باب: اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”جس پر زبردستی کی جائے اور درآنحالیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو لیکن جس کا دل کفر ہی کے لیے کھل جائے تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہو گا اور ان کے لیے عذاب درد ناک ہو گا۔
)
Sahi-Bukhari:
(Statements made under) Coercion
(Chapter: )
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورۃ آل عمران میں فرمایا یعنی ”یہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم کافروں سے اپنے کو بچانے کے لیے کچھ بچاؤ کر لو۔ ظاہر میں ان کے دوست بن جاؤ یعنی تقیہ کرو۔“ اور سورۃ نساء میں فرمایا ”بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بےبس تھے اور ہمارے لیے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کر دے۔“ آخر آیت تک۔ امام بخاری نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجا لانے سے معذور رکھا اور جس کے ساتھ زبردستی کی جائے وہ بھی کمزور ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس کام سے منع کیا ہے وہ اس کے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ تقیہ کا جواز قیامت تک کے لیے ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کے ساتھ چوروں نے زبردستی کی ہو (کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے) اور پھر اس نے طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی یہی قول ابن زبیر، شعبی اور حسن کا بھی ہے اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔اس حدیث سے بھی امام بخاری نے یہ دلیل لی کہ جس شخص سے زبردستی طلاق لی جائےتو طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ اس نیت طلاق کی نہ تھی معلوم ہوا کہ زبردستی کرنا اسلام میں جائز نہیں ہے رافضیوں جیسا تقیہ بطور شعار جائز نہیں ہے۔
6940.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نمار میں (ان الفاظ کے ساتھ) دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! عیاش بن ابو ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن ولید ؓ کو نجات دے۔ اے اللہ! تو بے بس اور مجبور مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! مضر قبیلے پر اپنی گرفت سخت کر اور ان پر ایسا قحط مسلط کر جیسا یوسف ؑ کے زمانے میں آیا تھا۔“
تشریح:
1۔ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ اہل مشرق جو مضر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ان دنوں مسلمان نہ تھے بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے مخالف تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان حدیث 804) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ دباؤ کی وجہ سے کفر اختیار کرنا حقیقی کفر نہیں اگرایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان بے بس اور مجبور لوگوں کے لیے دعا نہ فرماتے اور انھیں مومن قرارنہ دیتے،نیز اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جس پر جبر کیا جائے وہ کمزور ہی ہوتا ہے۔ 3۔ واضح رہے کہ کمزور مسلمان ان دنوں مکہ مکرمہ میں کافروں کے ہاتھوں میں گرفتار تھے اور ان کے جبر کرنے سے وہ کفر کے کاموں میں بھی شریک رہتے ہوں گے لیکن اکراہ کی وجہ سے انھوں نے اسے اختیار کیا اور ایسی حالت میں مجبوری اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري: 394/12)
اور سورۃ آل عمران میں فرمایا یعنی ”یہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم کافروں سے اپنے کو بچانے کے لیے کچھ بچاؤ کر لو۔ ظاہر میں ان کے دوست بن جاؤ یعنی تقیہ کرو۔“ اور سورۃ نساء میں فرمایا ”بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بےبس تھے اور ہمارے لیے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کر دے۔“ آخر آیت تک۔ امام بخاری نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجا لانے سے معذور رکھا اور جس کے ساتھ زبردستی کی جائے وہ بھی کمزور ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس کام سے منع کیا ہے وہ اس کے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ تقیہ کا جواز قیامت تک کے لیے ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کے ساتھ چوروں نے زبردستی کی ہو (کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے) اور پھر اس نے طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی یہی قول ابن زبیر، شعبی اور حسن کا بھی ہے اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔اس حدیث سے بھی امام بخاری نے یہ دلیل لی کہ جس شخص سے زبردستی طلاق لی جائےتو طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ اس نیت طلاق کی نہ تھی معلوم ہوا کہ زبردستی کرنا اسلام میں جائز نہیں ہے رافضیوں جیسا تقیہ بطور شعار جائز نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نمار میں (ان الفاظ کے ساتھ) دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! عیاش بن ابو ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن ولید ؓ کو نجات دے۔ اے اللہ! تو بے بس اور مجبور مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! مضر قبیلے پر اپنی گرفت سخت کر اور ان پر ایسا قحط مسلط کر جیسا یوسف ؑ کے زمانے میں آیا تھا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ اہل مشرق جو مضر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ان دنوں مسلمان نہ تھے بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے مخالف تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان حدیث 804) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ دباؤ کی وجہ سے کفر اختیار کرنا حقیقی کفر نہیں اگرایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان بے بس اور مجبور لوگوں کے لیے دعا نہ فرماتے اور انھیں مومن قرارنہ دیتے،نیز اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جس پر جبر کیا جائے وہ کمزور ہی ہوتا ہے۔ 3۔ واضح رہے کہ کمزور مسلمان ان دنوں مکہ مکرمہ میں کافروں کے ہاتھوں میں گرفتار تھے اور ان کے جبر کرنے سے وہ کفر کے کاموں میں بھی شریک رہتے ہوں گے لیکن اکراہ کی وجہ سے انھوں نے اسے اختیار کیا اور ایسی حالت میں مجبوری اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري: 394/12)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”(جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ تعالٰی سے کفر کیا) سوائے اس کے جسے مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو(تو یہ معاف ہے) مگر جس نے برضا و رغبت کفر قبول کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انھی کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔“نیز فرمایا: ”(اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ مومنوں کو چھوڑا کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو اسیا کرے گا اسے اللہ سے کوئی واسطہ نہیں) الایہ کہ تمہیں ان (کافروں) سے بچنے کے لیے اس قسم کا طرز عمل اختیار کرنا پڑے“ آیت کریمہ میں نقاۃ کے معنیٰ تقیہ ہیں۔ نیز ارشاد گرامی ہے: ”یقیناً جو لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے جب رشتے ان کی روح قبض کرنے کے لیے آتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں: تم کس حال میں مبتلا تھے؟ وہ کہتے ہیں: ہم اس سرزمین میں بالکل کمزور تھے۔ بے حد معاف کرنے والا نہایت بخشنے والا ہے۔“نیز فرمایا: ”جبکہ کئی کمزور،مرد،عورتیں اور بچے ایسے ہیں جو یہ فریاد کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جناب سے ہمارے لیے کوئی حامی اور مدد گار پیدا فرمادے۔“اس آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجا لانے سے معذوز رکھا اور جس کے ساتھ جبر کیا جائے وہ بھی کمزور ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے جس کام سے منع کیا ہےوہ اس کے کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ امام بصری نے کہا: تقیہ کرنے جا جواز قیامت تک کے لیے ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس کے ساتھ چوروں نے زبردستی کی ہو، پھر اس نے ان کے جبر کرنے پر اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو وہ واقع نہیں ہوگی۔ ابن زبیر، شعبی اور حسن بصری کا بھی یہی موقف ہے اور نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”اعمال نیت پر موقوف ہیں۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے خالف بن یزید نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی ہلال بن اسامہ نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی اور انہیں حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نماز میں دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عیاش بن ابی ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن الولید ؓ کو نجات دے۔ اے اللہ بے بس مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ پیس ڈال اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی حضرت یوسف ؑ کے زمانہ میں آئی تھی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ کمزور مسلمان مکہ کے کافروں کے ہاتھوں میں گرفتار تھے۔ ان کو زورزبردستی سے ان کے کفر کے کاموں میں شریک رہتے ہوں گے لیکن آپ نے دعا میں ان کو مومن فرمایا کہ اکراہ کی حالت میں مجبوری عنداللہ قبول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abi Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) used to invoke Allah in his prayer, "O Allah! Save 'Aiyash bin Abi Rabi'a and Salama bin Hisham and Al-Walid bin Al-Walid; O Allah! Save the weak among the believers; O Allah! Be hard upon the tribe of Mudar and inflict years (of famine) upon them like the (famine) years of Joseph."