باب : یتیم لڑکی سے جو مرغوبہ ہو اس کے ولی فریب دے کر یعنی مہر مثل سے کم مہر مقرر کرکے نکاح کرے تو یہ منع ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: Playing of tricks by the guardian of an attractive orphan-girl)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6965.
حضرت عروہ سے روایت ہے انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے درج زیل آیت کی تفسیر کے متعلق پوچھا: ”اور اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ تم یتیم بچیوں کے متعلق انصاف نہ کر سکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کر لو جو تمہیں پسند ہوں“ سیدہ عائشہ ؓ نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس سے مراد ایسی یتیم بچی ہے جو اپنے سر پرست کی کفالت میں ہو وہ اس کے مال ومتاع اور حسن وجمال کی وجہ سے اس میں شوق رکھتا ہو۔ پھر دوسری عورتوں کے معروف مہر سے کم حق مہر دے کر اس سے نکاح کرے۔ ایسے سرپرستوں کو ان لڑکیوں سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ہاں اگر وہ (سرپرست) پورا حق مہر دے کر انصاف کرے تو جائز ہے۔ اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے درج زیل آیت نازل فرمائی: ”اور لوگ آپ سے عورتوں کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں۔“ پھر انہوں نے بقیہ حدیث ذکر فرمائی۔
تشریح:
1۔ اگر یتیم بچی بدصورت اور مال ودولت کے اعتبار سے غریب ہوتی تو سرپرست حضرات کو اس سے کوئی دلچپسی نہ ہوتی۔ اور اگرمال دار خوبصورت ہوتی تو حیلہ سازی کرکے اس سے خود نکاح کر لیتے۔ ان کے متعلق حیلہ سازی یہ ہوتی تھی کہ انھیں معمولی حق مہر دیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس دوہرے کردار کا اس آیت کریمہ میں نوٹس لیا ہے۔ ہاں، اگرحیلہ سازی سے بچتے ہوئے اسے پورا پورا حق مہر دیں اور عدل وانصاف سے کام لیں توایسی یتیم بچیوں سے نکاح کی اجازت ہے۔ 2۔اہل ظاہر کا موقف ہے کہ اگر کوئی سرپرست اس طرح ظالمانہ طریقے سے نکاح کر لیتا ہے تو وہ صحیح نہیں ہوگا مگر جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ نکاح صحیح ہے مگر سرپرست کے لیے ضروری ہے کہ وہ یتیم بچی کو مہرمثل ادا کرے۔ بہرحال اس قسم کی حیلہ سازی کی ممانعت ہے۔ اس سے ایک مسلمان کو ہرحال میں بچنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6715
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6965
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6965
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6965
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
حضرت عروہ سے روایت ہے انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے درج زیل آیت کی تفسیر کے متعلق پوچھا: ”اور اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ تم یتیم بچیوں کے متعلق انصاف نہ کر سکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کر لو جو تمہیں پسند ہوں“ سیدہ عائشہ ؓ نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس سے مراد ایسی یتیم بچی ہے جو اپنے سر پرست کی کفالت میں ہو وہ اس کے مال ومتاع اور حسن وجمال کی وجہ سے اس میں شوق رکھتا ہو۔ پھر دوسری عورتوں کے معروف مہر سے کم حق مہر دے کر اس سے نکاح کرے۔ ایسے سرپرستوں کو ان لڑکیوں سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ہاں اگر وہ (سرپرست) پورا حق مہر دے کر انصاف کرے تو جائز ہے۔ اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے درج زیل آیت نازل فرمائی: ”اور لوگ آپ سے عورتوں کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں۔“ پھر انہوں نے بقیہ حدیث ذکر فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اگر یتیم بچی بدصورت اور مال ودولت کے اعتبار سے غریب ہوتی تو سرپرست حضرات کو اس سے کوئی دلچپسی نہ ہوتی۔ اور اگرمال دار خوبصورت ہوتی تو حیلہ سازی کرکے اس سے خود نکاح کر لیتے۔ ان کے متعلق حیلہ سازی یہ ہوتی تھی کہ انھیں معمولی حق مہر دیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس دوہرے کردار کا اس آیت کریمہ میں نوٹس لیا ہے۔ ہاں، اگرحیلہ سازی سے بچتے ہوئے اسے پورا پورا حق مہر دیں اور عدل وانصاف سے کام لیں توایسی یتیم بچیوں سے نکاح کی اجازت ہے۔ 2۔اہل ظاہر کا موقف ہے کہ اگر کوئی سرپرست اس طرح ظالمانہ طریقے سے نکاح کر لیتا ہے تو وہ صحیح نہیں ہوگا مگر جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ نکاح صحیح ہے مگر سرپرست کے لیے ضروری ہے کہ وہ یتیم بچی کو مہرمثل ادا کرے۔ بہرحال اس قسم کی حیلہ سازی کی ممانعت ہے۔ اس سے ایک مسلمان کو ہرحال میں بچنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے کہ عروہ ان سے بیان کرتے تھے کہ حضرت عائشہ ؓ نے آیت ”اور اگر تمہیں خوف ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں“ آپ نے کہا کہ اس آیت میں ایسی یتیم لڑکی کا ذکر ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور وہ لڑکی کے مال اور اس کے حسن سے رغبت رکھتا ہو اور چاہتا ہو کہ عورتوں (کے مہر وغیرہ کے متعلق) جو سب سے معمولی طریقہ ہے اس کے مطابق اس سے نکاح کرے تو ایسے ولیوں کو ان لڑکیوں کے نکاح سے منع کیا گیا ہے۔ سوا اس صورت کے کہ ولی مہر کو پورا کرنے میں انصاف سے کام لے۔ پھر لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے اس کے بعد مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ﴿وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ﴾’’اور لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں مسئلہ پوچھتے ہیں“ اور اس واقعہ کا ذکر کیا۔
حدیث حاشیہ:
آدمیوں کو اپنے زیرتربیت یتیم بچیوں سے ظالمانہ طریق پر نکاح کر لینے سے منع کیا گیا۔ ایسے میں اگر وہ نکاح کرے گا تو اہل ظاہر کے نزدیک وہ نکاح صحیح نہ ہوگا اور جمہور کے نزدیک صحیح ہو جائے گا مگر اس کو مہر مثل دینا پڑے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa (RA) : That he asked 'Aisha (RA) regarding the Verse: 'If you fear that you shall not be able to deal justly with the orphan girls, marry (other) women of your choice.' (4:3) 'Aisha (RA) said, "It is about an orphan girl under the custody of her guardian who being attracted by her wealth and beauty wants to marry her with Mahr less than other women of her status. So such guardians were forbidden to marry them unless they treat them justly by giving them their full Mahr. Then the people sought the verdict of Allah's Apostle (ﷺ) for such cases, whereupon Allah revealed: 'They ask your instruction concerning women..' (4.127) (The sub-narrator then mentioned the Hadith.)