مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6937.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا۔‘‘ تو نبی ﷺ کے صحابہ کو بہت پریشانی ہوئی۔ انہوں نےکہا: ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہ کیا ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کا وہ مطلب نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ یہ تو ایسے ہے جیسے حضرت لقمان نے اپنے لخت جگر سے کہا تھا: ’’اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔“
تشریح:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آیت کریمہ میں ذکر کردہ ظلم کو عموم پر محمول کیا، اس لیے وہ پریشان ہوئے کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس سے اس طرح کی کمی بیشی نہ ہوتی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں فرمایا کیونکہ ان کی یہ تاویل ظاہر اور لغت عرب کے اعتبار سے واضح تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ آیت کریمہ میں ظلم سے مراد عام ظلم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے متعلق کمی بیشی کرنا ہے، پھر اس مفہوم کی تائید کے لیے قرآن مجید کی آیت کریمہ تلاوت فرمائی جس میں لفظ ظلم اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (فتح الباري:380/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6688
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6937
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6937
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6937
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
تمہید باب
خوارج نے حاکم وقت سے بغاوت کرنے اور انھیں کافر قرار دینے میں ایک آیت کریمہ کا سہارا لیا تھا جسے انھوں نے غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا۔دوسرے الفاظ میں انھوں نے اس کی تاویل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں پر چسپاں کیا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی تاویل ہے جس سے تاویل کرنے والے کو تحفظ ملتا ہے اور ایسی تاویل کے اصول وضوابط کیا ہیں؟امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی مقصد کے لیے قائم کیا ہے۔ پیش کردہ احادیث سے وہ اصول وضوابط معلوم کیے جاسکتے ہیں جو تاویل کی صحت کے لیے ضروری ہیں۔بہرحال اگر کوئی کفریہ کام یا کفریہ بات کا مرتکب ہو اور اپنے پاس اس کے لیے کوئی معقول تاویل رکھتا ہوتو اسے معذور تصور کیا جائے گا۔ معقول تاویل کے لیے تین شرطوں کا ہونا ضروری ہے:٭عربی قاعدے کے مطابق الفاظ میں اس کی تاویل کی گنجائش موجود ہو۔٭علمی طور پر اس عمل یا بات کی توجیہ ممکن ہو۔٭تاویل کرنے والے کی نیت صحیح ہو،اس میں کوئی فتور نہ ہو۔اگر کسی کو تاویل سے اتفاق نہ ہویا معقول وجہ کو ماننے کے لیے آمادہ نہ ہو تو اسے غلط ٹھہرانے کے بجائے اس کی تاویل یا معقول وجہ کا بودا پن واضح کرنا چاہیے۔واضح رہے کہ ہر قسم کی تاویل سے متأول(تاویل کرنے والے) کو معذور تصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ تاویل کار گر ہوگی جس کی بنیاد کسی شرعی دلیل میں غور وفکر پر ہو لیکن اس شرعی دلیل کو سمجھنے میں اسے غلطی لگ جائے، مثلاً: حضرت قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ نے شراب نوشی کی۔ جب انھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں پیش کیا گیا تو انھوں نے درج ذیل آیت بطور دلیل پیش کردی:" جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے انھیں اس بات پر کچھ گناہ نہیں ہوگا جو پہلے شراب پی چکے ہیں،جبکہ آئندہ اس سے پرہیز کریں،ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔"(المائدہ5: 93) اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تونے تاویل میں غلطی کا ارتکاب کیا ہے اگر تو اللہ سے ڈرتا تو ضرور شراب نوشی سے پرہیز کرتا۔(الاصابۃ"3/229)اگر تاویل کی بنیاد کوئی شرعی دلیل نہیں بلکہ عقل وقیاس اور خواہشات نفس ہیں تو اس قسم کی تاویل کرنے والا معذور نہیں ہوگا جیسا کہ قرآن کریم کی وضاحت کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس لعین سے سوال کیا کہ تونے آدم کو سجدہ کیاں نہیں کیا؟تو اس نے جواب دیا: میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تونے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔ابلیس نے اپنی ہٹ دھرمی کو جواز مہیا کرنے کے لیے غلط تاویل کا سہارا لیا،اس لیے راندۂ درگاہ ہوا۔اسی طرح باطنی حضرات نے شرعی واجبات سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے غلط تاویلات کا سہارا لیا۔ہم اس سلسلے میں دور حاضر کے روشن خیال لوگوں کی دوتاویلیں بطور مثال پیش کرتے ہیں:٭معجزات کے منکرین نے حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آیات کا یوں ترجمہ کیا ہے: " اگر وہ بہترین تیراک(تیرنے والے) نہ ہوتے تو وہ سمندر کے پیٹ میں قیامت تک رہتے۔"حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے: "اگر وہ ہماری تسبیح کرنے والے نہ ہوتے تو مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک رہتے۔"(الصٰفٰت37: 143، 144)عربی قواعد کے اعتبار سے اگرچہ الفاظ میں اس کی گنجائش ہے لیکن ان حضرات کی نیت میں فتور ہے کیونکہ وہ اس آڑ میں معجزات کا انکار کرنا چاہتے ہیں۔٭قادیانی حضرات کو بھی کسی شرعی دلیل کو سمجھنے میں غلطی نہیں لگی بلکہ انھوں نے اپنی غلط تاویلات کے سہارے قصر نبوت میں نقب زنی کی ہے۔انھوں نے قرآنی الفاظ(خاتم النبین) کے یہ معنی کہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ انبیاء کے لیے مہر کاکام دیتے ہیں،یعنی اپنی مہرلگاکر انھیں پروانۂ نبوت عطا کرتے ہیں۔اس قسم کی تاویلات خواہشات نفس کا پلندہ ہیں، تاہم علمائے امت نے تأویلات کا بودا پن ان پر ظاہر کردیا۔اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ پیش کریں گے۔ انشاء اللہ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا۔‘‘ تو نبی ﷺ کے صحابہ کو بہت پریشانی ہوئی۔ انہوں نےکہا: ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہ کیا ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کا وہ مطلب نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ یہ تو ایسے ہے جیسے حضرت لقمان نے اپنے لخت جگر سے کہا تھا: ’’اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔“
حدیث حاشیہ:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آیت کریمہ میں ذکر کردہ ظلم کو عموم پر محمول کیا، اس لیے وہ پریشان ہوئے کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس سے اس طرح کی کمی بیشی نہ ہوتی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں فرمایا کیونکہ ان کی یہ تاویل ظاہر اور لغت عرب کے اعتبار سے واضح تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ آیت کریمہ میں ظلم سے مراد عام ظلم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے متعلق کمی بیشی کرنا ہے، پھر اس مفہوم کی تائید کے لیے قرآن مجید کی آیت کریمہ تلاوت فرمائی جس میں لفظ ظلم اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (فتح الباري:380/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر دی (دوسری سند) حضرت امام بخاری نے کہا، ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ”وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا۔“ تو صحابہ کو یہ معاملہ بہت مشکل نظرآیا اور انہوں نے کہا ہم میں کون ہوگا جو ظلم نہ کرتا ہو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا مطلب حضرت لقمان ؑ کے اس ارشاد میں ہے جو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا تھا کہ ”اے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ بلاشبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔“
حدیث حاشیہ:
باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر مواخذہ نہیں کیا جنہوں نے مالک کو منافق کہا تھا اس لیے کہ وہ تاویل کرنے والے تھے یعنی مالک کے حالات کو دیکھ کر اسے منافق سمجھتے تھے تو ان کا گمان غلط ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : When the Verse:--'Those who believe and did not confuse their belief with wrong (worshipping others besides Allah).' (6.82) was revealed, it was hard on the companions of the Prophet (ﷺ) and they said, "Who among us has not wronged (oppressed) himself?" Allah's Apostle (ﷺ) said, "The meaning of the Verse is not as you think, but it is as Luqman said to his son, 'O my son! Join not in worship others with Allah, Verily! Joining others in worship with Allah is a great wrong indeed.'" (31.13)