باب : اللہ تعالی نے سورۃ نساءمیں فرمایا اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے اس کی سزا جہنم ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: “… And whoever kills a believer intentionally, his recompense is Hell …”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6861.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے“ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔“ اس نے پوچھا: پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: ”اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کسی ایسے انسان کی جان ناحق لیتے ہیں جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے سخت گناہوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔“
تشریح:
(1) اپنی اولاد کو اس لیے قتل کرنا کہ وہ اس کے ساتھ کھائیں گے سنگین جرم ہے کیونکہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزاقیت سے انکار کرنا ہے اور یہ متعدد آیات قرآنی کے انکار کو لازم ہے۔ (2) قتل اولاد تو مطلق طور پر کبیرہ گناہ ہے اور ساتھ کھانے کی قید بطور غالب کے ہے کیونکہ اس وقت کے کفار کی یہی عادت تھی۔ افسوس کہ آج کل مسلمان بھی اس کوتاہی کا شکار اور خاندانی ’’منصوبہ بندی‘‘ میں گرفتار ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6615
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6861
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6861
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6861
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
پوری آیت کا ترجمہ حسب ذیل ہے: "اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ (مدت دراز تک)رہے گا،اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔"(النساء4: 93)کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنا انتہائی شدید جرم ہے جس کا اس عالم رنگ وبو میں کفارہ ممکن ہی نہیں۔قتل ناحق کسی غیر مسلم کا ہوتو وہ بھی شدید جرم ہے،پھر اگر وہ قتل مومن کا ہوتو مزید شدید جرم بن جاتا ہے،نیز جرم بیان کرنے کے بعد اللہ کا غضب اور اس کی لعنت کے الفاظ سے اس جرم کی شدت واضح ہوجاتی ہے۔رہا یہ سوال کہ ایسے مجرم کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟ اگرچہ اس میں علماء کا اختلاف ہے،تاہم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اس بات کے قائل ہیں کہ ایسے مجرم کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ان کا کہنا ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور اس کا حکم باقی ہے۔دیگر اہل علم کا موقف ہے کہ ایسا قاتل اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوگا،اگر چاہت تو اسے معاف کردے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے،نیز خلود سے مراد مدت دراز ہے،ہمیشہ رہنا نہیں کیونکہ ہمیشہ تو دوزخ میں وہی رہے گا جو بحالتِ کفرو شرک مرے گا۔واللہ اعلم
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے“ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔“ اس نے پوچھا: پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: ”اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کسی ایسے انسان کی جان ناحق لیتے ہیں جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے سخت گناہوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اپنی اولاد کو اس لیے قتل کرنا کہ وہ اس کے ساتھ کھائیں گے سنگین جرم ہے کیونکہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزاقیت سے انکار کرنا ہے اور یہ متعدد آیات قرآنی کے انکار کو لازم ہے۔ (2) قتل اولاد تو مطلق طور پر کبیرہ گناہ ہے اور ساتھ کھانے کی قید بطور غالب کے ہے کیونکہ اس وقت کے کفار کی یہی عادت تھی۔ افسوس کہ آج کل مسلمان بھی اس کوتاہی کا شکار اور خاندانی ’’منصوبہ بندی‘‘ میں گرفتار ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے اعمش نے ، ان سے ابووائل نے، ان سے عمرو بن شرحبیل نے بیان کیا، ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ ایک صاحب یعنی خود آپ نے کہا یا رسول اللہ! ﷺ اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ جبکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ پوچھا پھر کون؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر یہ کہ تم اپنے لڑکے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے گا۔ پوچھا پھر کون؟ فرمایا پھر یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی ”اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ کسی ایسے انسان کی ناحق جان لیتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا“ آخر آیت تک۔
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہذلی ہیں اسلام میں نمبر چھ پر ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص الخاص خادم ہیں سفر و حصر میں۔ دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور تیسری دفعہ مدینہ میں دائمی ہجرت کی اور خاص طور پر جنگ بدر اور احد، خندق، حدیبیہ، خیبر اور فتح مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ آپ پستہ قد، لاغرجسم، گندم گوں رنگ اور سرپر کانوں تک نہایت نرم و خوبصورت زلف تھے اور علم و فضل میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ اس لیے خلافت فاروقی میں کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے۔ بعد میں مدینہ آگئے اور سنہ 33ھ میں مدینہ میں ہی ساٹھ برس سے کچھ زیادہ عمر پا کر وفات پائی اور بقیع غرقد میں دفن ہوئے۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : A man said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Which sin is the greatest in Allah's Sight?" The Prophet (ﷺ) said, "To set up a rival unto Allah though He Alone created you . " The man said, "What is next?" The Prophet (ﷺ) said, "To kill your son lest he should share your food with you." The man said, "What is next?" The Prophet (ﷺ) said, "To commit illegal sexual intercourse with the wife of your neighbor." So Allah revealed in confirmation of this narration:-- 'And those who invoke not with Allah, any other god. Nor kill, such life as Allah has forbidden except for just cause nor commit illegal sexual intercourse. And whoever does this shall receive the punishment.' (25.68)