کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : زنا کا اقرار کرنا
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: To confess the guilt of illegal sexual intercourse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6827.
حضرت ابو ہریرہ اور زید بن خالد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے پاس تھے کہ اس دوران میں ایک آدمی کھڑا ہوکر کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں۔ پھر اس کا مخالف کھڑا ہوا۔ وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا۔ اس نے بھی کہا: واقعی آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں اور مجھے گفتگو کی اجازت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بات کرو“ اس نے کہا: میرا بیٹا اس شخص کا ملازم تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا۔ میں نے اس کی طرف سے سو بکری اور ایک خادم بطور فدیہ دیا۔ پھر میں نے اہل علم حضرات سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی کی سزا واجب ہے۔ اور اس کی بیوی کو سنگسار کرنا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق ہی فیصلہ کروں گا، سو بکریاں اور خادم تجھے واپس ملیں گے، نیز تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے اسے جلا وطن کیا جائے گا۔ اے انیس! کل صبح تم اس کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے سنگسار کر دو۔ چنانچہ وہ صبح کے وقت اس عورت کے پاس گئے تو اس نے زنا کا اعتراف کر لیا تو انہوں نے اسے رجم کر دیا۔ علی بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے سفیان بن عینیہ سے پوچھا: اس شخص نے یہ نہیں کہا کہ مجھے اہل علم نے بتایا ہے کہ میرے بیٹے پر رجم ہے۔ انہوں نے کہا: مجھے اس کے متعلق شک ہے کہ زہری سے میں نے سنا ہے یا نہیں، اس لیے میں اسے کبھی خاموشی اختیار کرتا ہوں۔
تشریح:
(1) جس لڑکے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو کوڑے لگانے اور جلاوطن کرنے کا فیصلہ فرمایا وہ اپنے والد کے ہمراہ وہاں موجود تھا، چنانچہ والد نے کہا کہ میرے اس بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے اور والد کے کلام کرتے وقت اس کا خاموش رہنا اپنے جرم کا اعتراف کرنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غیر شادی شدہ ہونے کا بھی علم تھا کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ اس کے والد نے اس کے متعلق وضاحت کی تھی کہ وہ شادی شدہ نہیں ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ اسلم کے ایک شخص کو اس عورت کے پاس بھیجا کیونکہ اس آدمی نے اس عورت پر زنا کی تہمت لگائی تھی، لہٰذا اسے حق پہنچتا ہے کہ تہمت لگانے والے پر حد کا مطالبہ کرے یا اسے معاف کردے یا زنا کا اعتراف کرے۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حد زنا کے لیے مطلق اقرار کافی ہے، اس کے لیے تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔ (فتح الباري:172/12) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پردہ دار خاتون جو باہر نکلنے کی عادی نہیں اسے حاکم کی مجلس میں حاضر ہونے کی تکلیف نہ دی جائے بلکہ اس کے پاس کوئی آدمی بھیج دیا جائے جو حالات کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرے۔ واللہ أعلم
حضرت ابو ہریرہ اور زید بن خالد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے پاس تھے کہ اس دوران میں ایک آدمی کھڑا ہوکر کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں۔ پھر اس کا مخالف کھڑا ہوا۔ وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا۔ اس نے بھی کہا: واقعی آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں اور مجھے گفتگو کی اجازت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بات کرو“ اس نے کہا: میرا بیٹا اس شخص کا ملازم تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا۔ میں نے اس کی طرف سے سو بکری اور ایک خادم بطور فدیہ دیا۔ پھر میں نے اہل علم حضرات سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی کی سزا واجب ہے۔ اور اس کی بیوی کو سنگسار کرنا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق ہی فیصلہ کروں گا، سو بکریاں اور خادم تجھے واپس ملیں گے، نیز تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے اسے جلا وطن کیا جائے گا۔ اے انیس! کل صبح تم اس کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے سنگسار کر دو۔ چنانچہ وہ صبح کے وقت اس عورت کے پاس گئے تو اس نے زنا کا اعتراف کر لیا تو انہوں نے اسے رجم کر دیا۔ علی بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے سفیان بن عینیہ سے پوچھا: اس شخص نے یہ نہیں کہا کہ مجھے اہل علم نے بتایا ہے کہ میرے بیٹے پر رجم ہے۔ انہوں نے کہا: مجھے اس کے متعلق شک ہے کہ زہری سے میں نے سنا ہے یا نہیں، اس لیے میں اسے کبھی خاموشی اختیار کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) جس لڑکے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو کوڑے لگانے اور جلاوطن کرنے کا فیصلہ فرمایا وہ اپنے والد کے ہمراہ وہاں موجود تھا، چنانچہ والد نے کہا کہ میرے اس بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے اور والد کے کلام کرتے وقت اس کا خاموش رہنا اپنے جرم کا اعتراف کرنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غیر شادی شدہ ہونے کا بھی علم تھا کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ اس کے والد نے اس کے متعلق وضاحت کی تھی کہ وہ شادی شدہ نہیں ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ اسلم کے ایک شخص کو اس عورت کے پاس بھیجا کیونکہ اس آدمی نے اس عورت پر زنا کی تہمت لگائی تھی، لہٰذا اسے حق پہنچتا ہے کہ تہمت لگانے والے پر حد کا مطالبہ کرے یا اسے معاف کردے یا زنا کا اعتراف کرے۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حد زنا کے لیے مطلق اقرار کافی ہے، اس کے لیے تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔ (فتح الباري:172/12) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پردہ دار خاتون جو باہر نکلنے کی عادی نہیں اسے حاکم کی مجلس میں حاضر ہونے کی تکلیف نہ دی جائے بلکہ اس کے پاس کوئی آدمی بھیج دیا جائے جو حالات کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم نے اسے زہری سے (سن کر) یاد کیا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ نے خبر دی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ اور زید بن خالد ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس تھے تو ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ کریں۔ اس پر اس کا مقابل بھی کھڑا ہوگیا اور وہ پہلے سے زیادہ سمجھدار تھا، پھر اس نے کہا کہ واقعی آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے ہی فیصلہ کیجئے اور مجھے بھی گفتگو کی اجازت دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کہو۔ اس شخص نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے یہاں مزدوری پر کام کرتا تھا پھر اس نے اس کی عورت سے زنا کر لیا، میں نے اس کے فدیہ میں اسے سو بکری اور ایک خادم دیا، پھر میں نے بعض علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال شہر بدر ہونے کی حد واجب ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ہوں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے اسے جلاوطن کیا جائے گا اور اے انیس! صبح کو اس کی عورت کے پاس جانا اگر وہ (زنا کا) اقرار کرلے تو اسے رجم کر دو۔ چنانچہ وہ صبح کو اس کے پاس گئے اور اس نے اقرار کر لیا اورانہوں نے رجم کر دیا۔ علی بن عبداللہ مدینی کہتے ہیں میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا جس شخص کا بیٹا تھا اس نے یوں نہیں کہا کہ ان عالموں نے مجھ سے بیان کیا کہ تیرے بیٹے پر رجم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو اس میں شک ہے کہ زہری سے میں نے سنا ہے یا نہیں، اس لیے میں نے اس کو کبھی بیان کیا کبھی نہیں بیان کیا بلکہ سکوت کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) and Zaid bin Khalid (RA) : While we were with the Prophet (ﷺ) , a man stood up and said (to the Prophet (ﷺ) ), "I beseech you by Allah, that you should judge us according to Allah's Laws." Then the man's opponent who was wiser than him, got up saying (to Allah's Apostle) (ﷺ) "Judge us according to Allah's Law and kindly allow me (to speak)." The Prophet (ﷺ) said, "'Speak." He said, "My son was a laborer working for this man and he committed an illegal sexual intercourse with his wife, and I gave one-hundred sheep and a slave as a ransom for my son's sin. Then I asked a learned man about this case and he informed me that my son should receive one hundred lashes and be exiled for one year, and the man's wife should be stoned to death." The Prophet (ﷺ) said, "By Him in Whose Hand my soul is, I will judge you according to the Laws of Allah. Your one-hundred sheep and the slave are to be returned to you, and your son has to receive one-hundred lashes and be exiled for one year. O Unais! Go to the wife of this man, and if she confesses, then stone her to death." Unais went to her and she confessed. He then stoned her to death.