کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : اگر کسی شخص کی بے حیائی اور بے شرمی اور آلودگی پر گواہ نہ ہوں پھر قرائن سے یہ امر کھل جائے
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: To behave in a suspicious and dishonest way; and to accuse others without proof)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6856.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس لعان کا ذکر ہوا تو اس کے متعلق حضرت عاصم بن عدی ؓ نے کوئی بات کہی۔ پھر وہ چلے گئے۔ اس کے بعد اس کی قوم میں سے ایک آدمی شکایت لے کر ان کے پاس آیا کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو دیکھا ہے۔ حضرت عاصم ؓ نے کہا: میں خود اپنی اس بات کی وجہ سے آزمائش میں ڈالا گیا ہوں۔ پھر وہ اس شخص کو لے کر نبی ﷺ کی مجلس میں آئے اور آپ کو اس حالت کی اطلاع دی جس پر اس نے اپنی بیوی کو پایا تھا۔ وہ آدمی زرد رنگ، کم گوشت اور سیدھے بالوں والا تھا اور جس کے خلاف دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے، وہ گندمی رنگ، موٹا تازہ اور گوشت آدمی تھا۔ نبی ﷺ نے دعا مانگی: ”اے اللہ! اس معاملے کو ظاہر کر دے۔“ چنانچہ اس عورت کے ہاں اس شخص کا ہم شکل بچہ پیدا ہوا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اسے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ دیکھا ہے۔ پھر نبی ﷺ نے دونوں کے درمیان لعان کرایا۔ اس مجلس میں حضرت ابن عباس ؓ سے ایک شخص نے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا تھا: اگر میں کسی عورت کو بلا ثبوت سنگسار کرتا تو اسے سنگسار کرتا؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، یہ تو وہ عورت تھی جو اسلام لانے کے بعد علانیہ طور پر فسق وفجور کرتی تھی۔
تشریح:
امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ احادیث میں دو واقعات سے ثابت کیا ہے کہ محض آثارو قرائن سے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ حد جاری کرنے کے لیے اقرار یا دو ٹوک ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ پہلی حدیث میں ایک عورت کا ذکر ہے جس کے اسلام لانے کے بعد بھی اس کی بدکرداری کا چرچہ زبان زدخاص وعام تھا لیکن اس کے شواہد موجود نہیں تھے اور نہ اس کا اقررار ہی سامنے آیا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حد جاری نہیں کی۔ اسی طرح وہ عورت جس کے متعلق اس کے خاوند نے شکوک وشبہات کا اظہار کیا، پھر بچے کی پیدائش کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ خاوند اپنے دعوے میں سچا تھا لیکن اس پر کوئی گواہ نہیں تھے اور نہ عورت نے اقرار ہی کیا، اس لیے اس پر بھی حد جاری نہ کی گئی۔ واللہ أعلم
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس لعان کا ذکر ہوا تو اس کے متعلق حضرت عاصم بن عدی ؓ نے کوئی بات کہی۔ پھر وہ چلے گئے۔ اس کے بعد اس کی قوم میں سے ایک آدمی شکایت لے کر ان کے پاس آیا کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو دیکھا ہے۔ حضرت عاصم ؓ نے کہا: میں خود اپنی اس بات کی وجہ سے آزمائش میں ڈالا گیا ہوں۔ پھر وہ اس شخص کو لے کر نبی ﷺ کی مجلس میں آئے اور آپ کو اس حالت کی اطلاع دی جس پر اس نے اپنی بیوی کو پایا تھا۔ وہ آدمی زرد رنگ، کم گوشت اور سیدھے بالوں والا تھا اور جس کے خلاف دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے، وہ گندمی رنگ، موٹا تازہ اور گوشت آدمی تھا۔ نبی ﷺ نے دعا مانگی: ”اے اللہ! اس معاملے کو ظاہر کر دے۔“ چنانچہ اس عورت کے ہاں اس شخص کا ہم شکل بچہ پیدا ہوا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اسے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ دیکھا ہے۔ پھر نبی ﷺ نے دونوں کے درمیان لعان کرایا۔ اس مجلس میں حضرت ابن عباس ؓ سے ایک شخص نے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا تھا: اگر میں کسی عورت کو بلا ثبوت سنگسار کرتا تو اسے سنگسار کرتا؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، یہ تو وہ عورت تھی جو اسلام لانے کے بعد علانیہ طور پر فسق وفجور کرتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ احادیث میں دو واقعات سے ثابت کیا ہے کہ محض آثارو قرائن سے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ حد جاری کرنے کے لیے اقرار یا دو ٹوک ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ پہلی حدیث میں ایک عورت کا ذکر ہے جس کے اسلام لانے کے بعد بھی اس کی بدکرداری کا چرچہ زبان زدخاص وعام تھا لیکن اس کے شواہد موجود نہیں تھے اور نہ اس کا اقررار ہی سامنے آیا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حد جاری نہیں کی۔ اسی طرح وہ عورت جس کے متعلق اس کے خاوند نے شکوک وشبہات کا اظہار کیا، پھر بچے کی پیدائش کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ خاوند اپنے دعوے میں سچا تھا لیکن اس پر کوئی گواہ نہیں تھے اور نہ عورت نے اقرار ہی کیا، اس لیے اس پر بھی حد جاری نہ کی گئی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی مجلس میں لعان کا ذکر آیا تو عاصم بن عدی ؓ نے اس پر ایک بات کہی پھر وہ واپس آئے۔ اس کے بعد ان کی قوم کے ایک صاحب یہ شکایت لے کر ان کے پاس آئے کہ انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ غیرمرد کو دیکھا ہے۔ عاصم ؓ نے اس پر کہا کہ میں اپنی اس بات کی وجہ سے آزمائش میں ڈالا گیا ہوں۔ پھر آپ ان صاحب کو لے کر نبی کریم ﷺ کی مجلس میں تشریف لائے اور آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع دی جس حالت میں انہوں نے اپنی بیوی کو پایا۔ وہ صاحب زردرنگ، کم گوشت، سیدھے بالوں والے تھے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! اس معاملہ کو ظاہر کر دے۔ چنانچہ اس عورت کے یہاں اسی شخص کی شکل کا بچہ پیدا ہوا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اسے انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ دیکھا ہے پھر آنحضرت ﷺ نے دونوں کے درمیان لعان کرایا۔ ابن عباس ؓ سے مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ یہ وہی تھا جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بلا گواہی کے رجم کر سکتا تو اسے رجم کرتا۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ نہیں یہ تو وہ عورت تھی جو اسلام لانے کے بعد برائیاں اعلانیہ کرتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) : Lian was mentioned in the presence of the Prophet, Asim bin Adi said a statement about it, and when he left, a man from his tribe came to him complaining that he had seen a man with his wife. Asim said, "I have been put to trial only because of my statement." So he took the man to the Prophet (ﷺ) and the man told him about the incident. The man (husband) was of yellow complexion, thin, and of lank hair, while the man whom he had accused of having been with his wife, was reddish brown with fat thick legs and fat body. The Prophet (ﷺ) said, "O Allah! Reveal the truth." Later on the lady delivered a child resembling the man whom the husband had accused of having been with her. So the Prophet (ﷺ) made them take the oath of Lian. A man said to Ibn Abbas (RA) in the gathering, "Was that the same lady about whom the Prophet (ﷺ) said, "If I were to stone any lady (for committing illegal sexual intercourse) to death without witnesses, I would have stoned that lade to death?" Ibn Abbas (RA) said, "No, that was another lady who used to behave in such a suspicious way among the Muslims that one might accuse her of committing illegal sexual intercourse."