باب : قتل خطا میں مقتول کی موت کے بعد اس کے وارث کا معاف کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: Excusing somebody who killed by mistake)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6883.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ احد میں مشرکین نے پہلے مسلمانوں سے شکست کھائی تھی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: غزوہ احد میں ابلیس لوگوں میں بآواز بلند چلایا: اے اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کو قتل کرو۔ اس کے بعد آگے والے اپنے پچھلوں پر ٹوٹ پڑے حتیٰ کہ انہوں نے حضرت یمان ؓ کو قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: یہ میرے والد ہیں۔ یہ میرے والد ہیں لیکن لوگوں نے انہیں قتل کر کے دم لیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ راوی کا بیان ہے کہ مشرکین میں سے کچھ لوگ بھاگ کر طائف تک پہنچ چکے تھے۔
تشریح:
(1) مسلمانوں نے غلطی سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت یمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ چونکہ یہ قتل غلطی سے ہوا تھا، اس لیے ان کی شہادت کے بعد حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے باپ کا خون معاف کر دیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو دیت ادا کر دی۔ (2) موت سے پہلے معافی کا حق مقتول کو ہے کہ وہ اپنے قاتل کو معاف کر دے جیسا کہ حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو کسی نے انھیں تیر مارا، آپ مرنے کے قریب ہوئے تو اپنے قاتل کو معاف کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی معافی کو برقرار رکھا۔ (3) اہل ظاہر کا موقف ہے کہ مقتول کو معافی دینے کا کوئی حق نہیں بلکہ یہ حق اس کے وارثوں کے لیے ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے جیسا کہ حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال موت کے بعد قاتل کو خون معاف کیا جا سکتا ہے اور معافی کا حق مقتول کے ورثاء کو ہے۔ (فتح الباري: 263/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6636
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6883
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6883
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6883
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ احد میں مشرکین نے پہلے مسلمانوں سے شکست کھائی تھی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: غزوہ احد میں ابلیس لوگوں میں بآواز بلند چلایا: اے اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کو قتل کرو۔ اس کے بعد آگے والے اپنے پچھلوں پر ٹوٹ پڑے حتیٰ کہ انہوں نے حضرت یمان ؓ کو قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: یہ میرے والد ہیں۔ یہ میرے والد ہیں لیکن لوگوں نے انہیں قتل کر کے دم لیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ راوی کا بیان ہے کہ مشرکین میں سے کچھ لوگ بھاگ کر طائف تک پہنچ چکے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مسلمانوں نے غلطی سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت یمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ چونکہ یہ قتل غلطی سے ہوا تھا، اس لیے ان کی شہادت کے بعد حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے باپ کا خون معاف کر دیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو دیت ادا کر دی۔ (2) موت سے پہلے معافی کا حق مقتول کو ہے کہ وہ اپنے قاتل کو معاف کر دے جیسا کہ حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو کسی نے انھیں تیر مارا، آپ مرنے کے قریب ہوئے تو اپنے قاتل کو معاف کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی معافی کو برقرار رکھا۔ (3) اہل ظاہر کا موقف ہے کہ مقتول کو معافی دینے کا کوئی حق نہیں بلکہ یہ حق اس کے وارثوں کے لیے ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے جیسا کہ حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال موت کے بعد قاتل کو خون معاف کیا جا سکتا ہے اور معافی کا حق مقتول کے ورثاء کو ہے۔ (فتح الباري: 263/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ مشرکین نے احد کی لڑائی میں پہلے شکست کھائی تھی (دوسری سند) امام بخاری نے کہا مجھ سے محمد بن حرب نے بیان کیا، ان سے ابومروان یحییٰ ابن ابی زکریا نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ابلیس احد کی لڑائی میں لوگوں میں چیخا۔ اے اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں سے، مگر یہ سنتے ہی آگے کے مسلمان پیچھے کی طرف پلٹ پڑے یہاں تک کہ مسلمانوں نے (غلطی میں) حذیفہ کے والد حضرت یمان ؓ کو قتل کر دیا۔ اس پر حذیفہ ؓ نے کہا کہ یہ میرے والد ہیں، میرے والد! لیکن انہیں قتل ہی کر ڈالا۔ پھر حذیفہ ؓ نے کہا اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ بیان کیا کہ مشرکین میں کی ایک جماعت میدان سے بھاگ کر طائف تک پہنچ گئی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ مسلمانوں نے خطا سے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد مسلمان کو مار ڈالا اور حذیفہ رضی اللہ عنہ نے معاف کر دیا کہ دیت کا مطالبہ نہیں چاہتے ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے دیت دلائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : The pagans were defeated on the day (of the battle) of Uhud. Satan shouted among the people on the day of Uhud, "O Allah's worshippers! Beware of what is behind you!" So the front file of the army attacked the back files (mistaking them for the enemy) till they killed Al-Yaman. Hudhaifa (bin Al-Yaman) shouted, "My father!" My father! But they killed him. Hudhaifa said, "May Allah forgive you." (The narrator added: Some of the defeated pagans fled till they reached Taif.)