کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : ذمیوں کے احکام اور اگر شادی کے بعد انہوں نے زنا کیا اور امام کے سامنے پیش ہوئے تو اس کے احکام کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: The legal regulation for non-Muslims under the protection of a Muslim state)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6841.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس یہودی آئے اور انہوں نے ذکر کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور عورت نے زنا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: رجم کے متعلق تم اپنی کتاب میں کیا پاتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم انہیں ذلیل وخوار کرتے ہیں اور انہیں کوڑے لگائے جاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو کیونکہ تورات میں تو رجم کی سزا موجود ہے چنانچہ وہ تورات لے آئے۔ جب اسے کھولا تو ایک شخص نے رجم کی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس کا ماقبل اور مابعد پڑھ دیا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو دیکھا کہ اس میں آیت رجم موجود تھی۔ یہودیوں نے کہا: یا محمد! اس نے سچ کہا ہے۔ اس میں آیت رجم موجود ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں (زانی اور زانیہ) کے متعلق حکم دیا تو انہیں سنگسار کر دیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ مرد اپنی داشتہ کو پتھروں سے بچانے کے لیے اس پر جھکا پڑتا تھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب ذمی، اہل اسلام کی طرف رجوع کریں تو اہل اسلام اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سےتورات کا حکم اس لیے پوچھا تھا تاکہ انھیں الزام دے کر خاموش کرایا جائے۔ درج ذیل واقعے سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک یہودی نکلا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور اسے کوڑے مارے گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا اور اس سے پوچھا: ’’کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: ہاں، پھر آپ نے ان کے علماء میں سے ایک عالم کو بلایا اور اسے فرمایا: ’’میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی تھی! بتاؤ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، اور اگر آپ مجھے اللہ کی قسم نہ دیتے تو میں آپ کو صحیح صورت حال سے آگاہ نہ کرتا۔ بات یہ ہے کہ ہم تورات میں رجم کی سزا ہی پاتے ہیں مگر جب ہمارے شرفاء میں زنا کی کثرت ہوگئی تو جب ہم کسی شریف کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور کوئی کمزور ہمارے قابو آ جاتا تو اس پر حد جاری کر دیتے، پھر ہم نے آپس میں کہا کہ ہم ایسی سزا پر اتفاق کر لیں جسے شریف ورذیل سب پر نافذ کرسکیں تو ہم نے کوڑے مارنا اور منہ کالا کرنا نافذ کر دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! سب سے پہلے میں تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جبکہ ان لوگوں نے اسے مردہ کر دیا تھا۔‘‘ پھر آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ رجم کر دیا گیا، تب یہ آیت اتری: ’’اے رسول! آپ ان لوگوں سے غمزدہ نہ ہوں جو کفر میں دوڑ دھوپ کررہے ہیں......‘‘ (المائدة: 5: 41) یہودی کہا کرتے تھے کہ محمد کے پاس چلو، اگر وہ تمھیں منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کا حکم دے تو اسے قبول کرلو اور اگر رجم کرنے کا فتویٰ دے تو اسے اجتناب کرو۔ (صحیح مسلم، الحدود،حدیث:4440(1700) (2) قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہمیں اختیار ہے کہ یہودیوں کے جھگڑوں میں فیصلہ کریں یا نہ کریں لیکن اگر فیصلہ کریں تو عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بے لاگ فیصلہ کرنا ہوگا۔ واللہ أعلم
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس یہودی آئے اور انہوں نے ذکر کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور عورت نے زنا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: رجم کے متعلق تم اپنی کتاب میں کیا پاتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم انہیں ذلیل وخوار کرتے ہیں اور انہیں کوڑے لگائے جاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو کیونکہ تورات میں تو رجم کی سزا موجود ہے چنانچہ وہ تورات لے آئے۔ جب اسے کھولا تو ایک شخص نے رجم کی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس کا ماقبل اور مابعد پڑھ دیا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو دیکھا کہ اس میں آیت رجم موجود تھی۔ یہودیوں نے کہا: یا محمد! اس نے سچ کہا ہے۔ اس میں آیت رجم موجود ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں (زانی اور زانیہ) کے متعلق حکم دیا تو انہیں سنگسار کر دیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ مرد اپنی داشتہ کو پتھروں سے بچانے کے لیے اس پر جھکا پڑتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب ذمی، اہل اسلام کی طرف رجوع کریں تو اہل اسلام اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سےتورات کا حکم اس لیے پوچھا تھا تاکہ انھیں الزام دے کر خاموش کرایا جائے۔ درج ذیل واقعے سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک یہودی نکلا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور اسے کوڑے مارے گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا اور اس سے پوچھا: ’’کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: ہاں، پھر آپ نے ان کے علماء میں سے ایک عالم کو بلایا اور اسے فرمایا: ’’میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی تھی! بتاؤ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، اور اگر آپ مجھے اللہ کی قسم نہ دیتے تو میں آپ کو صحیح صورت حال سے آگاہ نہ کرتا۔ بات یہ ہے کہ ہم تورات میں رجم کی سزا ہی پاتے ہیں مگر جب ہمارے شرفاء میں زنا کی کثرت ہوگئی تو جب ہم کسی شریف کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور کوئی کمزور ہمارے قابو آ جاتا تو اس پر حد جاری کر دیتے، پھر ہم نے آپس میں کہا کہ ہم ایسی سزا پر اتفاق کر لیں جسے شریف ورذیل سب پر نافذ کرسکیں تو ہم نے کوڑے مارنا اور منہ کالا کرنا نافذ کر دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! سب سے پہلے میں تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جبکہ ان لوگوں نے اسے مردہ کر دیا تھا۔‘‘ پھر آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ رجم کر دیا گیا، تب یہ آیت اتری: ’’اے رسول! آپ ان لوگوں سے غمزدہ نہ ہوں جو کفر میں دوڑ دھوپ کررہے ہیں......‘‘ (المائدة: 5: 41) یہودی کہا کرتے تھے کہ محمد کے پاس چلو، اگر وہ تمھیں منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کا حکم دے تو اسے قبول کرلو اور اگر رجم کرنے کا فتویٰ دے تو اسے اجتناب کرو۔ (صحیح مسلم، الحدود،حدیث:4440(1700) (2) قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہمیں اختیار ہے کہ یہودیوں کے جھگڑوں میں فیصلہ کریں یا نہ کریں لیکن اگر فیصلہ کریں تو عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بے لاگ فیصلہ کرنا ہوگا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زناکاری کی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تورات میں رجم کے متعلق کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم انہیں رسوا کرتے ہیں اور کوڑے لگاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اس پر کہا کہ تم جھوٹے ہو اس میں رجم کا حکم موجود ہے۔ چنانچہ وہ تورات لائے اور کھولا۔ لیکن ان کے ایک شخص نے اپنا ہاتھ آیت رجم پر رکھ دیا اور اس سے پہلے اور بعد کا حصہ پڑھ دیا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو اس کے نیچے رجم کی آیت موجود تھی۔ اپھر انہوں نے کہا اے محمد! آپ نے سچ فرمایا اس میں رجم کی آیت موجود ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے حکم دیا اور دونوں رجم کئے گئے۔ میں نے دیکھا کہ مرد عورت کو پتھروں سے بچانے کی کوشش میں اس پر جھکا رہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
یہود کا اس طرح تحریف کرنا عام معمول بن گیا تھا۔ صد افسوس کہ امت مسلمہ میں بھی یہ برائی پیدا ہوگئی ہے۔ إلاماشاءاللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Umar (RA) : The jews came to Allah's Apostle (ﷺ) and mentioned to him that a man and a lady among them had committed illegal sexual intercourse. Allah's Apostle (ﷺ) said to them, "What do you find in the Torah regarding the Rajam?" They replied, "We only disgrace and flog them with stripes." 'Abdullah bin Salam said to them, 'You have told a lie the penalty of Rajam is in the Torah.' They brought the Torah and opened it. One of them put his hand over the verse of the Rajam and read what was before and after it. Abdullah bin Salam said to him, "Lift up your hand." Where he lifted it there appeared the verse of the Rajam. So they said, " O Muhammad (ﷺ) ! He has said the truth, the verse of the Rajam is in it (Torah)." Then Allah's Apostle (ﷺ) ordered that the two persons (guilty of illegal sexual intercourse) be stoned to death, and so they were stoned, and I saw the man bending over the woman so as to protect her from the stones.