Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: The Diya for fingers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6896.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک لڑکے کو دھوکے سے قتل کر دیا گیا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اگر اس قتل میں صنعاء کے تمام لوگ شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا۔ مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد سے بیان کیا کہ چار مردوں نے مل کر ایک بچے کو قتل کر دیا تو اس موقع پر بھی حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہی بات فرمائی تھی۔ حضرت ابو بکر، ابن زبیرعلی، اور سوید بن مقرن ؓ نے طمانچہ کی وجہ سے قصاص دلایا تھا حضرت عمر ؓ نے درہ مارنے کا قصاص لیا۔ حضرت علی ؓ نے تین کوڑے مارنے کا قصاص لیا۔ قاضی شریح نے کوڑے مارنے اور خراش لگانے کی سزا دی تھی۔
تشریح:
(1) یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک عورت کا خاوند کہیں باہر گیا اور اپنے ایک بچے کو، جو اس آدمی کی دوسری بیوی سے تھا، موجودہ بیوی کی گود میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اس کی نگہداشت کرے۔ اس کے باہر جانے کے بعد عورت نے ایک آشنا بنایا اور اسے کہا کہ پہلے اس بچے کو ٹھکانے لگاؤ کیونکہ یہ ہمیں کسی وقت بھی ذلیل کر سکتا ہے۔ اس آشنا نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر مان گیا۔ اس بچے کے قتل میں عورت کا آشنا، ایک دوسرا شخص، وہ عورت اور اس کا خادم شریک ہوئے۔ اسے قتل کرنے کے بعد انھوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کیا اور بوری میں بند کر کے ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔ بعد ازاں اس کے آشنا کو گرفتار کر لیا گیا تو اس نے اقرار جرم کر لیا۔ باقی قاتل بھی مان گئے تو حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ جو اس وقت صنعاء کے حاکم تھے، انھوں نے اس مقدمۂ قتل کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا تو انھوں نے جواب میں لکھا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے، مزید فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تمام اہل صنعاء اس قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرنے کا حکم دیتا۔ (فتح الباري:283/12، 284) (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے طمانچے اور خراش لگانے کے متعلق قصاص کا ذکر بھی اس عنوان کے تحت کیا ہے، اس کی دو وجہیں بیان کی جاتی ہیں: ٭بعض حضرات کا موقف ہے کہ طمانچوں اور خراشوں میں چونکہ مماثلت نہیں ہوتی، لہٰذا اس میں قصاص نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان حضرات کے موقف کو محل نظر قرار دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسلام میں ان کے متعلق قصاص لیا اور دیا جاتا تھا۔ ٭ جب چھوٹے چھوٹے اور معمولی کاموں میں قصاص ہے تو اگر زیادہ آدمی ایک جرم میں شریک ہوں، خواہ کم ہوں یا زیادہ، وہ تمام جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہر ایک کو سزا ملنی چاہیے جیسا کہ معمولی کاموں میں قصاص لیا جاتا ہے، ان سے بھی قصاص لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور دوسری سزا نہیں دی جائے گی۔ (فتح الباري:285/12)
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
6959
٢
ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
6896
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
6387.91
٤
ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
6896.91
٥
ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
6500.91
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6649.91
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6895.91
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6896
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6896.01
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک لڑکے کو دھوکے سے قتل کر دیا گیا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اگر اس قتل میں صنعاء کے تمام لوگ شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا۔ مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد سے بیان کیا کہ چار مردوں نے مل کر ایک بچے کو قتل کر دیا تو اس موقع پر بھی حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہی بات فرمائی تھی۔ حضرت ابو بکر، ابن زبیرعلی، اور سوید بن مقرن ؓ نے طمانچہ کی وجہ سے قصاص دلایا تھا حضرت عمر ؓ نے درہ مارنے کا قصاص لیا۔ حضرت علی ؓ نے تین کوڑے مارنے کا قصاص لیا۔ قاضی شریح نے کوڑے مارنے اور خراش لگانے کی سزا دی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک عورت کا خاوند کہیں باہر گیا اور اپنے ایک بچے کو، جو اس آدمی کی دوسری بیوی سے تھا، موجودہ بیوی کی گود میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اس کی نگہداشت کرے۔ اس کے باہر جانے کے بعد عورت نے ایک آشنا بنایا اور اسے کہا کہ پہلے اس بچے کو ٹھکانے لگاؤ کیونکہ یہ ہمیں کسی وقت بھی ذلیل کر سکتا ہے۔ اس آشنا نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر مان گیا۔ اس بچے کے قتل میں عورت کا آشنا، ایک دوسرا شخص، وہ عورت اور اس کا خادم شریک ہوئے۔ اسے قتل کرنے کے بعد انھوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کیا اور بوری میں بند کر کے ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔ بعد ازاں اس کے آشنا کو گرفتار کر لیا گیا تو اس نے اقرار جرم کر لیا۔ باقی قاتل بھی مان گئے تو حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ جو اس وقت صنعاء کے حاکم تھے، انھوں نے اس مقدمۂ قتل کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا تو انھوں نے جواب میں لکھا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے، مزید فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تمام اہل صنعاء اس قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرنے کا حکم دیتا۔ (فتح الباري:283/12، 284) (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے طمانچے اور خراش لگانے کے متعلق قصاص کا ذکر بھی اس عنوان کے تحت کیا ہے، اس کی دو وجہیں بیان کی جاتی ہیں: ٭بعض حضرات کا موقف ہے کہ طمانچوں اور خراشوں میں چونکہ مماثلت نہیں ہوتی، لہٰذا اس میں قصاص نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان حضرات کے موقف کو محل نظر قرار دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسلام میں ان کے متعلق قصاص لیا اور دیا جاتا تھا۔ ٭ جب چھوٹے چھوٹے اور معمولی کاموں میں قصاص ہے تو اگر زیادہ آدمی ایک جرم میں شریک ہوں، خواہ کم ہوں یا زیادہ، وہ تمام جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہر ایک کو سزا ملنی چاہیے جیسا کہ معمولی کاموں میں قصاص لیا جاتا ہے، ان سے بھی قصاص لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور دوسری سزا نہیں دی جائے گی۔ (فتح الباري:285/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور مجھ سے ابن بشار نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰ نے‘ ان سے عبید اللہ نے‘ ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمرؓ نے کہ ایک لڑکے اصیل نامی کو دھوکے سے قتل کر دیا گیا تھا۔ عمرؓ نے کہا کہ سارے اہل صنعاء (یمن کے لوگ) اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرا دیتا۔ اور مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد سے بیان کیا کہ چار آدمیوں نے ایک بچے کو قتل کر دیا تھا تو عمرؓ نے یہ بات فرمائی تھی۔ ابو بکر‘ ابن زبیر‘ علی اور سوید بن مقرن نے چانٹے کا بدلہ دلوایا تھا اور عمرؓ نے درے کی جو مار ایک شخص کو ہوئی تھی اس کا بدلہ لینے کے لیے فرمایا اور علیؓ نے تین کوڑوں کا قصاص لینے کا حکم دیا اور شریح نے کوڑے اور خراش لگانے کی سزا دی تھی۔
حدیث حاشیہ:
یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک عورت کا خاوند کہیں باہر گیا اور اپنے ایک بچے کو، جو اس آدمی کی دوسری بیوی سے تھا، موجودہ بیوی کی گود میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اس کی نگہداشت کرے۔ اس کے باہر جانے کے بعد عورت نے اپنا ایک آشنا بنایا اور اسے کہا کہ پہلے اس بچے کو ٹھکانے لگاؤ کیونکہ یہ ہمیں کسی وقت بھی ذلیل کر سکتا ہے۔ اس آشنا نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر مان گیا۔ اس بچے کو قتل میں عورت کا آشنا، ایک دوسرا شخص وہ عورت اور اس کا خادم شریک ہوئے۔ اسے قتل کرنے کے بعد انہوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کیا اور پوری میں بند کر کے ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔ بعد ازاں اس کے آشنا کو گرفتار کر لیا گیا تو اس نے اقرار جرم کر لیا۔ باقی قاتل بھی مان گئے، حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ جو اس وقت صنعاء کے حاکم تھے انہوں نے اس مقدمے کے متعلق حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لکھا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے، مزید فرمایا: اگر تمام اہل صںعاء اس قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرنے کا حکم دیتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A boy was assassinated. 'Umar said, "If all the people of San'a took part in the assassination I would kill them all."Al-Mughira bin Hakim said that his father said, "Four persons killed a boy, and 'Umar said (as above)."Abu Bakr, Ibn Az-Zubair, 'Ali and Suwaid bin Muqarrin gave the judgement of Al-Qisas (equality in punishment) in cases of slapping. And 'Umar carried out Al-Qisas for a strike with a stick. And 'Ali carried out Al-Qisas for three lashes with a whip. And Shuraih carried out for one last and for scratching.