مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6961.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے ان سے کہا گیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ عورتوں کے متعہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر متعہ سے اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کر دیا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6711
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6961
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6961
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6961
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے ان سے کہا گیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ عورتوں کے متعہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر متعہ سے اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کر دیا تھا۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے حسن اور عبداللہ بن محمد بن علی نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ حضرت علی ؓ سے کہا گیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ عورتوں کے متعہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی لڑائی کے موقع پر متعہ سے اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کر دیا تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے حیلہ سے متعہ کر لیا تو نکاح فاسد ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ نکاح جائز ہو جائے گا اور میعاد کی شرط باطل ہو جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو امام بخاری اس لیے لائے کہ متعہ کے باب میں جو ممانعت آئی ہے وہ اس لفظ سے ہے کہ نہی عن المتعہ اور شغار کی بھی ممانعت اسی لفظ سے ہے پھر ایک عقد کو صحیح کہنا اور دوسرے کو باطل کہنا جیسا کہ بعض الناس نے اختیار کیا ہے کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے۔ حافظ نے کہا کہ دونوں میں حنفیہ یہ فرق کرتے ہیں کہ شغار اپنی اصل سے مشروع ہے لیکن اپنی صفت سے فاسد ہے اور متعہ اپنی اصل ہی سے غیرمشروع ہے۔ شغار یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے کی بیٹی سے اس شرط پر نکاح کرے کہ اپنی بیٹی اس کو بیاہ دے گا۔ بس یہی ہر دو کا مہر ہے اور کوئی مہر نہ ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ کسی نے حیلہ سے نکاح شغار کر لیا تو نکاح کا عقد درست ہو جائے گا اور شرط لغو ہوگی ہر ایک کو مہر مثل عورت کا ادا کرنا ہوگا اور ان ہی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے متعہ میں یہ کہا ہے کہ وہی نکاح بھی فاسد ہے اور شرط بھی باطل ہے وہاں یوں نہیں کہا کہ نکاح صحیح ہے اور شرط باطل اور مہر مثل لازم ہوگا۔ بہ ظاہر یہ ترجیح بلا مرجح ہے کیوں کہ متعہ اور شغار دونوں کی ممانعت یکساں حدیث سے ثابت ہے۔ بلکہ متعہ تو پہلے بعض حالات کی بنا پر حلال ہوا مگر شغار کبھی حلال نہیں ہوا اب متعہ قیامت تک کے لیے قطعاً حرام ہے۔ شغار یہ ہے کہ بلامہر آپس میں عورتوں کا تبادلہ کرنا کسی کو بلا مہر بیٹی دینا اور اس کی بیٹی بھی بلامہر لینا اور اس تبادلہ ہی کو مہر جاننا کہ اگر وہ اس کی بیٹی کو چھوڑے گا تو وہ دوسرا بھی چھوڑ دے گا۔ اس کو شبہہ کا نکاح کہتے ہیں، یہ قطعاً حرام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin 'Ali (RA) : 'Ali was told that Ibn 'Abbas (RA) did not see any harm in the Mut'a marriage. 'Ali said, "Allah's Apostle (ﷺ) forbade the Mut'a marriage on the Day of the battle of Khaibar and he forbade the eating of donkey's meat." Some people said, "If one, by a tricky way, marries temporarily, his marriage is illegal." Others said, "The marriage is valid but its condition is illegal."