کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : حاکم کی اجازت کے بغیر اگر کوئی شخص اپنے گھروالوں یا کسی اور کو تنبیہ کرے
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: Whoever teaches manners to his family or others)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوسعید خدریؓ نے نبی کریمﷺسے بیان کیا کہ اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور دوسرا اس کے سامنے سے گزرے تو اسے روکنا چاہئے اور اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے وہ شیطان ہے اور ابوسعید خدری ؓایسے ایک شخص سے لڑچکے ہیں۔ جو نماز میں ان کے آگے سے گزررہا تھا۔ ابوسعید نے اس کو ایک مارلگائی پھر مروان کے پاس مقدمہ گیا۔ اس سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ جب غیرشخص کو بے امام کی اجازت سے مارنا اور دھکیل دینا درست ہوا تو آدمی اپنے غلام یا لونڈی کو بطریق اولیٰ زنا کی حد لگاسکتا ہے۔
6844.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت ابوبکر صدیق ؓ آئے جبکہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے آتے ہی کہا: تو نے رسول اللہ ﷺ اور دیگر لوگوں کو روک رکھا ہے حالانکہ یہاں پانی وغیرہ کا بندوبست نہیں ہے چنانچہ وہ مجھ پر سخت ناراض ہوئے اور اپنے ترچھے ہاتھ سے میری کوکھ کو مارنے لگے مگر میں نے اپنے جسم میں کسی طرح کی حرکت نہ ہونے دی کیونکہ رسول اللہ ﷺ (میری گود میں سر رکھے) محو استراحت تھے۔ پھر اللہ تعالٰی نے آیت تیمم نازل فرمائی۔
تشریح:
(1) یہ دونوں احادیث ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے دیگر مقامات پر اس واقعہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہی واقعہ آیت تیمم کے نازل ہونے کا سبب بنا۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس وسعت نعمت کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا: ’’اے آل ابی بکر! یہ تمھاری کوئی پہلی برکت تو نہیں ہے۔‘‘ (2) ان احادیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ڈانٹا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جسمانی تکلیف پہنچائی۔ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قسم کی اجازت نہیں لی گئی۔ بہرحال انسان اپنے اہل خانہ کو کسی غلطی کی وجہ سے تنبیہ کر سکتا ہے اور ضرورت پڑے تو ہلکی پھلکی مار بھی سکتا ہے، چنانچہ پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گزر چکا ہے کہ انھوں نے فرمایا: اے لوگو! اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر حد جاری کرو، خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لونڈی نے زنا کیا تو آپ نے مجھے اس پر کوڑے لگانے کا حکم دیا۔ (صحیح مسلم، الحدود، حدیث:4450(1705) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ دونوں حدیثیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آدمی اپنے اہل خانہ وغیرہ کو حاکم کی موجودگی میں ہلکی پھلکی سزا دے سکتا ہے، گرچہ اس نے اجازت نہ دے رکھی ہو بشرطیکہ وہ سزا کسی صحیح معاملے میں ہو۔ (فتح الباري:215/12)
اور ابوسعید خدریؓ نے نبی کریمﷺسے بیان کیا کہ اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور دوسرا اس کے سامنے سے گزرے تو اسے روکنا چاہئے اور اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے وہ شیطان ہے اور ابوسعید خدری ؓایسے ایک شخص سے لڑچکے ہیں۔ جو نماز میں ان کے آگے سے گزررہا تھا۔ ابوسعید نے اس کو ایک مارلگائی پھر مروان کے پاس مقدمہ گیا۔ اس سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ جب غیرشخص کو بے امام کی اجازت سے مارنا اور دھکیل دینا درست ہوا تو آدمی اپنے غلام یا لونڈی کو بطریق اولیٰ زنا کی حد لگاسکتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت ابوبکر صدیق ؓ آئے جبکہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے آتے ہی کہا: تو نے رسول اللہ ﷺ اور دیگر لوگوں کو روک رکھا ہے حالانکہ یہاں پانی وغیرہ کا بندوبست نہیں ہے چنانچہ وہ مجھ پر سخت ناراض ہوئے اور اپنے ترچھے ہاتھ سے میری کوکھ کو مارنے لگے مگر میں نے اپنے جسم میں کسی طرح کی حرکت نہ ہونے دی کیونکہ رسول اللہ ﷺ (میری گود میں سر رکھے) محو استراحت تھے۔ پھر اللہ تعالٰی نے آیت تیمم نازل فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ دونوں احادیث ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے دیگر مقامات پر اس واقعہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہی واقعہ آیت تیمم کے نازل ہونے کا سبب بنا۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس وسعت نعمت کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا: ’’اے آل ابی بکر! یہ تمھاری کوئی پہلی برکت تو نہیں ہے۔‘‘ (2) ان احادیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ڈانٹا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جسمانی تکلیف پہنچائی۔ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قسم کی اجازت نہیں لی گئی۔ بہرحال انسان اپنے اہل خانہ کو کسی غلطی کی وجہ سے تنبیہ کر سکتا ہے اور ضرورت پڑے تو ہلکی پھلکی مار بھی سکتا ہے، چنانچہ پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گزر چکا ہے کہ انھوں نے فرمایا: اے لوگو! اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر حد جاری کرو، خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لونڈی نے زنا کیا تو آپ نے مجھے اس پر کوڑے لگانے کا حکم دیا۔ (صحیح مسلم، الحدود، حدیث:4450(1705) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ دونوں حدیثیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آدمی اپنے اہل خانہ وغیرہ کو حاکم کی موجودگی میں ہلکی پھلکی سزا دے سکتا ہے، گرچہ اس نے اجازت نہ دے رکھی ہو بشرطیکہ وہ سزا کسی صحیح معاملے میں ہو۔ (فتح الباري:215/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن القاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد ( قاسم بن محمد) نے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ نے کہا تمہاری وجہ سے آنحضرت ﷺ اور سب لوگوں کو رکنا پڑا جبکہ یہاں پانی بھی نہیں ہے۔ چنانچہ وہ مجھ پر سخت ناراض ہوئے اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں مکا مارنے لگے مگر میں نے اپنے جسم میں کسی قسم کی حرکت اس لیے نہیں ہونے دی کہ آنحضرت ﷺ آرام فرما رہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی۔
حدیث حاشیہ:
اس سے گھر والوں کو کسی غلطی پر تنبیہ کرنا ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Abu Bakr (RA) came to me while Allah's Apostle (ﷺ) was sleeping with his head on my thigh. Abu Bakr (RA) said (to me), "You have detained Allah's Apostle (ﷺ) and the people, and there is no water in this place." So he admonished me and struck my flanks with his hand, and nothing could stop me from moving except the reclining of Allah's Apostle (ﷺ) (on my thigh), and then Allah revealed the Divine Verse of Tayammum.