مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6929.
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: گویا میں اب نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں آپ ایک پیغمبر کی حکایت بیان کر رہے تھے جسے اس کی قوم نے مار مار کر لہولہان کر دیا تھا۔ وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے اور اللہ کے حضور دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! میری قوم کو معاف کر دے کیونکہ وہ نادان ہیں۔“
تشریح:
(1) روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پیغمبر کی حکایت بیان کی، وہ حضرت نوح علیہ السلام تھے۔ ان کی قوم انھیں اس قدر مارتی کہ وہ لہولہان اور بے ہوش ہو جاتے، جب انھیں افاقہ ہوتا تو مذکورہ الفاظ کہتے۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ مشرکین نے غزوۂ احد کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارے اور آپ کا چہرہ زخمی کر دیا لیکن آپ یہی دعا کرتے رہے: ’’اے اللہ! انھیں معاف کردے، یہ نادان ہیں۔‘‘ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ حنین کے موقع پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ استعمال فرمائے تھے۔‘‘ (فتح الباري:353/12) (2) یہ عنوان ماقبل کا نتیجہ اور تکملہ ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی بدزبانی کا مصلحت تالیف کی بنا پر کوئی نوٹس نہیں لیا کیونکہ جن لوگوں نے اپنے انبیائے کرام کو زخمی کیا، ان انبیائے کرام نے ان پر ہلاکت وتباہی کی بددعا نہیں کہ بلکہ صبر سے کام لیتے ہوئے ان کے حق میں دعا فرمائی ہے، تو اشارے کنائے سے برا بھلا کہنے والے کو قتل کیسے کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:352/12) واضح رہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کو لوگوں کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے: ’’آپ صبر کریں جیسا کہ اولو العزم پیغمبروں نے صبر سے کام لیا ہے اور ان کے متعلق جلدی نہ کریں۔‘‘(الأحقاف46: 35)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6680
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6929
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6929
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6929
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: گویا میں اب نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں آپ ایک پیغمبر کی حکایت بیان کر رہے تھے جسے اس کی قوم نے مار مار کر لہولہان کر دیا تھا۔ وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے اور اللہ کے حضور دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! میری قوم کو معاف کر دے کیونکہ وہ نادان ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پیغمبر کی حکایت بیان کی، وہ حضرت نوح علیہ السلام تھے۔ ان کی قوم انھیں اس قدر مارتی کہ وہ لہولہان اور بے ہوش ہو جاتے، جب انھیں افاقہ ہوتا تو مذکورہ الفاظ کہتے۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ مشرکین نے غزوۂ احد کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارے اور آپ کا چہرہ زخمی کر دیا لیکن آپ یہی دعا کرتے رہے: ’’اے اللہ! انھیں معاف کردے، یہ نادان ہیں۔‘‘ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ حنین کے موقع پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ استعمال فرمائے تھے۔‘‘ (فتح الباري:353/12) (2) یہ عنوان ماقبل کا نتیجہ اور تکملہ ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی بدزبانی کا مصلحت تالیف کی بنا پر کوئی نوٹس نہیں لیا کیونکہ جن لوگوں نے اپنے انبیائے کرام کو زخمی کیا، ان انبیائے کرام نے ان پر ہلاکت وتباہی کی بددعا نہیں کہ بلکہ صبر سے کام لیتے ہوئے ان کے حق میں دعا فرمائی ہے، تو اشارے کنائے سے برا بھلا کہنے والے کو قتل کیسے کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:352/12) واضح رہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کو لوگوں کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے: ’’آپ صبر کریں جیسا کہ اولو العزم پیغمبروں نے صبر سے کام لیا ہے اور ان کے متعلق جلدی نہ کریں۔‘‘(الأحقاف46: 35)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمربن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا مجھ سے شفیق ابن سلمہ نے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا جیسے میں (اس وقت) آنحضرت ﷺ کو دیکھ رہا ہوں آپ ایک پیغمبر (حضرت نوحؑ) کی حکایت بیان کر رہے تھے ان کی قوم والوں نے ان کو اتنا مارا کہ لہولہان کر دیا وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے تھے اور یوں دعا کرتے جاتے پروردگار میری قوم والوں کو بخش دے وہ نادان ہیں۔
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے کہا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی حکایت بیان کی۔ احد کے دن مشرکوں نے آپ کے چہرے اور سر پر پتھر مارے لہولہان کر دیا ایک دانت بھی آپ کا شہید کر ڈالا لیکن آپ یہی دعا کرتے رہے۔ یا اللہ! میری قوم والوں کو بخش دے وہ نادان ہیں۔ سبحان اللہ کوئی قومی جوش اور محبت پیغمبروں سے سیکھے نہ کہ اس زمانہ کے لیڈروں سے جو قوم قوم پکارتے پھرتے ہیں لیکن دل میں ذرا بھی قوم کی محبت نہیں ہے۔ اپنا گھر بھرنا چاہتے ہیں۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب پیغمبر صاحب نے اس شخص کے لیے بددعا بھی نہ کی جس نے آپ کو زخمی کیا تھا تو اشارہ اور کنایہ سے برا کہنے والا کیوں کہ قابل قتل ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : As if I am looking at the Prophet (ﷺ) while he was speaking about one of the prophets whose people have beaten and wounded him, and he was wiping the blood off his face and saying, "O Lord! Forgive my, people as they do not know."