باب : جس نے کفر پر مار کھانے، قتل کئے جانے اور ذلت کو اختیار کیا
)
Sahi-Bukhari:
(Statements made under) Coercion
(Chapter: Whoever preferred to be beaten killed and humiliated rather than to revert to Kufr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6941.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین خصلیتیں ایسی ہیں جس میں وہ پائی جائیں وہ ایمان کی مٹھاس (اور لذت) چکھ لیتا ہے: اللہ اور اس کے رسول، اسے سب ست زیادہ پیارے اور محبوب ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی سے محبت صرف اللہ کے لیے کرے۔ تیسرے یہ کہ اسے کفر میں لوٹ جانا اتنا برا لگے جیسے وہ آگ میں ڈالے جانے کو برا خیال کرتا ہے۔“
تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ جب اس کو اللہ تعالیٰ نے کفر سے نجات دے دی ہے تو کفر کو دوبارہ اختیار کرنے کی نسبت آگ میں چھلانگ لگانے کو زیادہ پسندکرے۔ (صحیح البخاري، الأدب حدیث 6041) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کردہ حدیث میں اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے یعنی وہ بندہ مومن آگ میں کود پڑنے کى تکلیف کو زیادہ ترجیح دے گا لیکن کفر کو اختیار نہیں کرے گا۔ 2۔اگرچہ جبر و اکراہ کے وقت کفریہ کام یا کفریہ بات کرنے کی رخصت ہے لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے رخصت پر عمل کرنے کے بجائے عزیمت کو اختیار کیا اور کفار کے مصائب وآلام کو خندہ پیشانی سے قبول کیا لیکن کلمہ کفر کہہ کر اہل کفر کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں کیا۔ 3۔قرآن کریم میں اصحاب الاخدود اورحدیث مبارکہ میں غلام کا واقعہ بیان ہوا ہے، انھوں نے بھی اسی قسم کی مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان حضرات نے ہمارے لیے درج ذیل نمونہ چھوڑا ہے: ’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے،پھر اس پر ڈٹ گئے ،ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ تم ڈرو اور نہ غمگین ہی ہواور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی۔وہاں تمھیں وہی کچھ ملے گا جو تمہارا جی چاہے گا اور جو کچھ مانگو گے تمہارا ہوگا۔یہ بے حد بخشنے والے نہایت مہربان کی طرف سے تمہاری مہمانی ہوگی۔‘‘(حٰم السجدة: 30/41، 32)
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سینے پر بھاری بھرکم پتھر رکھ کر انھیں کفر اختایر کرنے اور شرک کرنے کے متعلق مجبور کیا جاتا لیکن وہ اَحَد اَحَد کانعرہ لگا کر کفروشرک کاانکار کردیتے۔حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشرکین آگ کے الاؤمیں پھینک دیتے حتی کہ ان کے جسم کی چربی آگ کو ٹھنڈا کردیتی،لیکن کلمہ کفر زبان پر نہ لاتے۔ایسے حالات میں ان کے لیے رخصت پر عمل کرناجائز تھا لیکن انھوں نے عملی طور پر عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ان کے علاوہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والدین حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کفار کاعذاب کاعذاب سہتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن کفر کی بات یا شرک کا کام کرکے کافروں کا دل اور سینہ ٹھنڈا نہیں کیا۔بہرحال یہ تمام واقعات اسلامی تاریخ کاحصہ ہیں لیکن یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرائط کے مطابق نہ تھے،اس لیے انھیں ذکر کرنے کے بجائے مذکورہ عنوان سے اس کی طرف اشارہ کردیا ہے۔(فتح الباری 12/395)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین خصلیتیں ایسی ہیں جس میں وہ پائی جائیں وہ ایمان کی مٹھاس (اور لذت) چکھ لیتا ہے: اللہ اور اس کے رسول، اسے سب ست زیادہ پیارے اور محبوب ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی سے محبت صرف اللہ کے لیے کرے۔ تیسرے یہ کہ اسے کفر میں لوٹ جانا اتنا برا لگے جیسے وہ آگ میں ڈالے جانے کو برا خیال کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت میں ہے کہ جب اس کو اللہ تعالیٰ نے کفر سے نجات دے دی ہے تو کفر کو دوبارہ اختیار کرنے کی نسبت آگ میں چھلانگ لگانے کو زیادہ پسندکرے۔ (صحیح البخاري، الأدب حدیث 6041) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کردہ حدیث میں اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے یعنی وہ بندہ مومن آگ میں کود پڑنے کى تکلیف کو زیادہ ترجیح دے گا لیکن کفر کو اختیار نہیں کرے گا۔ 2۔اگرچہ جبر و اکراہ کے وقت کفریہ کام یا کفریہ بات کرنے کی رخصت ہے لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے رخصت پر عمل کرنے کے بجائے عزیمت کو اختیار کیا اور کفار کے مصائب وآلام کو خندہ پیشانی سے قبول کیا لیکن کلمہ کفر کہہ کر اہل کفر کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں کیا۔ 3۔قرآن کریم میں اصحاب الاخدود اورحدیث مبارکہ میں غلام کا واقعہ بیان ہوا ہے، انھوں نے بھی اسی قسم کی مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان حضرات نے ہمارے لیے درج ذیل نمونہ چھوڑا ہے: ’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے،پھر اس پر ڈٹ گئے ،ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ تم ڈرو اور نہ غمگین ہی ہواور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی۔وہاں تمھیں وہی کچھ ملے گا جو تمہارا جی چاہے گا اور جو کچھ مانگو گے تمہارا ہوگا۔یہ بے حد بخشنے والے نہایت مہربان کی طرف سے تمہاری مہمانی ہوگی۔‘‘(حٰم السجدة: 30/41، 32)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب الطائفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے بیان کیا، اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین خصوصیتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں گی وہ ایمان کی شیرینی پا لے گا اول یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اسے سب سے زیادہ عزیز ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی شخص سے محبت صرف اللہ ہی کے لیے کرے تیسرے یہ کہ اسے کفر کی طرف لوٹ کر جانا اتنا ناگوار ہو جیسے آگ میں پھینک دیا جانا۔
حدیث حاشیہ:
اس سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ قتل اورضرب سب اس سے آسان ہے کہ آدمی آگ میں جلایا جائے وہ مارپیٹ یا ذلت یا قتل کو آسان سمجھے گا لیکن کفر گوارا نہ کرےگا۔ بعضوں نے کہا کہ قتل کا جب ڈر ہو تو کلمہ کفر منہ سےنکال دینا اور جان بچانا بہتر ہے مگر صحیح یہی ہےکہ صبر بہترہے جیسا کہ حضرت بلال کےواقعہ سےظاہر ہے باقی تقیہ کرنا اس وقت ہماری شریعت میں جائز ہے جب آدمی اپنی جان یامال جانے کا ڈر ہو پھر بھی تقیہ نہ کرے توبہیر ہے۔ رافضیوں کا تقیہ بزدلی اور بے شرمی کی بات ہے وہ تقیہ کو جا و بے جا اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ إنا للہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever possesses the (following) three qualities will have the sweetness of faith (1): The one to whom Allah and His Apostle (ﷺ) becomes dearer than anything else; (2) Who loves a person and he loves him only for Allah's Sake; (3) who hates to revert to atheism (disbelief) as he hates to be thrown into the Fire."