باب: نبی کریم ﷺ کا ارشاد کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دو ایسی جماعتیں آپس میں جنگ نہ کرلیں جن کا دعویٰ ایک ہی ہوگا
)
Sahi-Bukhari:
Apostates
(Chapter: “The Hour will not be established till two groups fight against each other, their claim being one and the same.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6935.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دو ایسے گروہ آپس میں جنگ نہ کریں جن کا دعویٰ ایک ہوگا۔“
تشریح:
(1) ایک رویت میں ہے کہ دو بڑی جماعتوں کے درمیان جنگ عظیم ہوگی۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7121) ان دونوں بڑی جماعتوں سے مراد حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی جماعت ہے اور جنگ عظیم سے مراد جنگ صفین ہے۔ ان دونوں کا دعویٰ ایک، یعنی اسلام تھا۔ ان میں ہر گروہ یقین رکھتا تھا کہ وہ حق پر ہے۔ (2) طبری کی روایت میں ہے کہ جب باغی گروہ، یعنی خوارج کا ظہور ہو گا تو ان دونوں جماعتوں میں سے جو حق کے زیادہ قریب ہوگی باغی لوگوں کو قتل کرے گی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مناسبت سے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث ذکر کی ہے۔ (فتح الباري:378/12) اس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کا کوئی پہلو ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس کا دعویٰ اجتہاد پر مبنی تھا۔ مجتہد اگر خطا کار بھی ہوتو اسے ایک اجر ضرور ملتا ہے۔ (3) بہرحال خوارج کے بارے میں نرم گوشہ نہیں رکھنا چاہیے۔ انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر کہا، حالانکہ اس مقدس گروہ کو کافر کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6686
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6935
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6935
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6935
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
تمہید باب
خوارج کا ظہور اس وقت ہوا جب حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صلح آخری مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔فیصلہ کرنے والوں کی تعیناتی ہوچکی تھی۔اس وقت خوارج نے فیصلۂ تحکیم کو بنیاد بنا کر فتنۂ تکفیر کو ہوا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بدترین مخلوق کہا تھا۔چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت نے ان کا قلع قمع کیا تھا،اس لیے بعض لوگوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین وتنقیص کرنا شروع کردی۔امام بخاری رحمہ اللہ اس امر کی وضاحت کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دو ایسے گروہ آپس میں جنگ نہ کریں جن کا دعویٰ ایک ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ایک رویت میں ہے کہ دو بڑی جماعتوں کے درمیان جنگ عظیم ہوگی۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7121) ان دونوں بڑی جماعتوں سے مراد حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی جماعت ہے اور جنگ عظیم سے مراد جنگ صفین ہے۔ ان دونوں کا دعویٰ ایک، یعنی اسلام تھا۔ ان میں ہر گروہ یقین رکھتا تھا کہ وہ حق پر ہے۔ (2) طبری کی روایت میں ہے کہ جب باغی گروہ، یعنی خوارج کا ظہور ہو گا تو ان دونوں جماعتوں میں سے جو حق کے زیادہ قریب ہوگی باغی لوگوں کو قتل کرے گی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مناسبت سے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث ذکر کی ہے۔ (فتح الباري:378/12) اس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کا کوئی پہلو ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس کا دعویٰ اجتہاد پر مبنی تھا۔ مجتہد اگر خطا کار بھی ہوتو اسے ایک اجر ضرور ملتا ہے۔ (3) بہرحال خوارج کے بارے میں نرم گوشہ نہیں رکھنا چاہیے۔ انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر کہا، حالانکہ اس مقدس گروہ کو کافر کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دو ایسے گروہ آپس میں جنگ نہ کریں جن کا دعویٰ ایک ہی ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "The Hour will not be established till two (huge) groups fight against each other, their claim being one and the same."