Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: (Tricks) in As-Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6954.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں کرتا جب وہ بے وضو ہو جائے حتیٰ کہ وہ وضو کرے۔“
تشریح:
1۔ایک حدیث میں ہے کہ نماز شروع کرتے وقت جب اللہ اکبر کہا جاتا ہے تو خارجی چیزیں حرام ہو جاتی ہیں، پھر سلام پھیرنے سے وہ حلال ہوتی ہیں۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 61) اس کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ اور سلام پھیرنا دونوں نماز کے رکن ہیں، جنھیں حدیث بالا کے مطابق باوضو ادا ہونا چاہیے۔ لیکن کچھ حضرات کا خیال ہے کہ آخری تشہد میں اگر کوئی شخص تشہد مکمل کرنے کے بعد جان بوجھ کر کوئی ایسا فعل سرانجام دے جو نماز کے منافی ہو اور سلام نہ پھیرے تو نماز مکمل ہے جیسا کہ شرح وقایہ میں ہے کہ سلام کے وقت جان بوجھ کر بے وضو ہو جائے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ (شرح وقایة، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة: 510/1) 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کی تردید کی ہے کیونکہ یہ حضرات نماز میں بے وضو ہونے کے باوجود نماز کی صحت کے لیے حیلہ کرتے ہیں، حالانکہ آخری تشہد میں بے وضو ہونے والا بھی بے وضو ہی ہے، لہذا اس کی نماز صحیح نہ ہوگی کیونکہ نماز سے باہر ہونا بھی نماز کا رکن ہے جو سلام پھیرنے سے پورا ہوتا ہے، اگر اس آخری رکن کو بے وضو ہو کرادا کیا گیا تو نماز نہیں ہوگی۔ 3۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ سلام بھی عبادت کی جنس میں سے ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے بندوں کے لیے دعا پر مشتمل ہوتا ہے، لہذا کسی صورت "حدث فاحش" ذکر حسن کے قائم مقام نہیں ہو سکتا۔ (فتح الباري: 412/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6705
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6954
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6954
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6954
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں کرتا جب وہ بے وضو ہو جائے حتیٰ کہ وہ وضو کرے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ایک حدیث میں ہے کہ نماز شروع کرتے وقت جب اللہ اکبر کہا جاتا ہے تو خارجی چیزیں حرام ہو جاتی ہیں، پھر سلام پھیرنے سے وہ حلال ہوتی ہیں۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 61) اس کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ اور سلام پھیرنا دونوں نماز کے رکن ہیں، جنھیں حدیث بالا کے مطابق باوضو ادا ہونا چاہیے۔ لیکن کچھ حضرات کا خیال ہے کہ آخری تشہد میں اگر کوئی شخص تشہد مکمل کرنے کے بعد جان بوجھ کر کوئی ایسا فعل سرانجام دے جو نماز کے منافی ہو اور سلام نہ پھیرے تو نماز مکمل ہے جیسا کہ شرح وقایہ میں ہے کہ سلام کے وقت جان بوجھ کر بے وضو ہو جائے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ (شرح وقایة، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة: 510/1) 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کی تردید کی ہے کیونکہ یہ حضرات نماز میں بے وضو ہونے کے باوجود نماز کی صحت کے لیے حیلہ کرتے ہیں، حالانکہ آخری تشہد میں بے وضو ہونے والا بھی بے وضو ہی ہے، لہذا اس کی نماز صحیح نہ ہوگی کیونکہ نماز سے باہر ہونا بھی نماز کا رکن ہے جو سلام پھیرنے سے پورا ہوتا ہے، اگر اس آخری رکن کو بے وضو ہو کرادا کیا گیا تو نماز نہیں ہوگی۔ 3۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ سلام بھی عبادت کی جنس میں سے ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے بندوں کے لیے دعا پر مشتمل ہوتا ہے، لہذا کسی صورت "حدث فاحش" ذکر حسن کے قائم مقام نہیں ہو سکتا۔ (فتح الباري: 412/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے، ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جسے وضو کی ضرورت ہو یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو لاکر امام بخاری نے ان لوگوں کا رد کیا جو کہتے ہیں اگر آخر قعدہ کرکے آدمی گوز لگائے تو نماز پوری ہو جائے گی گویا یہ نماز پوری کرنے کا حیلہ ہے۔ اہل حدیث کہتے ہیں کہ نماز صحیح نہیں ہوگی کیوں کہ سلام پھیرنا بھی نماز کا ایک رکن ہے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ (تحلیلها التسلیم) تو گویا ایسا ہوا کہ نماز کے اندر حدث ہوا اور ایسی نماز باب کی حدیث کی رو سے صحیح نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Allah does not accept prayer of anyone of you if he does Hadath (passes wind) till he performs the ablution (anew)."