کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : جب کوئی شخص حدی گناہ کا اقرار غیرواضح طور پر کرے تو کیا امام کو اس کی پردہ پوشی کرنی چاہئے
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: If a person confesses but does not specify the sin can the ruler screen it for him?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6823.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کے پاس تھا کہ آپ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر کہا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو چکی ہے، آپ اسے مجھ پر جاری فرمائیں۔ آپ ﷺ نے اس کے متعلق مزید پوچھ گچھ نہیں کی۔ پھر نماز کا وقت ہو گیا تو اس شخص نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نبی ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ شخص آپ کے پاس گیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے، آپ کتاب اللہ کے مطابق اسے مجھ پر جاری کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟“ اس نے کہا: ہاں پڑھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالٰی نے تیرا گناہ معاف کر دیا ہے، یا فرمایا: ”تیری حد معاف کر دی ہے۔“
تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ اس واقعے کے علاوہ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ آدمی نے کسی عورت سے بوس وکنار کیا تھا اور اس واقعے میں ہے کہ اس نے کوئی قابل حد عمل کیا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ دو واقعات ہیں اور انھوں نے ان واقعات سے دو الگ الگ حکم ثابت کیے ہیں۔ (2) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مبہم طریقے سے حد کا اعتراف کرتا ہے تو قاضی کو چاہیے کہ اس پر پردہ ڈالے، اس کی کرید نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا تجسس ہے جس کے متعلق قرآن نے حکم امتناعی جاری کیا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس واقعے کی مزید تفصیل ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم گھر سے نماز کے ارادے سے نکلے تھے تو تم نے اچھی طرح وضو کیا تھا، پھر تم نے ہمارے ساتھ نماز باجماعت ادا کی تو ان کاموں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے تمھاری حد یا تمھارے گناہ کو معاف کر دیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، التوبة، حدیث:7007(2765) امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق لوگوں کے تین موقف لکھے ہیں: ٭جرم کے واضح اعتراف اور غیر مبہم تعین کے بعد واجب ہوتی ہے جبکہ اقرار کرنے والا بار بار اس کا اصرار بھی کرے۔ ٭مذکورہ واقعہ صرف اسی شخص کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعۂ وحی اس سے مطلع کیا گیا تھا۔ ٭حد کا عمل کرنے کے بعد (معاملہ عدالت میں جانے سے پہلے) اگر توبہ کرلی جائے تو اس کی بدولت حد ساقط ہو جاتی ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس آخری موقف کو ترجیح دی ہے۔ (فتح الباري:165/12) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اگر کوئی غیر واضح بیان دے کہ میں نے حد والا جرم کیا ہے تو امام اس کی پردہ پوشی کر سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف پردہ پوشی کی بلکہ گناہوں کی بخشش کی بشارت بھی دی۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کے پاس تھا کہ آپ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر کہا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو چکی ہے، آپ اسے مجھ پر جاری فرمائیں۔ آپ ﷺ نے اس کے متعلق مزید پوچھ گچھ نہیں کی۔ پھر نماز کا وقت ہو گیا تو اس شخص نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نبی ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ شخص آپ کے پاس گیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے، آپ کتاب اللہ کے مطابق اسے مجھ پر جاری کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟“ اس نے کہا: ہاں پڑھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالٰی نے تیرا گناہ معاف کر دیا ہے، یا فرمایا: ”تیری حد معاف کر دی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ اس واقعے کے علاوہ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ آدمی نے کسی عورت سے بوس وکنار کیا تھا اور اس واقعے میں ہے کہ اس نے کوئی قابل حد عمل کیا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ دو واقعات ہیں اور انھوں نے ان واقعات سے دو الگ الگ حکم ثابت کیے ہیں۔ (2) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مبہم طریقے سے حد کا اعتراف کرتا ہے تو قاضی کو چاہیے کہ اس پر پردہ ڈالے، اس کی کرید نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا تجسس ہے جس کے متعلق قرآن نے حکم امتناعی جاری کیا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس واقعے کی مزید تفصیل ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم گھر سے نماز کے ارادے سے نکلے تھے تو تم نے اچھی طرح وضو کیا تھا، پھر تم نے ہمارے ساتھ نماز باجماعت ادا کی تو ان کاموں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے تمھاری حد یا تمھارے گناہ کو معاف کر دیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، التوبة، حدیث:7007(2765) امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق لوگوں کے تین موقف لکھے ہیں: ٭جرم کے واضح اعتراف اور غیر مبہم تعین کے بعد واجب ہوتی ہے جبکہ اقرار کرنے والا بار بار اس کا اصرار بھی کرے۔ ٭مذکورہ واقعہ صرف اسی شخص کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعۂ وحی اس سے مطلع کیا گیا تھا۔ ٭حد کا عمل کرنے کے بعد (معاملہ عدالت میں جانے سے پہلے) اگر توبہ کرلی جائے تو اس کی بدولت حد ساقط ہو جاتی ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس آخری موقف کو ترجیح دی ہے۔ (فتح الباري:165/12) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اگر کوئی غیر واضح بیان دے کہ میں نے حد والا جرم کیا ہے تو امام اس کی پردہ پوشی کر سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف پردہ پوشی کی بلکہ گناہوں کی بخشش کی بشارت بھی دی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبدالقدوس بن محمد نے بیان کیا، ان سے عمروبن عاصم کلابی نے بیان کیا، ان سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا، ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس تھا کہ ایک صاحب کعب بن عمرو آئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ بیان کیا آنحضرت ﷺ نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ بیان کیا کہ پھر نماز کا وقت ہوگیا اور ان صاحب نے بھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آنحضور نماز پڑھ چکے تو وہ پھر آنحضرت ﷺ کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا۔ کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کر دیا۔ یا فرمایا کہ تیری غلطی یا حد (معاف کر دی)۔
حدیث حاشیہ:
غیرواضح اقرار پر آپ نے اس کو یہ بشارت پیش فرمائی آج بھی یہ بشارت قائم ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے سامنے گول مول بیان کرے کہ میں نے حدی جرم کیا ہے تو امام اس کی پردہ پوشی کر سکتا ہے۔ تشریح: بعضوں نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ اگر کوئی حدی گناہ کر کے توبہ کرتا ہوا امام یا حاکم کے سامنے آئے تو اس پر سے حد ساقط ہو جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): While I was with the Prophet (ﷺ) a man came and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have committed a legally punishable sin; please inflict the legal punishment on me'.' The Prophet (ﷺ) did not ask him what he had done. Then the time for the prayer became due and the man offered prayer along with the Prophet (ﷺ) , and when the Prophet (ﷺ) had finished his prayer, the man again got up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have committed a legally punishable sin; please inflict the punishment on me according to Allah's Laws." The Prophet (ﷺ) said, "Haven't you prayed with us?' He said, "Yes." The Prophet (ﷺ) said, "Allah has forgiven your sin." or said, "....your legally punishable sin."