باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں فرمایا’’شرک بڑا گناہ ہے‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Apostates
(Chapter: The sin of the person who ascribes partners in worship to Allah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورۂ زمر میں فرمایا’’اے پغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے سارے نیک اعمال اکارت ہو جائیں گے اور ٹوٹا پانے والوں(یعنی کافروں اور مشرکوں)میں شریک ہو جائے گا۔‘‘تشریح :حالانکہ پیغمبروں سے شرک نہیں ہوسکتا مگر یہ برسبیل فرض اور تقدیر فرمایا اور اس سے امت کو ڈرانا منظور ہے کہ شرک ایسا سخت گناہ ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ سے بھی سرزد ہوجائے جو سارے جہاں سے زیادہ اللہ کے مقرب اور محبوب بندے ہیں تو ساری عزت چھن جائے اور راندہ درگاہ ہوجائیں معاذ اللہ پھر دوسرے لوگوں کا کیا ٹھکانا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ جو بات بالاتفاق شرک ہے اس سے اور جس بات کے شرک ہونے میں اختلاف ہے اس سے بھی بچارہے ایسا نہ ہو کہ وہ شرک ہو اور اس کے ارتکاب سے تباہ ہوجائے تمام اعمال خیرباد ہوجائیں۔
6918.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ”جو لوگ ایمان لائے اور اپنے کو ظلم سے ملوث نہ کیا۔“ تو یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام پر بہت گراں گزری، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دراصل یہ بات نہیں، کیا تم نے حضرت لقمان کی بات نہیں سنی، انہوں نے کہا تھا: ”یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرک صرف یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کا منکر ہو یا متعدد الہٰوں کا قائل ہو بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے اقرار کے ساتھ بھی آدمی شرک سے آلودہ ہوجاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں۔‘‘ (یوسف12: 106) (2) مشرکین مکہ میں یہ اقرار موجود تھا جیسا کہ حج کے موقع پر ان کے تلبیے سےمعلوم ہوتا ہے، وہ یوں کہتے تھے: ’’اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس کے جسے تو نے اختیار دے رکھا ہے اور وہ خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2815(1185) آج بھی یہ بات بڑی شدت سے پائی جاتی ہے کہ لوگ اولیاء اللہ کے تصرفات کے بڑی شدومد سے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تصرفات اور اختیارات انھیں اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کیے ہیں، اسی قسم کے عقیدے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اس سے پہلے کی کوئی الہامی کتاب یاعلمی روایت میرےپاس لاؤ،اگرتم سچے ہو۔‘‘ (الأحقاف46: 4) یعنی کیا تم کسی الہامی کتاب یا علمی روایت میں یہ بات دکھا سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں قسم کے اختیارات فلاں فلاں لوگوں کو دے رکھے ہیں؟ (3) دور حاضر میں قبر پرستوں اور پیر پرستوں کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھی مانتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرتے ہیں، ان کے لیے نذرونیاز اور منت مانتے ہیں، بیماری اور مصیبت میں ان کو پکارتے ہیں، انھیں برملا حاجت روا اور مشکل کشا کہا جاتا ہے۔ ان کی قبروں کا طواف ہوتا ہے، یہ سب شرک ہے اگرچہ اپنے ایمان کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ اس قسم کا ظاہری ایمان قیامت کے دن کچھ کام نہیں آئے گا۔ مشرکین مکہ بھی اللہ تعالیٰ کا اقرار کرتے تھے، زمین و آسمان کا خالق ومالک اسی کو سمجھتے تھے مگر غیر اللہ کی عبادت اور ان کی انتہائی تعظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں مشرک قرار دیا ہے۔ (4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان اگرچہ عربی تھی لیکن بعض اوقات انھیں آیت کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آ جاتی تھی، افسوس کہ آج مسلمانوں میں بھی ایک ایسا گروہ موجود ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بے نیاز ہو کر محض لغت کے سہارے قرآن کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کسی آیت کے مفہوم میں دشواری پیش آ سکتی ہے تو ہم عجمی لوگ لغت کے سہارے قرآن کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ دراصل یہ منصب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور اپنے عمل وکردار اور گفتار سے اس کی تعظیم کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے متعلق سمجھ عطا فرمائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6670
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6918
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6918
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6918
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
تمہید باب
کسی چیز کو اس کے اصل مقام کے بجائے دوسری جگہ پر رکھنا ظلم ہے۔شرک میں بھی یہی ہوتا ہے کیونکہ مشرک ایک حقیر مخلوق جسے خالق نے عدم سے وجود بخشا اسے اللہ تعالیٰ کے برابر کرتا ہے۔گویا مشرک نے مخلوق کو اصل مقام سے اٹھا کر دوسری جگہ پر رکھ دیا ہے،پھر نعمت کو اس کے دینے والے کے بجائے دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے۔ پہلی آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک سے بڑھ کر کوئی دوسرا گناہ بڑا اور سنگین نہیں ہے۔دوسری آیت کریمہ میں اگرچہ مخاطب اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں کیونکہ حضرات انبیاء علیہ السلام سے شرک نہیں ہوسکتا۔اس انداز سے امت کو ڈرانا مقصود ہے کہ شرک ایسا سنگین اور خطرناک جرم ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سرزد ہوجائے تو ان کی تمام عزت چھن جائے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی وقار سے دور کردیے جائیں،پھر ان کے علاوہ دوسروں کا کیا ٹھکانا ہوگا۔شرک ایک ایسا جرم ہے جس کے حرام ہونے پر تمام انبیاء علیہ السلام کا اجماع ہے۔ اس کے ارتکاب سے تمام نیک اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔واضح رہے کہ اعمال کا باطل ہونا موت کے ساتھ مقید ہے،یعنی اگر موت شرک پر ہوئی تو ان کے تمام نیک اعمال برباد،ضائع اور رائیگاں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے،پھر اس حال میں موت آئے کہ وہ کافر ہوتو ایسے لوگوں کے اعمال دنیاوآخرت (دونوں) میں ضائع ہوگئے اور یہی لوگ آگ والے ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔"(البقرہ2: 217) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرک کی خطرناکی اور سنگینی سے آگاہ کرنےکے لیےیہ دونوں آیتیں بیان کی ہیں۔(فتح الباری:12/321)
اور سورۂ زمر میں فرمایا’’اے پغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے سارے نیک اعمال اکارت ہو جائیں گے اور ٹوٹا پانے والوں(یعنی کافروں اور مشرکوں)میں شریک ہو جائے گا۔‘‘تشریح :حالانکہ پیغمبروں سے شرک نہیں ہوسکتا مگر یہ برسبیل فرض اور تقدیر فرمایا اور اس سے امت کو ڈرانا منظور ہے کہ شرک ایسا سخت گناہ ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ سے بھی سرزد ہوجائے جو سارے جہاں سے زیادہ اللہ کے مقرب اور محبوب بندے ہیں تو ساری عزت چھن جائے اور راندہ درگاہ ہوجائیں معاذ اللہ پھر دوسرے لوگوں کا کیا ٹھکانا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ جو بات بالاتفاق شرک ہے اس سے اور جس بات کے شرک ہونے میں اختلاف ہے اس سے بھی بچارہے ایسا نہ ہو کہ وہ شرک ہو اور اس کے ارتکاب سے تباہ ہوجائے تمام اعمال خیرباد ہوجائیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ”جو لوگ ایمان لائے اور اپنے کو ظلم سے ملوث نہ کیا۔“ تو یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام پر بہت گراں گزری، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دراصل یہ بات نہیں، کیا تم نے حضرت لقمان کی بات نہیں سنی، انہوں نے کہا تھا: ”یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرک صرف یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کا منکر ہو یا متعدد الہٰوں کا قائل ہو بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے اقرار کے ساتھ بھی آدمی شرک سے آلودہ ہوجاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں۔‘‘ (یوسف12: 106) (2) مشرکین مکہ میں یہ اقرار موجود تھا جیسا کہ حج کے موقع پر ان کے تلبیے سےمعلوم ہوتا ہے، وہ یوں کہتے تھے: ’’اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس کے جسے تو نے اختیار دے رکھا ہے اور وہ خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2815(1185) آج بھی یہ بات بڑی شدت سے پائی جاتی ہے کہ لوگ اولیاء اللہ کے تصرفات کے بڑی شدومد سے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تصرفات اور اختیارات انھیں اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کیے ہیں، اسی قسم کے عقیدے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اس سے پہلے کی کوئی الہامی کتاب یاعلمی روایت میرےپاس لاؤ،اگرتم سچے ہو۔‘‘ (الأحقاف46: 4) یعنی کیا تم کسی الہامی کتاب یا علمی روایت میں یہ بات دکھا سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں قسم کے اختیارات فلاں فلاں لوگوں کو دے رکھے ہیں؟ (3) دور حاضر میں قبر پرستوں اور پیر پرستوں کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھی مانتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرتے ہیں، ان کے لیے نذرونیاز اور منت مانتے ہیں، بیماری اور مصیبت میں ان کو پکارتے ہیں، انھیں برملا حاجت روا اور مشکل کشا کہا جاتا ہے۔ ان کی قبروں کا طواف ہوتا ہے، یہ سب شرک ہے اگرچہ اپنے ایمان کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ اس قسم کا ظاہری ایمان قیامت کے دن کچھ کام نہیں آئے گا۔ مشرکین مکہ بھی اللہ تعالیٰ کا اقرار کرتے تھے، زمین و آسمان کا خالق ومالک اسی کو سمجھتے تھے مگر غیر اللہ کی عبادت اور ان کی انتہائی تعظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں مشرک قرار دیا ہے۔ (4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان اگرچہ عربی تھی لیکن بعض اوقات انھیں آیت کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آ جاتی تھی، افسوس کہ آج مسلمانوں میں بھی ایک ایسا گروہ موجود ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بے نیاز ہو کر محض لغت کے سہارے قرآن کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کسی آیت کے مفہوم میں دشواری پیش آ سکتی ہے تو ہم عجمی لوگ لغت کے سہارے قرآن کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ دراصل یہ منصب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور اپنے عمل وکردار اور گفتار سے اس کی تعظیم کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے متعلق سمجھ عطا فرمائے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے“ نیز فرمایا: ”اگر آپ نے شرک کیا تو یقیناً آپ کا عمل ضائع ہوجائے گا اور آپ ضرور بالضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے، انہوں نے کہا جب (سورۃ انعام کی) یہ آیت اتری ”جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ایمان کو گناہ سے آلود نہیں کیا (یعنی ظلم سے) “ تو آنحضرت ﷺ کے صحابہ کو بہت گراں گزری وہ کہنے لگے بھلا ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ایمان کے ساتھ کوئی ظلم (یعنی گناہ) نہ کیا ہو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس آیت میں ظلم سے گناہ مراد نہیں ہے (بلکہ شرک مراد ہے) کیا تم نے حضرت لقمان ؑ کا قول نہیں سنا ”شرک بڑا ظلم ہے۔“
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی بے ایمان ہو، خدا کا منکر ہو یا دو خداؤں کا قائل ہو بلکہ کبھی ایمان کے ساتھ بھی آدمی شرک میں آلودہ ہو جاتا ہے جیسے دوسری آیت میں ﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ﴾(یوسف: 106) قاضی عیاض نے کہا ایمان کا شرک سے آلودہ کرنا یہ ہے کہ اللہ کا قائل ہو (اس کی توحید مانتا ہو) مگر عبادت میں اوروں کو بھی شریک کرے۔ مترجم کہتا ہے جیسے ہمارے زمانہ کے گور (قبر) پرستوں اور پیر پرستوں کا حال ہے اللہ کو مانتے ہیں پھر اللہ کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں، ان کی نذر و نیاز منت مانتے ہیں، ان کے نام پر جانور کاٹتے ہیں، دکھ، بیماری میں ان کو پکارتے ہیں، ان کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں، ان کی قبروں پر جا کر سجدہ اور طواف کرتے ہیں، ان سے وسعت رزق یا اولاد یا شفاء طلب کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ فی الحقیقت مشرک ہیں۔ گو نام کے مسلمان کہلائیں تو کیا ہوتا ہے۔ ایسا ظاہری برائے نام اسلام آخرت میں کچھ کام نہیں آئے گا۔ عرب کے مشرک بھی اللہ کو مانتے تھے۔ خالق آسمان و زمین اسی کو جانتے تھے مگر غیرخدا کی عبادت اور تعظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو مشرک قرار دیا۔ اگر تم قرآن شریف کا ترجمہ خوب سمجھ کر پڑھو تو شرک کا مطلب اچھی طرح سمجھ لوگے مگر افسوس تو یہ ہے کہ تم ساری عمر میں ایک بار بھی قرآن اول سے لے کرآخر تک سمجھ کر نہیں پڑھتے، صرف اس کے الفاظ رٹ لیتے ہیں اس سے کام نہیں چلتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : When the Verse: 'It is those who believe and confuse not their belief with wrong (i.e., worshipping others besides Allah): (6.82) was revealed, it became very hard on the companions of the Prophet (ﷺ) and they said, "Who among us has not confused his belief with wrong (oppression)?" On that, Allah's Apostle (ﷺ) said, "This is not meant (by the Verse). Don't you listen to Luqman's statement: 'Verily! Joining others in worship with Allah is a great wrong indeed.' (31.13)