کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : کیا امام زنا کا اقرار کرنے والے سے یہ کہے کہ شایدتونے چھوا ہو یا آنکھ سے اشارہ کیا ہو
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: ‘Can’t be that you have only touched the lady or winked at her?”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6824.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب حضرت ماعز بن مالک ؓ نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”شاید تو نے بوسہ لیا ہوگا یا اشارہ کیا ہوگا یا نظر بازی کی ہوگی؟“ انہوں نے کہا: اللہ ککے رسول! نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو نے اس سے جماع کیا ہے؟“ آپ نے اس مرتبہ اشارے یا کنائے سے کام نہیں لیا۔ روای کہتے ہیں: پھر آپ نے انہیں سنگسار کرنے کا حکم دیا۔
تشریح:
معلوم ہوا کہ قاضی کے لیے زنا کا اقرار کرنے والے کو تلقین کرنا جائز ہے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکے کیونکہ زنا کا اطلاق نظر بازی اور بوس وکنارپر بھی ہوتا ہے، پھر دو ٹوک الفاظ میں زنا کرنے کی وضاحت کرائے کیونکہ اشاروں کنایوں سے حدود ثابت نہیں ہوتیں، چنانچہ دیگر احادیث میں ہے کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نے جب اپنے متعلق چار دفعہ اقرار کیا کہ میں نے زنا کیا ہے، مجھ پر حد قائم کریں تو آپ نے فرمایا: ’’تو دیوانہ تو نہیں؟‘‘ پھر آپ نے اس کی قوم سے دریافت فرمایا: ’’اسے جنون کا مرض تو نہیں ہے؟‘‘ پھر حاضرین سے پوچھا: ’’اس نے شراب تو نہیں پی؟‘‘ انھوں نے منہ سونگھ کر بتایا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’شاید تو نے بوس وکنار سے کام لیا ہو یا تونے نظر بازی کی ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا: ’’کیا تو اس کے ساتھ لیٹا تھا؟‘‘ کہا: ہاں۔ فرمایا: کیا تو نے اس سے مباشرت کی؟‘‘عرض کی: ہاں۔ فرمایا: ’’کیا تو نے اس سے جماع کیا؟‘‘ اس نے عرض کی: ہاں۔ اس روایت میں ہے کہ آپ نے جماع کے لیے دو ٹوک واضح اور صریح الفاظ استعمال فرمائے، کسی قسم کا اشارہ یا کنایہ نہ کیا۔ آپ نے مزید فرمایا: ’’کیا تونے دخول کیا تھا؟‘‘ عرض کی: ہاں۔ فرمایا: ’’جس طرح سرمچو، سرمے دانی میں اور ڈول، کنویں میں غائب ہو جاتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ آخر میں آپ نے فرمایا: ’’تجھے معلوم ہے زنا کسے کہتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا: میں نے اس سے وہی کچھ کیا ہے جو ایک خاوند اپنی بیوی سے کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اب تو کیا چاہتا ہے؟‘‘ اس نے عرض کی: آپ مجھے پاک کر دیں۔اس طرح کے بہت سے مختلف قسم کے سوال کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ (فتح الباري:152/12)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب حضرت ماعز بن مالک ؓ نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”شاید تو نے بوسہ لیا ہوگا یا اشارہ کیا ہوگا یا نظر بازی کی ہوگی؟“ انہوں نے کہا: اللہ ککے رسول! نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو نے اس سے جماع کیا ہے؟“ آپ نے اس مرتبہ اشارے یا کنائے سے کام نہیں لیا۔ روای کہتے ہیں: پھر آپ نے انہیں سنگسار کرنے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قاضی کے لیے زنا کا اقرار کرنے والے کو تلقین کرنا جائز ہے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکے کیونکہ زنا کا اطلاق نظر بازی اور بوس وکنارپر بھی ہوتا ہے، پھر دو ٹوک الفاظ میں زنا کرنے کی وضاحت کرائے کیونکہ اشاروں کنایوں سے حدود ثابت نہیں ہوتیں، چنانچہ دیگر احادیث میں ہے کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نے جب اپنے متعلق چار دفعہ اقرار کیا کہ میں نے زنا کیا ہے، مجھ پر حد قائم کریں تو آپ نے فرمایا: ’’تو دیوانہ تو نہیں؟‘‘ پھر آپ نے اس کی قوم سے دریافت فرمایا: ’’اسے جنون کا مرض تو نہیں ہے؟‘‘ پھر حاضرین سے پوچھا: ’’اس نے شراب تو نہیں پی؟‘‘ انھوں نے منہ سونگھ کر بتایا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’شاید تو نے بوس وکنار سے کام لیا ہو یا تونے نظر بازی کی ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا: ’’کیا تو اس کے ساتھ لیٹا تھا؟‘‘ کہا: ہاں۔ فرمایا: کیا تو نے اس سے مباشرت کی؟‘‘عرض کی: ہاں۔ فرمایا: ’’کیا تو نے اس سے جماع کیا؟‘‘ اس نے عرض کی: ہاں۔ اس روایت میں ہے کہ آپ نے جماع کے لیے دو ٹوک واضح اور صریح الفاظ استعمال فرمائے، کسی قسم کا اشارہ یا کنایہ نہ کیا۔ آپ نے مزید فرمایا: ’’کیا تونے دخول کیا تھا؟‘‘ عرض کی: ہاں۔ فرمایا: ’’جس طرح سرمچو، سرمے دانی میں اور ڈول، کنویں میں غائب ہو جاتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ آخر میں آپ نے فرمایا: ’’تجھے معلوم ہے زنا کسے کہتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا: میں نے اس سے وہی کچھ کیا ہے جو ایک خاوند اپنی بیوی سے کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اب تو کیا چاہتا ہے؟‘‘ اس نے عرض کی: آپ مجھے پاک کر دیں۔اس طرح کے بہت سے مختلف قسم کے سوال کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ (فتح الباري:152/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن الجعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے کہا کہ میں نے یعلیٰ بن حکیم سے سنا، انہوں نے عکرمہ سے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ جب حضرت ماعز بن مالک نبی کریم ﷺ کے پاس آئے تو آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا غالباً تو نے بوسہ دیا ہوگا یا اشارہ کیا ہوگا یا دیکھا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کیا پھر تو نے ہم بستری ہی کرلی ہے؟ اس مرتبہ آپ نے کنایہ سے کام نہیں لیا۔ بیان کیا کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے انہیں رجم کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : When Ma'iz bin Malik came to the Prophet (ﷺ) (in order to confess), the Prophet (ﷺ) said to him, "Probably you have only kissed (the lady), or winked, or looked at her?" He said, "No, O Allah's Apostle! (ﷺ) " The Prophet (ﷺ) said, using no euphemism, "Did you have sexual intercourse with her?" The narrator added: At that, (i.e. after his confession) the Prophet (ﷺ) ordered that he be stoned (to death).