مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6936.
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہشام بن حکیم ؓ کی سورہ فرقان پڑھتے ہوئے سنا۔ میں نے ان کی قراءت کی طرف کان لگایا تو بہت سی ایسی قراءتوں کے ساتھ پڑھ رہے تھے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائی تھیں۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر حملہ کر دیتا لیکن میں نے ان کی یا اپنی چادر ان کے گلے میں ڈالی اور کہا: یہ سورت تمہیں کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! تم غلط بیانی کرتے ہو۔ یہ سورت مجھے بھی رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی ہے جو میں نے ابھی تم سے پڑھتے سنی ہے، چنانچہ میں انہیں کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے انہیں سورہ فرقان ایک اور انداز سے پڑھتے ہوئے سنا ہے، حالانکہ آپ نے اس انداز سے وہ سورت نہیں پڑھائی جبکہ آپ ہی نے مجھے وہ سورت پڑھائی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عمر! اسے چھوڑ دو۔ اے ہشام! تم اس سورت کو پڑھو۔ انہوں نے اسی انداز سے پڑھا جس طرح میں نے انہیں پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی تھی۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے عمر! اب تم پڑھو۔“ میں نے اسے پڑھا تو آپ نے فرمایا: ”بے شک یہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے جو قراءت تمہیں آسان ہو، اس میں پڑھ لیا کرو۔“
تشریح:
اگر کوئی شخص غلط کام کرتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی معقول وجہ یا تاویل ہے تو اس کی غلطی واضح کی جائے، اس کے علاوہ اس کی مذمت وغیرہ نہ کی جائے۔ اگر کوئی شخس کسی معقول وجہ یا تاویل کے بغیر غلط کام کرتا ہے تو وہ قابل مذمت ہے، اس لیے اس کی مذمت بھی کی جائے اور اس کی غلطی کی وضاحت بھی کی جائے جیسا کہ حدیث بالا میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہشام رضی اللہ عنہ کے گلے میں چادر کا پھندا ڈالا، اسے جھوٹا کہا اور اسے اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کچھ نہ کہا، صرف اتنا کہا کہ قرآن کی قراءتوں میں وسعت ہے جو آسان لگے اسے پڑھ لیا جائے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک معقول وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے خیال کے مطابق حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کو قرآن غلط پڑھتے ہوئے سنا، اس پر انھوں نے انکار کیا اور انھیں جھوٹ کی طرف منسوب بھی کیا۔ ایسے حالات میں ہمارا بھی یہی فرض ہے کہ اگر ہم کسی کو غلط کام کرتا دیکھیں تو اسے ڈانٹنے کے بجائے پہلے ہم اس غلطی کی وضاحت کریں جس پر وہ گامزن ہے۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
7000
٢
ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
6936
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
6423.91
٤
ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
6936.91
٥
ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
6537.91
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6687
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6936
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6936
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6936
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
تمہید باب
خوارج نے حاکم وقت سے بغاوت کرنے اور انھیں کافر قرار دینے میں ایک آیت کریمہ کا سہارا لیا تھا جسے انھوں نے غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا۔دوسرے الفاظ میں انھوں نے اس کی تاویل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں پر چسپاں کیا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی تاویل ہے جس سے تاویل کرنے والے کو تحفظ ملتا ہے اور ایسی تاویل کے اصول وضوابط کیا ہیں؟امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی مقصد کے لیے قائم کیا ہے۔ پیش کردہ احادیث سے وہ اصول وضوابط معلوم کیے جاسکتے ہیں جو تاویل کی صحت کے لیے ضروری ہیں۔بہرحال اگر کوئی کفریہ کام یا کفریہ بات کا مرتکب ہو اور اپنے پاس اس کے لیے کوئی معقول تاویل رکھتا ہوتو اسے معذور تصور کیا جائے گا۔ معقول تاویل کے لیے تین شرطوں کا ہونا ضروری ہے:٭عربی قاعدے کے مطابق الفاظ میں اس کی تاویل کی گنجائش موجود ہو۔٭علمی طور پر اس عمل یا بات کی توجیہ ممکن ہو۔٭تاویل کرنے والے کی نیت صحیح ہو،اس میں کوئی فتور نہ ہو۔اگر کسی کو تاویل سے اتفاق نہ ہویا معقول وجہ کو ماننے کے لیے آمادہ نہ ہو تو اسے غلط ٹھہرانے کے بجائے اس کی تاویل یا معقول وجہ کا بودا پن واضح کرنا چاہیے۔واضح رہے کہ ہر قسم کی تاویل سے متأول(تاویل کرنے والے) کو معذور تصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ تاویل کار گر ہوگی جس کی بنیاد کسی شرعی دلیل میں غور وفکر پر ہو لیکن اس شرعی دلیل کو سمجھنے میں اسے غلطی لگ جائے، مثلاً: حضرت قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ نے شراب نوشی کی۔ جب انھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں پیش کیا گیا تو انھوں نے درج ذیل آیت بطور دلیل پیش کردی:" جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے انھیں اس بات پر کچھ گناہ نہیں ہوگا جو پہلے شراب پی چکے ہیں،جبکہ آئندہ اس سے پرہیز کریں،ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔"(المائدہ5: 93) اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تونے تاویل میں غلطی کا ارتکاب کیا ہے اگر تو اللہ سے ڈرتا تو ضرور شراب نوشی سے پرہیز کرتا۔(الاصابۃ"3/229)اگر تاویل کی بنیاد کوئی شرعی دلیل نہیں بلکہ عقل وقیاس اور خواہشات نفس ہیں تو اس قسم کی تاویل کرنے والا معذور نہیں ہوگا جیسا کہ قرآن کریم کی وضاحت کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس لعین سے سوال کیا کہ تونے آدم کو سجدہ کیاں نہیں کیا؟تو اس نے جواب دیا: میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تونے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔ابلیس نے اپنی ہٹ دھرمی کو جواز مہیا کرنے کے لیے غلط تاویل کا سہارا لیا،اس لیے راندۂ درگاہ ہوا۔اسی طرح باطنی حضرات نے شرعی واجبات سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے غلط تاویلات کا سہارا لیا۔ہم اس سلسلے میں دور حاضر کے روشن خیال لوگوں کی دوتاویلیں بطور مثال پیش کرتے ہیں:٭معجزات کے منکرین نے حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آیات کا یوں ترجمہ کیا ہے: " اگر وہ بہترین تیراک(تیرنے والے) نہ ہوتے تو وہ سمندر کے پیٹ میں قیامت تک رہتے۔"حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے: "اگر وہ ہماری تسبیح کرنے والے نہ ہوتے تو مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک رہتے۔"(الصٰفٰت37: 143، 144)عربی قواعد کے اعتبار سے اگرچہ الفاظ میں اس کی گنجائش ہے لیکن ان حضرات کی نیت میں فتور ہے کیونکہ وہ اس آڑ میں معجزات کا انکار کرنا چاہتے ہیں۔٭قادیانی حضرات کو بھی کسی شرعی دلیل کو سمجھنے میں غلطی نہیں لگی بلکہ انھوں نے اپنی غلط تاویلات کے سہارے قصر نبوت میں نقب زنی کی ہے۔انھوں نے قرآنی الفاظ(خاتم النبین) کے یہ معنی کہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ انبیاء کے لیے مہر کاکام دیتے ہیں،یعنی اپنی مہرلگاکر انھیں پروانۂ نبوت عطا کرتے ہیں۔اس قسم کی تاویلات خواہشات نفس کا پلندہ ہیں، تاہم علمائے امت نے تأویلات کا بودا پن ان پر ظاہر کردیا۔اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ پیش کریں گے۔ انشاء اللہ۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہشام بن حکیم ؓ کی سورہ فرقان پڑھتے ہوئے سنا۔ میں نے ان کی قراءت کی طرف کان لگایا تو بہت سی ایسی قراءتوں کے ساتھ پڑھ رہے تھے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائی تھیں۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر حملہ کر دیتا لیکن میں نے ان کی یا اپنی چادر ان کے گلے میں ڈالی اور کہا: یہ سورت تمہیں کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! تم غلط بیانی کرتے ہو۔ یہ سورت مجھے بھی رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی ہے جو میں نے ابھی تم سے پڑھتے سنی ہے، چنانچہ میں انہیں کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے انہیں سورہ فرقان ایک اور انداز سے پڑھتے ہوئے سنا ہے، حالانکہ آپ نے اس انداز سے وہ سورت نہیں پڑھائی جبکہ آپ ہی نے مجھے وہ سورت پڑھائی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عمر! اسے چھوڑ دو۔ اے ہشام! تم اس سورت کو پڑھو۔ انہوں نے اسی انداز سے پڑھا جس طرح میں نے انہیں پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی تھی۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے عمر! اب تم پڑھو۔“ میں نے اسے پڑھا تو آپ نے فرمایا: ”بے شک یہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے جو قراءت تمہیں آسان ہو، اس میں پڑھ لیا کرو۔“
حدیث حاشیہ:
اگر کوئی شخص غلط کام کرتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی معقول وجہ یا تاویل ہے تو اس کی غلطی واضح کی جائے، اس کے علاوہ اس کی مذمت وغیرہ نہ کی جائے۔ اگر کوئی شخس کسی معقول وجہ یا تاویل کے بغیر غلط کام کرتا ہے تو وہ قابل مذمت ہے، اس لیے اس کی مذمت بھی کی جائے اور اس کی غلطی کی وضاحت بھی کی جائے جیسا کہ حدیث بالا میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہشام رضی اللہ عنہ کے گلے میں چادر کا پھندا ڈالا، اسے جھوٹا کہا اور اسے اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کچھ نہ کہا، صرف اتنا کہا کہ قرآن کی قراءتوں میں وسعت ہے جو آسان لگے اسے پڑھ لیا جائے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک معقول وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے خیال کے مطابق حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کو قرآن غلط پڑھتے ہوئے سنا، اس پر انھوں نے انکار کیا اور انھیں جھوٹ کی طرف منسوب بھی کیا۔ ایسے حالات میں ہمارا بھی یہی فرض ہے کہ اگر ہم کسی کو غلط کام کرتا دیکھیں تو اسے ڈانٹنے کے بجائے پہلے ہم اس غلطی کی وضاحت کریں جس پر وہ گامزن ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور حضرت ابوعبداللہ امام بخاری ؓ نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن عبدالقاری نے خبر دی، ان دونوں نے حضرت عمربن الخطاب ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ہشام بن حکیم کو نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں سورۃ الفرقان پڑھتے سنا جب غور سے سنا تو وہ بہت سی ایسی قراتوں کے ساتھ پڑھ رہے تھے جن سے آنحضرت ﷺ نے مجھے نہیں پڑھایا تھا۔ قریب تھا کہ نماز ہی میں میں ان پر حملہ کر دیتا لیکن میں نے انتظار کیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو ن کی چادر سے یا (انہوں نے یہ کہا کہ) اپنی چادر سے میں نے ان کی گردن میں پھندا ڈال دیا اور ان سے پوچھا کہ اس طرح تمہیں کس نے پڑھایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس طرح رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ جھوٹ بولتے ہو، واللہ یہ سورت مجھے بھی آنحضرت ﷺ نے پڑھائی ہے جو میں نے تمہیں ابھی پڑھتے سنا ہے۔ چنانچہ میں انہیں کھینچتا ہوا آنحضرت ﷺ کے پاس لایا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اسے سورۃ الفرقان اور طرح پر پڑھتے سنا ہے جس طرح آپ نے مجھے نہیں پڑھائی تھی۔ آپ نے مجھے بھی سورۃالفرقان پڑھائی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عمر! انہیں چھوڑ دو۔ ہشام سورت پڑھو۔ انہوں نے اسی طرح پڑھ کر سنایا جس طرح میں نے انہیں پڑھتے سنا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا عمر! اب تم پڑھو۔ میں نے پڑھا تو آپ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی پھر فرمایا یہ قرآن سات قراتوں میں نازل ہوا ہے پس تمہیں جس طرح آسانی ہو پڑھو۔
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت اس طرح پر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہشام کے گلے میں جو چادر ڈالی ان کو کھینچتے ہوئے لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی مواخذہ نہیں کیا کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے نزدیک یہ سمجھے کہ وہ ایک ناجائز قراءت کرنے والے ہیں گویا تاویل کرنے والے ٹھہرے۔ المجتهد قد یخطئ و یصیب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
I heard Hisham bin Al-Hakim reciting Surat Al-Furqan during the lifetime of Allah's Messenger (ﷺ). I listened to his recitation and noticed that he recited it in several different ways which Allah's Messenger (ﷺ) had not taught me. So I was about to jump over him during his Salat (prayer) but I waited till he finished his Salat (prayer) whereupon I put, either his upper garment or my upper garment around his neck and seized him by it and asked him, "Who has taught you this Surah?" He replied: "Allah's Messenger (ﷺ) has taught it to me." I said (to him), "You have told a lie! By Allah, Allah's Messenger (ﷺ) has taught me this Surah which I have heard you reciting." So I dragged him to the Allah's Messenger (ﷺ). I said: "O Allah's Messenger I have heard this man reciting Surat Al-Furqan in a way in which you have not taught me, and you did teach me Surah Al-Furqan." On that Allah's Messenger (ﷺ) said, "O 'Umar, release him! Recite, O Hisham". So Hisham recited before him in the way as I heard him reciting. Allah's Messenger (ﷺ) said, "It has been revealed like this." Then Allah's Messenger (ﷺ) said, "Recite, O 'Umar" So recited it. The Prophet (ﷺ) said, "It has been revealed like this." And then he added, "This Qur'an has been revealed to be recited in seven different ways, so recite it whichever way is easier for you."