کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : اس بیان میں کہ غیرشادی شدہ مرد و عورت کو کوڑے مارے جائیں
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: Unmarried should be flogged and exiled)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور دونوں کا دیس نکالا کردیا جائے جیسا کہ سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا” زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد پس تم ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ کے معاملہ میں ذرا شفقت نہ آنے پائے، اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخر کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور چاہئے کہ دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر رہے۔ یاد رکھو زنا کار مرد نکاح بھی کسی سے نہیں کرتا سوائے زناکار عورت یا مشترکہ عورت کے اور زناکار عورت کے ساتھ بھی کوئی نکاح نہیں کرتا سوائے زانی یا مشرک مرد کے اور اہل ایمان پر یہ حرام کردیاگیا ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے آیر ولاتاخذکم بہما رافۃ فی دین اﷲکی تفسیر میں کہا کہ ان کو حد لگانے میں رحم مت کرو۔
6833.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غیر شادی شدہ زانی کے متعلق فیصلہ کیا تھا اسے حد لگانے کے ساتھ ایک سال تک ملک بدر بھی کیا جائے۔
تشریح:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کنوارا مرد اور کنواری عورت جب زنا کریں تو ان کی سزا سوکوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے۔ لیکن کچھ لوگ جلا وطنی کی سزا کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں صرف سو کوڑوں کا ذکر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ جس ہستی کے ذریعے سے ہمیں قرآن پہنچا ہے، اسی نے زانی کو جلاوطنی کی سزا دی تھی۔ حدیث بھی قرآن کی طرح واجب العمل ہے۔ (2) جلاوطنی سے مراد ملک بدر کرنا نہیں بلکہ اتنے فاصلے پر بھیجنا ہے جسے شرعی اصطلاح میں سفر کہہ سکتے ہیں اور اس جلاوطنی کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ کم ازکم زانی جوڑے کے ملاپ کی راہ بند کر دی جائے اور اس کی امکانی صورتوں کو ختم کر دیا جائے اور یہ مقصد قید میں ڈالنے سے بھی پورا ہو سکتا ہے اور اگر کوئی ایسا خطرہ موجود نہ ہو تو قاضی جلاوطنی کی سزا کو وقتی طور پر موقوف بھی کر سکتا ہے لیکن سو کوڑوں کی سزا بہرحال قائم رہے گی، گویا سو کوڑے تو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حد ہے جسے ہر حال میں قائم رہنا چاہیے۔ واللہ أعلم (3) واضح رہے کہ کوڑا اس قدر سخت نہیں ہونا چاہیے کہ سو کوڑے پڑنے سے چمڑا ادھڑ جائے اور گوشت ننگا ہو جائے اور نہ اتنا نرم ہی ہو کہ اسے مجرم سزا ہی نہ خیال کرے۔اسی طرح جلاد کو بھی میانہ روی سے کام لینا چاہیے، نہ اس قدر زور سے مارے کہ گویا وہ اس سے انتقام لے رہا ہے، نہ وہ پیچھے سے دوڑ کر پورے زور سے کوڑے برسائے اور نہ بالکل آہستہ کوڑے مارے جائیں کہ مجرم کو تکلیف ہی محسوس نہ ہو، نیز کوڑے مارتے وقت چہرے اور شرمگاہ کو ضرور بچانا چاہیے۔ اگر مجرم کمزور ہو تو کوڑوں کی سزا متفرق طور پر بھی دی جا سکتی ہے اور بہت زیادہ کمزور ہوتو ایسا جھاڑو جس میں سو تنکے ہوں وہ ایک ہی دفعہ مار کر اس کی سزا پوری کر دی جائے، نیز اگر عورت حاملہ ہو یا نفاس میں ہو یا بچے کو دودھ پلاتی ہو تو سزا کو فراغت تک مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
اور دونوں کا دیس نکالا کردیا جائے جیسا کہ سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا” زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد پس تم ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ کے معاملہ میں ذرا شفقت نہ آنے پائے، اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخر کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور چاہئے کہ دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر رہے۔ یاد رکھو زنا کار مرد نکاح بھی کسی سے نہیں کرتا سوائے زناکار عورت یا مشترکہ عورت کے اور زناکار عورت کے ساتھ بھی کوئی نکاح نہیں کرتا سوائے زانی یا مشرک مرد کے اور اہل ایمان پر یہ حرام کردیاگیا ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے آیر ولاتاخذکم بہما رافۃ فی دین اﷲکی تفسیر میں کہا کہ ان کو حد لگانے میں رحم مت کرو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غیر شادی شدہ زانی کے متعلق فیصلہ کیا تھا اسے حد لگانے کے ساتھ ایک سال تک ملک بدر بھی کیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کنوارا مرد اور کنواری عورت جب زنا کریں تو ان کی سزا سوکوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے۔ لیکن کچھ لوگ جلا وطنی کی سزا کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں صرف سو کوڑوں کا ذکر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ جس ہستی کے ذریعے سے ہمیں قرآن پہنچا ہے، اسی نے زانی کو جلاوطنی کی سزا دی تھی۔ حدیث بھی قرآن کی طرح واجب العمل ہے۔ (2) جلاوطنی سے مراد ملک بدر کرنا نہیں بلکہ اتنے فاصلے پر بھیجنا ہے جسے شرعی اصطلاح میں سفر کہہ سکتے ہیں اور اس جلاوطنی کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ کم ازکم زانی جوڑے کے ملاپ کی راہ بند کر دی جائے اور اس کی امکانی صورتوں کو ختم کر دیا جائے اور یہ مقصد قید میں ڈالنے سے بھی پورا ہو سکتا ہے اور اگر کوئی ایسا خطرہ موجود نہ ہو تو قاضی جلاوطنی کی سزا کو وقتی طور پر موقوف بھی کر سکتا ہے لیکن سو کوڑوں کی سزا بہرحال قائم رہے گی، گویا سو کوڑے تو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حد ہے جسے ہر حال میں قائم رہنا چاہیے۔ واللہ أعلم (3) واضح رہے کہ کوڑا اس قدر سخت نہیں ہونا چاہیے کہ سو کوڑے پڑنے سے چمڑا ادھڑ جائے اور گوشت ننگا ہو جائے اور نہ اتنا نرم ہی ہو کہ اسے مجرم سزا ہی نہ خیال کرے۔اسی طرح جلاد کو بھی میانہ روی سے کام لینا چاہیے، نہ اس قدر زور سے مارے کہ گویا وہ اس سے انتقام لے رہا ہے، نہ وہ پیچھے سے دوڑ کر پورے زور سے کوڑے برسائے اور نہ بالکل آہستہ کوڑے مارے جائیں کہ مجرم کو تکلیف ہی محسوس نہ ہو، نیز کوڑے مارتے وقت چہرے اور شرمگاہ کو ضرور بچانا چاہیے۔ اگر مجرم کمزور ہو تو کوڑوں کی سزا متفرق طور پر بھی دی جا سکتی ہے اور بہت زیادہ کمزور ہوتو ایسا جھاڑو جس میں سو تنکے ہوں وہ ایک ہی دفعہ مار کر اس کی سزا پوری کر دی جائے، نیز اگر عورت حاملہ ہو یا نفاس میں ہو یا بچے کو دودھ پلاتی ہو تو سزا کو فراغت تک مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
”(ارشاد باری تعالٰی ہے:) زانی عورت ہو یا مرد، ان میں سے ہر ایک سو کوڑے لگاؤ اور اگر تم اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتے ہوتو اللہ کے دین کے معاملے میں تمہیں ان دونوں پر کبھی ترس نہیں آنا چاہیے۔“سفیان بن عینیہ نے رَأفَۃّ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا: حد قائم کرنے میں رحم نہ کرو۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں جس نے زنا کیا تھا اور وہ غیر شادی شدہ تھا حد قائم کرنے کے ساتھ ایک سال تک شہر باہر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) judged that the unmarried person who was guilty of illegal sexual intercourse be exiled for one year and receive the legal punishment (i.e., be flogged with one-hundred stripes) .