریم ﷺنے اسے کوئی سزا نہیں دی تھی۔ ابن جریج نے کہا کہ آنحضرت ﷺنے اس شخص کو کوئی سزا نہیں دی تھی جنہوں نے رمضان میں بیوی سے صحبت کرلی تھی۔ اسی طرح حضرت عمر ؓنے( حالت احرام میں) ہرن کا شکار کرنے والے کو سزا نہیں دی اور اس باب میں ابوعثمان کی روایت حضرت ابن مسعود ؓسے بحوالہ نبی کریم ﷺ مروی ہے۔یہ احکام امام وقت کی رائے اور جرائم کی نوعیتوں پر موقوف ہیں جو حدی جرائم ہیں۔ وہ اپنے قانون کے اندر ہی فیصل ہوں گے۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد نبوی میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں تو جل بھن گیا ہوں۔ ”آپ نے فرمایا: کیا بات ہے؟“ اس نے کہا میں نے رمضان میں جماع کر لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(اس کو تلافی کے لیے) صدقہ کر۔“ اس نے کہا میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ وہ بیٹھ گیا۔ اس دوران میں ایک آدمی اپنا گدھا ہانکتا ہوا آیا اس کے پاس غلہ تھا۔ راوی حدیث عبدالرحمن نے کہا: مجھے معلوم نہیں اس پر کون سا غلہ تھا۔ ۔ وہ شخص نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”جلنے والا کہاں ہے؟“ اس نے کہا: میں ادھر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔“ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں؟ میرے اہل وعیال کے پاس کھانا نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”چلو تم ہی کھا لو۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: پہلی حدیث (حدیث ابو ہریرہ) زیادہ واضح ہے اس میں ہے: ”اپنے اہل و عیال کو کھلا دو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے رمضان المبارک میں بحالت روزہ اپنی بیوی سے جماع کیا تھا۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ماہ صیام کی بے حرمتی ہے لیکن اس پر کوئی حد لازم نہیں ہوتی بلکہ اس گناہ کی تلافی کے لیے کفارہ دینا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کفارہ ادا کرنے کے متعلق کہا، اس کے علاوہ اسے مزید کوئی سزا نہیں دی۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ واقعہ دو صحابہ سے بیان کیا ہے۔ پہلی حدیث میں زیادہ وضاحت ہے اگرچہ پیش کردہ حدیث میں وہ الفاظ نہیں ہیں جس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مدعا ثابت ہو سکے، تاہم ایک دوسری روایت میں ہے کہ تم یہ کھانا اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1936)
ترجمۃ الباب:
حضرت عطاء نے کہا: نبی ﷺنے ایسی صورت میں کوئی سزا نہیں دی تھی۔ ابن جریج نے کہا: آپ ﷺ نے اس شخص کو کوئی سزا نہیں دی جس نے بحالت روزہ رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بھی حالت احرام میں ہرن شکار کرنے والے کو کوئی سزا نہیں دی تھی۔ اس مسئلے میں ابو عثمان نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکے حوالے سے نبی ﷺسے ایک روایت بھی بیان کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
اور لیث نے بیان کیا، ان سے عمرو بن الحارث نے، ان سے عبدالرحمن بن القاسم نے، ان سے محمد بن جعفر بن زبیر نے، ان سے عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ ایک صاحب نبی کریم ﷺ کے پاس مسجد میں آئے اور عرض کیا میں تو دوزخ کا مستحق ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کیا بات ہوئی؟ کہا کہ میں نے اپنی بیوی سے رمضان میں جماع کر لیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے کہا کہ پھر صدقہ کر۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ پھر وہ بیٹھ گیا اور اس کے بعد ایک صاحب گدھا ہانکتے لائے جس پر کھانے کی چیز رکھی تھی۔ عبدالرحمن نے بیان کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ (دوسری روایت میں یوں ہے کہ کھجور لدی ہوئی تھی) اسے آنحضرت ﷺ کے پاس لایا جا رہا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ آگ میں جلنے والے صاحب کہاں ہیں؟ وہ صاحب بولے کہ میں حاضر ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے لے اور صدقہ کر دے۔ انہوں نے پوچھا کیا اپنے سے زیادہ محتاج کو دوں؟ میرے گھر والوں کے لیے تو خود کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم ہی کھا لو۔ حضرت عبداللہ امام بخاری نے کہا کہ پہلی حدیث زیادہ واضح ہے جس میں أطعم أهلك کے الفاظ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A man came to the Prophet (ﷺ) in the mosque and said, "I am burnt (ruined)!" The Prophet (ﷺ) asked him, "With what (what have you done)?" He said, "I have had sexual relation with my wife in the month of Ramadan (while fasting)." The Prophet (ﷺ) said to him, "Give in charity." He said, "I have nothing." The man sat down, and in the meantime there came a person driving a donkey carrying food to the Prophet (ﷺ) ..... (The sub-narrator, 'Abdur Rahman added: I do not know what kind of food it was). On that the Prophet (ﷺ) said, "Where is the burnt person?" The man said, "Here I am." The Prophet (ﷺ) said to him, "Take this (food) and give it in charity (to someone)." The man said, "To a poorer person than l? My family has nothing to eat." Then the Prophet (ﷺ) said to him, "Then eat it yourselves."